ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر
نہیں، تادیر یہ تماشہ باقی نہ رہے گا۔ یہ بساط اب الٹنے والی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ دھماکہ ہو جائے گا۔ ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر۔ ایسے ہی بدنما کردار تھے، اقبالؔ نے جن کے بارے میں کہا تھا
ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک
سپریم کورٹ کا فیصلہ بالاخر کیا نتائج مرتب کرے گا؟ ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ گستاخی معاف، محسوس یہ ہوتاہے کہ معزز جج حضرات کے احتیاط کی حدود خوف سے جا ملیں۔ کسی ایک یا دوسرے فریق کی ناخوشی کا اندیشہ کہ عدالت کو جانبدار کہا جائے۔ نفاذِ اسلام کے علمبردار مولانا فضل الرحمٰن نے کہ احتساب کے خوف سے کشتیاں جلا چکے، اعلانیہ دھمکی دی:فریق بننے سے گریز کیجیے۔ شبانہ روز جمہوریت کے دعوے اور دلوں میں فریب دہی کے ولولے
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
جیسا کہ بار بارجتلایا گیا: میثاقِ جمہوریت میں خفیہ رائے دہی سے الیکشن منعقد کرنے کا پیمان تھا۔ اٹھارویں ترمیم میں کتنے ہی سنگِ میل نصب ہوئے۔ اسی ایک وعدے پر عمل نہ ہوا۔ ملک کو امریکہ اور آسٹریلیا جیسی فیڈریشن بنا دیا گیا بلکہ اس سے بڑھ کرکنفڈریشن۔ خواہش کیا یہ تھی کہ موقع ملے تو فریب دہی میں کسر نہ چھوڑی جائے۔
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
دلچسپ یہ ہے کہ فائدہ تحریکِ انصاف کو پہنچا۔ میثاقِ جمہوریت کے ہنگام جو میدان میں نہیں تھی۔ چئیرمین سینیٹ کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک میں ووٹنگ سے پہلے اکثریت صادق سنجرانی کے خلاف اٹھی۔ رائے شماری ہوئی تو نتیجہ برعکس۔ 2018ء کو سینیٹ کے انتخاب میں پختون خوا سے پی ٹی آئی کے بیس ارکان نے خود کو بیچ ڈالا تھا۔ ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا تھالیکن ہماری سیاسی تاریخ میں یہ ڈھٹائی اور خود فروشی کی بدترین مثال تھی۔ چند ماہ قبل پی ٹی آئی نے پیش رفت کی ہوتی تو ممکن ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں آئینی ترمیم پر آمادہ ہو جاتیں مگر کپتان اور اس کے رفیقوں کا سیاسی افلاس۔ سیاسی پارٹیوں کی ساری توانائی باہمی کشمکش میں رائیگاں۔ عوامی مسائل نظر اندا ز، قوانین میں تبدیلیوں کے تقاضے فراموش۔
انیس سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ اب یہ ہے کہ خفیہ رائے دہی کا یکسر خاتمہ ممکن نہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹ کے ساتھ اکثریت کا فیصلہ یہ ہے:الیکشن کمیشن آئین کی شق 218-3 کے تحت الیکشن کو بدعنوانی سے محفوظ رکھے۔ قرار یہ دیا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی سمیت تمام وسائل بروئے کار لا کر الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کا پابند ہے۔ پچھلے ہفتے چیف جسٹس نے یہ کہا تھا: خفیہ بیلٹ سے متعلق حتمی فیصلہ پارلیما ن کو کرنا ہے۔ اگر آئین خفیہ بیلٹ کا حکم دیتاہے تو ایسا ہی ہوگا۔ اس سے کیا یہ مراد لی جائے کہ الیکشن کمیشن اب یہ معاملہ پارلیمان کے سپرد کردے گا۔ یہ مشکل دکھائی دیتاہے اورآخری تجزیے میں ایک بے ثمر مشق۔
ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سایہ ابرِ گریزاں سے مجھے کیا لینا
الیکشن کمیشن کی حتمی رائے یہ تھی کہ انتخابات خفیہ رائے دہی سے ہوں۔ اپوزیشن کا موقف قطعی کہ وہ اعلانیہ ووٹ گوارا نہ کرے گی۔ فیصلے میں دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ ووٹ کو خفیہ رکھنے کی پالیسی حتمی نہیں ہوتی۔ توغیر متوقع نتائج کی صورت میں الیکشن کمیشن کیا ووٹوں کی تحقیق کر سکتاہے؟ اپنی پارٹی سے بے وفائی کرنے والوں کو بے نقاب کر سکتاہے؟ ٹیکنالوجی کے استعمال کا قرینہ واضح نہیں۔ کیا الیکشن کمیشن کو ایک طریق کار وضع کرنا ہوگا؟ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، حکومتی شہ دماغ الیکشن کمیشن پہنچے تو ہیں مگر نتیجہ ابھی نامعلوم۔ ہتھیلی پہ سرسوں جمتی ہے یا نہیں جمتی۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ نے جو احکامات دیے، ان سے نتیجہ یہ نہیں نکلتاکہ ووٹنگ خفیہ نہ ہوگی۔ عدالتِ عظمیٰ نے 1968ء کے مقدمے کا حوالہ دیا ہے، عدالت نے جس میں قرار دیا تھا کہ خفیہ رکھنے کا عمل دائمی نہیں ہوتا، مستقل نہیں ہوتا۔ جنابِ عرفان قادر کے مطابق صدارتی ریفرنس میں آرٹیکل 226کے تحت صرف یہ رائے مانگی گئی کہ سینیٹ الیکشن کیا اعلانیہ رائے دہی سے ہو سکتے ہیں؟ واضح طور پر عدالت نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ اور بھی قطعی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین جب خفیہ رائے شماری کا حکم دیتا ہے تو صدرِ پاکستان کی طرف سے یہ سوال اٹھانے کا جواز ہی موجود نہ تھا۔
قانون دان کہتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں بدعنوانی کو روکنے کی ذمہ داری سپریم کورٹ نہیں بلکہ الیکشن کمیشن پہ ہے۔ ان میں سے بعض نے یہ بھی کہا کہ کمیشن کو عدالت نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا جو حکم دیا ہے، فیصلے سے زیادہ اس کی حیثیت ایک مشورے کی سی ہے۔
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
بہت ہی قیمتی وقت کھو دیا گیا۔ محسوس یہ ہوتاہے کہ خان صاحب کی حکومت بھی محض اخلاقی برتری جتلانے کی آرزومند تھی۔ سیاسی پارٹیوں سے ورنہ خاموشی کے ساتھ مذاکرات کیے جاتے۔ مگر، کیسے اور کیونکر؟ تعلقاتِ کار کبھی تھے ہی نہیں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ پنجاب کی طرح، جہاندیدہ پرویز الٰہی نے جہاں کرشمہ کر دکھایا، شور شرابے کے بغیر دوسرے صوبوں میں بھی مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ پختون خوا میں دو سیٹوں کی پیشکش حزبِ مخالف کی خدمت میں پیش کی گئی۔ وہ بھی تامل کے ساتھ۔
غمِ جاناں غمِ دوراں کی طرف یوں آیا
جانبِ شہر چلے دخترِ دہقاں جیسے
قاعدے سے ان کی حمایت تقریباً تین سیٹوں کے برابر ہے۔ منڈی بلوچستان اور پختون خوا ہی میں سجے گی۔ بلوچستان میں پی ٹی آئی نے پہلے عبد القادر اور پھر ایک دوسرے امیدوار کو ٹکٹ دیا۔ آخر میں لیکن پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ سندھ میں آخری مرحلے میں کی جانے والی پیشکش بھی ٹھکرا دی گئی، جہاں زرداری صاحب خریداری پر تلے ہیں۔
اہم ترین معرکہ اسلام آباد میں ہوگا۔ پیپلزپارٹی آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ کسی بھی قیمت پر یوسف رضا گیلانی کی فتح۔ اگر یہ ممکن ہو سکے۔ اگر دونوں چھوٹے صوبوں سے چار پانچ سیٹیں بٹوری جا سکیں تو اپوزیشن کے لیے چئیرمین سینیٹ کی سیٹ بھی شاید ممکن ہو سکے۔
حکمران پارٹی کیا چادر تان کر سوئی رہے گی اور اسٹیبلشمنٹ بھی؟ کیا بلوچستان کی حکمران پارٹی اور مرکز میں پی ٹی آئی کو رسوا ہونے دے گی؟ قابلِ اعتمادذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے کم از کم بیس ووٹ فیصلہ کن قوتوں کے زیرِ اثر ہیں۔ بلوچستان کے معاملات اور بھی نازک ہیں۔ دہشت گردی پر تلے مٹھی بھر علیحدگی پسندوں کی پشت پہ بھارت کھڑا ہے۔ ہر سال پانچ سو ملین ڈالر اس کارِ خیر پہ صرف کرتاہے۔ نہیں، یہ ممکن نہیں کہ ریاستی ادارے ملک کو متزلزل کر نے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔
ایک بات بہرحال واضح ہے۔ ہماری سیاست میں اب اخلاقی شعور کی ایک رمق بھی بروئے کار نہیں۔ اقتدار کی وحشیانہ جنگ میں ہر چیز جائز اور طیب ٹھہری ہے۔ نہیں، تادیر یہ تماشہ باقی نہ رہے گا۔ یہ بساط اب الٹنے والی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ دھماکہ ہو جائے گا۔ ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر۔ ایسے ہی بدنما کردار تھے، اقبالؔ نے جن کے بارے میں کہا تھا
ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک