صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے
ایٹمی پروگرام کے ضمن میں امین اور پختہ کار غلام اسحٰق خاں نے کہا تھا:جم کر کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ طوفان میں کشتی کی حفاظت کرناہوتی ہے ورنہ اچھے بھلے ملک پابہ زنجیر ہو جاتے ہیں۔ سکّم اور بھوٹان بن جاتے ہیں۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کر لے
قدرت مواقع ارزاں کرتی ہے۔ اب یہ آدمی پر ہوتا ہے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے۔ لافانی ادیب شیکسپیئر نے کہا تھا: ہر شخص کی زندگی میں ایک لہر اٹھتی ہے۔ اگر وہ اس پر سوار ہو جائے تو منزل سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ شیکسپیئر وہ تھا، جس کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی ایسا پیدا
سرکارؐ نے آدم کی اولاد کو تلقین کی تھی کہ ردّعمل کی بجائے پیش قدمی کرنی چاہئیے۔ سرکارؐ کے فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ ظفر مندی پہل کرنے میں ہوتی ہے۔
ملوکیت اور غلامی کے اثرات گہرے ہیں۔ مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے ہم خوف زدگی اور انتشار میں پڑ جاتے ہیں۔ بدترین حالات میں بہترین مواقع ہمارے لیے قدرت نے اجاگر کر دیے۔ ابھی کل تک طعنہ زنی کرنے والا ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو اپنا دوست قرار دیتاہے۔ افغانستان میں انہیں ضرورت آپڑی ہے۔ ایلس ویلز نے کتنا ہی شور شرابا کیا ہو، امریکی خوب جانتے ہیں کہ اس خطے میں پاکستان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ایک سے زیادہ بار انہوں نے ہاتھ اٹھا لیا۔ ہر بار پلٹ کر آنا پڑا۔ پاکستان کے سوا کوئی نہ تھا کہ جو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے مگر مکمل طور پر نہیں۔ افغانستان کو ترک کرنے کا مطلب وسطی ایشیا سے لا تعلقی ہے اور واشنگٹن اس کا متحمل نہیں۔
ایران کے ساتھ بھی امریکی تعلقات کی نوعیت وہ ہرگز نہیں، جو چیختی چلاتی سرخیوں میں دکھائی دیتی ہے۔ ایران مشرقِ وسطیٰ کا ایک بڑا کھلاڑی ہے مگر ریاست ہائے متحدہ کو وہ مشتعل نہیں کرنا چاہتا۔ افغانستان اور عراق میں وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے۔ ایران اپنے دائرہء اثر کو بڑھانے کا آرزومند ضرورہے۔ یہ بھی کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ کو مکمل طور پر اسرائیل کے سپرد کرنے کا خواہاں۔ ظاہر ہے کہ ایرانی ملّا اس ایجنڈے سے اتفاق کریں تو ان کے اقتدار کی بنیاد ہی ختم ہو جائے۔ پسِ پردہ امریکہ اور اسرائیل سے ان کے روابط ہر حال میں برقرار رہتے ہیں۔ عرب ایران کشمکش مستقل ہے۔ حال ہی میں یمنیوں نے جدّہ سے مدینہ منورہ جانے والی ریلوے لائن کا ایک حصہ اکھاڑ دیا، متحدہ عرب امارات کو پیغام بھیجا کہ وہ باز نہ آئے تو قیمت چکانا ہوگی۔ ظاہر ہے کہ امارات والے اس کی تاب نہیں رکھتے ؛چنانچہ چپ چاپ لین دین جاری رہتا ہے، کشمکش بھی، مفاہمت بھی۔
ایران امریکہ تعلقات پہ نظر رکھنے والے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ عراق میں امریکی اڈے پر ایرانی حملہ ایک مفاہمت کے تحت ہوا، میڈیا کچھ ہی کہے، امریکہ ایران تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔ انکل سام محسوس کرتا ہے کہ اصل خطرہ اسے دوسرے مسلمان ممالک سے ہے ؛چنانچہ عالمِ عرب پہ اپنی گرفت ڈھیلی ہونے نہیں دیتا۔ یورپی ممالک کی مدد سے داخلی سیاست میں نقب لگاتا ہے، پسندیدہ لوگوں کو حکمرانی سونپنے اور برقرار رکھنے کے لیے۔ حسنی مبارک سے صدر بش نے الیکشن کرانے کو کہاتو بوڑھا حکمران بولا:اے جوان لیڈراس کا نتیجہ اخوان المسلمون کی حکومت ہوگی۔
تدبیر کنند بندہ، تقدیر کنند خندہ۔ عالمی طاقتوں، ملکوں اور قوموں کی اپنی ترجیحات ہیں، قدرت کے اپنے منصوبے۔ چند سال پہلے تک خواب میں سوچا نہ جا سکتا تھا کہ بھارت ایک دن اپنے پیدا کردہ طوفان کی زد میں ہوگا۔ ہندوستان کے یومِ جمہوریہ پر ملک بھر میں فساد برپا ہے۔ کشمیری لیڈروں نے اپیل کی ہے کہ اس دن کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا جائے۔ جہاں کہیں ممکن ہوگا، بھارتی فوج زچ کرنے کے لیے کشمیری دلاور میدان میں نکلیں، جہاں تک ہو سکا، پاکستانی پرچموں کے ساتھ نکلیں گے۔
تھنک ٹینک یہ کہتے رہے، اورپاکستانی ان میں شامل ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف مہم جوئی کرے گا۔ ممکن ہے، اب بھی کسی وقت پاگل پن کا مظاہرہ کرے لیکن فی الحال تو ان کے سر پہ آپڑی ہے۔ جنگ جو اپنی دستار سنبھالے گا یا حریف سے نبرد آزما ہوگا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی معتبر ترین آوازوں میں سے ایک، معتبر جریدے اکانومسٹ نے پہلی بار عالمِ مغرب کو متنبہ کیا ہے۔ اس کے تازہ شمارے میں سرِ ورق پر پیغام یہ ہے کہ خاردار تاروں پر پھول نہیں کھلا کرتے۔ اکانومسٹ نے بھارت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے لیے مزید مغربی سرمایہ کاری آسان نہیں ہوگی۔
اس کے برعکس پاکستان میں بعض اعتبار سے حالات سازگار ہوئے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہماری معیشت ماضی کا ملبہ اٹھائے کھڑی ہے۔ ہموار راستوں پہ سہولت سے گامزن نہیں ہو سکتی۔ ہاں مگر برطانوی حکومت نے اپنے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقے سیاحت کے لیے محفوظ ہیں۔ متعلقہ عالمی ادارے بھی یہ کہتے ہیں کہ سیر سپاٹے کے لیے پاکستان اب موزوں ترین ملک ہے۔ امریکی محسوس کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے لیے جو سپنے وہ دیکھ رہے ہیں، ان میں پاکستان کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتے۔
سی پیک وہ واقعہ ہے، جس نے دہلی ہی نہیں، واشنگٹن اور پینٹا گان کو بھی پریشان کر ڈالا ہے۔ تقریر اور بیانات کی بات دوسری ہے، عملاً اب وہ ہم سے یہ نہیں کہہ رہے کہ چین کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات اور منصوبوں سے پاکستان دستبردار ہو جائے۔ وہ اس میں تخفیف اور سست روی چاہتے ہیں۔
اسلام آباد بلکہ صحیح معنوں میں راولپنڈی اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والی بات چیت میں غالباً یہی سب سے اہم موضوع ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس نازک مرحلے پر ہمارے بلند بانگ وزیرِ اعظم اور شور مچائے بغیر منصوبہ بندی کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کس قدر توازن، احتیاط اور سلیقہ مندی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ عبد الرزاق دائود اور حفیظ شیخ کے مشوروں کو ذرا زیادہ گہرائی میں جانچنا چاہئیے۔ اس لیے کہ حفیظ شیخ اور ان کے ساتھی وہ ہیں، جو صرف دنیا کو پاکستان کے نقطہء نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ دنیا کے نقطہء نظر سے بھی پاکستان پہ نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی شہری ہیں۔ ان کے لیے قومی پرچم اور قومی سرحد کے وہ معنی بہرحال نہیں ہوتے جو عام شہریوں کے لیے۔ وہ کہ جن کے لیے ملک، محض سرزمین، کھیت کھلیان اور گھر بارنہیں ہوتے، بلکہ ایمان اور عقیدے کا حصہ بھی۔ اپنے اجداد کے مزار اور آنے والی نسلوں کے لیے سنہرے خواب۔ ازل سے آدمی آنے والے کل کی آس اور امید میں جیتا آیا ہے۔ آج بوئے گئے بیجوں پہ کل کھلنے والے پھول اور بڑھتے پھولتے اشجار پہ ثمر کی آرزو، دیہی زندگی ہے۔ رزاق دائود اچھا آدمی ہے مگر پاکستانی صنعت کار مغرب سے بے نیاز ہونے کا تصور نہیں رکھتا۔
ایٹمی پروگرام کے ضمن میں امین اور پختہ کار غلام اسحٰق خاں نے کہا تھا:جم کر کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ طوفان میں کشتی کی حفاظت کرناہوتی ہے ورنہ اچھلے بھلے ملک پابہ زنجیر ہو جاتے ہیں۔ سکّم اور بھوٹان بن جاتے ہیں۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کر لے