شاید ، شاید !
لڑنے والے سب فریق رفتہ رفتہ تھک گئے۔ قدرت کا اشارہ یہ لگتاہے کہ افغانستان، برصغیر اور وسطِ ایشیا میں اب امن کے پھول کھلیں۔ قدیم تجارتی شاہراہیں پھر سے آباد ہو جائیں۔ عافیت ان سرزمینوں کو عطا ہو، مدتوں سے جو جھلس رہی ہیں، شاید، شاید!
کیا امید کی جا سکتی ہے کہ امریکہ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ تلخی میں واقعی کمی آجائے گی؟ کیا تخریب کاری کا دورواقعی انجام کو پہنچے گا؟ پاکستان اور بھارت میں تجارت کا آغاز ہو گا؟ پاکستان بھار ت کے لیے سینٹرل ایشیا کا دروازہ کھول دے گا؟ کشمیر سمیت تمام معاملات پر دونوں ملکوں میں بات چیت کا آغاز ہوگا؟ اس خطے کے ڈیڑھ ارب انسان سکھ کا سانس لے سکیں گے؟
امریکہ نے بلوچستان لبریشن آرمی کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ یہ ایک بہت بڑی خبر ہے۔ ابھی چار دن پہلے برطانیہ کے کرکٹ گرائونڈ پر جہاز سے ایک بینر لہرایا گیا، جس پر Justice for Balochistanلکھا تھا۔ بلوچستان میں اتنا ہی انصاف یا بے انصافی ہے، جتنا کسی دوسرے صوبے میں۔ مسئلہ اگر ہے تو تخریب کاری۔ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کے پیشِ نظر بھارت سے گہری امریکی دوستی اور اس کے مضمرات۔ یہ بھارت اور امریکہ ہیں، جنہوں نے بلوچ انتہا پسندوں کی سرپرستی کی۔ یہ افغانستان ہے، جس کی سرزمین سے تخریب کار پاکستان میں داخل اور خونی کھیل کھیلتے رہے۔ انٹرنیشنل میڈیا پاکستان کے خلاف تھا۔ دوسری وجوہات کے علاوہ اس لیے خلاف تھا کہ اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم نے امریکہ پہ انحصار کی پالیسی ختم کرنے اور چین کے ساتھ تعلقات میں زیادہ گہرائی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا، سی پیک جس کا مظہر ہے۔
افغانستا ن میں سوویت یونین کی پسپائی کے بعدصدر بش سینئر نے نیا عالمی نظام (New World Order)کا تصور پیش کیا تھا۔ فلسفی فرانسس فوکو یاما نے کہا تھا : یہ تاریخ کا اختتام ہے۔ کمیونزم ناکام ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام ہی اب کارفرما رہے گا۔ کہنے کو مفکر نے بڑی بات کہی مگر اتنی ہی بڑی غلطی کا ارتکاب کیا۔ جیسے کہ شہہ دماغ کارل مارکس نے کی تھی۔ انسانی جبلتیں کبھی نہیں بدلتیں۔ ایک سطح پر تصادم سرمایہ دارانہ سسٹم اور کمیونزم میں تھا، دوسری طرف یہ اقوام کی کشمکش بھی تھی۔
غلبے کی قدیم انسانی جبلت آدمی سے کبھی جدا نہیں ہوئی۔ ایک فرد دوسرے فرد پر تسلط کا آرزومند ہوتاہے، ایک قوم دوسری قوم پر۔ تاتاریوں کی یلغار علاؤ الدین خلجی نے روک دی تھی۔ وسطِ ایشیا کو روندتے جو دمشق کے دروازے تک جا پہنچے تھے۔ خلجی کا دور امن و امان کا تھا۔ اشیائے خورونوش اتنی سستی کہ یہ زمانہ ضرب المثل ہوگیا۔ درباریوں کے جلو میں ایک دن بادہ نوشی میں مصروف بادشاہ نے اعلان کیا کہ پوری دنیا فتح وہ کرے گا یا ایک نیا مذہب ایجاد کرے گا۔ ایک دانا مشیر موجود تھا، دلّی کا قاضی، جسے موٹا کوتوال کہا جاتا تھا۔
خلوت کی اس نے درخواست کی۔ اس نے کہا کہ مذہب ایجاد نہیں کیا جاتا، اپنے چنیدہ بندوں پر آسمان سے نئی شریعتوں کا نزول ہوتاہے۔ رہی دنیا کو فتح کرنے کی بات تو جہاں پناہ یونان نہیں، یہ ہندوستان ہے۔ جونہی سرحدوں سے باہر آپ نکلیں گے تو دلّی کے سازشی تخت پر چڑھ دوڑیں گے۔ خوش بختی نے علاؤ الدین کو بچا لیا۔ بعد میں آنے والے کتنے ہی حکمران حماقتوں کی نذر ہوئے۔ اکبر نے دینِ الٰہی تخلیق کیا۔ اس کی زندگی ہی میں جو مسترد کر دیا گیا۔ پہلے نپولین اور پھر ہٹلر نے روس کو فتح کرنے کی احمقانہ کوشش کی۔
انسانی تاریخ عالمی طاقتوں کا قبرستان ہے۔ قرآنِ کریم قرار دیتا ہے کہ بعض کو بعض کے ذریعے دفع کر دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا توزمین فساد سے بھر جاتی۔ روزِ ازل کا فرمان یہ تھا : تم میں سے بعض لازماً بعض کے دشمن ہوں گے۔ اللہ کی یہ کائنات جنت کبھی نہیں بن سکتی۔ خیرہ کن تنوع میں اسے خیر و شر کی کشمکش کے لیے پیدا کیا گیا۔ دائم یہ ایسی ہی رہے گی۔
خدائی کا فتور افراد ہی نہیں، اقوام میں بھی جنم لیتاہے۔ 70، 75برس کے دوران کتنی ہی بڑی طاقتیں تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دی گئیں۔ برطانیہ، فرانس اور سوویت یونین کو اپنے مقبوضات سے دستبردار ہونا پڑا۔ درجن بھر ملک فتح کرنے والا ہٹلر خون میں نہایا اور پیچھے کھنڈرات چھوڑ گیا۔ روسی سرخ افواج کی ہیبت ایک عشرے میں تحلیل ہوگئی۔ درجنوں قوموں کو آزادی ملی۔ اس دنیا کا ایک ہی پروردگار ہے۔ ازل سے وہی ہے اور ابد تک وہی رہے گا۔ انسانوں کی تقدیر وہی لکھتا ہے، فیصلے اس کے ہیں اور ہر چیز کی عنان اس کے ہاتھ میں ہے۔ فرمایا: ہر جاندار کو ہم نے اس کے ماتھے سے تھام رکھا ہے۔
جدید تحقیقات نادرِ روزگار شاعر کی تصدیق کرتی ہیں، جس نے کہا تھا
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرخامہ نوائے سروش ہے
سات برس ہوتے ہیں، پروفیسر احمد رفیق اختر نے اس موضوع پر ایک لیکچر دینے کا ارادہ کیا"کیا انسان سوچتا ہے؟ "ان کا انہماک قرآنِ کریم، احادیثِ رسولؐ اور تاریخ پر تھا؛اگرچہ انسانی نفسیات کے بھی وہ ایک عظیم شناور ہیں۔ دریں اثنا ایک خیرہ کن انکشاف ہوا۔ تیس سال کی تحقیقات کے بعد امریکی سائنسدان ڈاکٹر مارکس دریافت کر چکے تھے کہ خیال خارج سے آتا ہے۔ انہوں نے ایک مانیٹر بنا دیا تھا، آدمی کے سر پہ لگا دیا جائے تو زبان کھلنے سے چھ سیکنڈ پہلے آدمی کا ارادہ معلوم ہو جاتا۔ اثبات میں سبز اور انکار میں سرخ بتی جلنے سے۔
ہم اللہ کی آخری کتاب اور اللہ کے آخری رسولؐ پہ ایمان رکھنے والے جانتے ہیں ،کہ ایک پتہ بھی مالک کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا۔ آئن سٹائن نے یہی بات بالفاظِ دیگر کہی تھی : دیکھنا یہ چاہئیے کہ وہ ذاتِ قدیم کیا چاہتی ہے، باقی سب تفصیلات ہیں۔
روس اور چین نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ بھارت سے کشیدگی کم کی جائے۔ یہی بات امریکی کہہ رہے ہیں۔ افغانستان سے مکمل طور پروہ رخصت ہونا نہیں چاہتے۔ طالبان مخالف افغانوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد بھی یہی چاہتی ہے۔ افغانستان کی کوئی معیشت نہیں۔ افغان فوج پر چاربلین ڈالر سالانہ خر چ ہوتے ہیں۔ صنعت تو کیا، زراعت بھی برائے نام ہے۔ چین پر دباؤ برقراررکھنے کے لیے علامتی امریکی موجودگی اس خطے میں رہے گی۔ صلح ہوئی تو طالبان کو اقتدار کا بڑا حصہ نصیب ہوگا۔ ممکن ہے کہ حزبِ اسلامی سمیت دوسری پارٹیوں کو بھی حکومت میں شریک کیا جائے۔
بھارت کا کردار محدود ہو جائے گا ؛اگرچہ عظیم معاشی قوت بننے کے دروازے اس پر کھلے ہیں۔ اس کے لیے اب اسے امن درکار ہے۔ چینیوں کوبھی، جو دنیا بھر میں امریکہ کے مقابل ابھر رہے ہیں۔ روسی بھی یہی چاہتے ہیں۔ ان کا مسئلہ وسطی ایشیا ہے، افغانستان کی بے چینی جسے مضطرب رکھتی ہے۔ بظاہر قدرت کی منشا یہی دکھائی دیتی ہے۔ مدتوں پہلے اقبال ؔ نے کہا تھا : آسیا یک پیکر ِآب و گل است /ملّت افغاں در آں پیکر دل است۔ از کشاد ِ او کشادِ آسیا /ازفسادِ او فسادِ آسیا۔ ایشیا پانی اور مٹی کا ایک پیکر ہے۔ افغانستان اس پیکر کا دل ہے۔ یہ شاد ہوگا تو تمام ایشیا شادرہے گا۔ اس میں فساد ہوگا تو سارے ایشیا میں فساد۔
لڑنے والے سب فریق رفتہ رفتہ تھک گئے۔ قدرت کا اشارہ یہ لگتاہے کہ افغانستان، برصغیر اور وسطِ ایشیا میں اب امن کے پھول کھلیں۔ قدیم تجارتی شاہراہیں پھر سے آباد ہو جائیں۔ عافیت ان سرزمینوں کو عطا ہو، مدتوں سے جو جھلس رہی ہیں، شاید، شاید!