Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Haroon Ur Rasheed
  3. Pathar Ke Kaleje

Pathar Ke Kaleje

پتھر کے کلیجے

فرمایا: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ اندازے کے عین مطابق سوشل میڈیا پہ ایک مہم برپا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ان معزز جج صاحبان کے خلاف، میاں محمد نواز شریف کو جنہوں نے بیرونِ ملک علاج کی اجازت دی۔ ان کے بارے میں وہی لب و لہجہ ہے، وہی اندازِ گفتگو اور وہی الزامات، جو پی ٹی آئی سے اختلاف پر لازم ہوتے ہیں۔

سامنے کا سوال یہ ہے کہ کیا عدالت کے سامنے اس کے سوا بھی کوئی راستہ موجود تھا۔ پانچ بیماریوں میں مبتلا ستّر سالہ قیدی کو علاج کے لیے سمندر پار جانے کی تائید تو خو دخان صاحب نے کر دی تھی۔ خود ان کی حکومت نے اجازت مرحمت فرمائی۔ زرِ ضمانت کا خیال تو بعد میں سوجھا، جب کابینہ میں حواریوں نے واویلا کیا۔ جب کارکنوں میں ردّعمل پھوٹا، جنہیں انتقام کا سبق ازبر ہے۔ ہر روز جلتی پہ تیل چھڑکا جاتاہے۔ جذبات کو ہر روز انگیخت کیا جاتا ہے۔

یہ وہ صورتِ حال ہے، 7دسمبر 1970ء کو منعقد ہونے والے انتخابات کے بعد جو مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئی تھی۔ بنگالی قوم پرستی کا سینکڑوں برس سے غاروں میں مقید بھوت میدان میں تھا۔ صدیاں گزر گئی تھیں اور بنگال کو کبھی کوئی بنگالی حکمران نہ ملا تھا۔ زمانوں سے ان پر برہمن، پشتون، ترک اور چند برس پہلے تک انگریز حکومت کرتے آئے تھے۔ 1946ء کا الیکشن مسلم لیگ نے جیت لیا۔ حسین شہید سہروردی متحدہ بنگال کے وزیرِ اعظم ہو گئے۔ کیسے دبنگ سیاستدان۔

1970ء کی انتخابی مہم میں ذو الفقارعلی بھٹو قصور پہنچے۔ پشتون لشکریوں کے لیے مغلوں کا بسایا ہوا شہر، بعد ازاں ملّا کا جس پہ غلبہ ہو گیا، ریا کار مذہبیوں اور تاجروں کا ؛حتیٰ کہ شاہ عنایت کے صحبت یافتہ بلّھے شاہ اٹھے۔ اپنا گریباں چاک کیا اور زمانے کا بھی۔ بھٹو صاحب کو کسی نے سجھایا کہ بارگاہِ فقیر میں سلام پیش کیے بغیر قریہ میں داخل نہ ہونا چاہئیے۔ لپک کر وہ گئے۔ لوٹ کر آئے تو دانشور ڈاکٹر مبشر حسن کے پہلو میں بیٹھتے ہوئے بولے ــ" بلّھے شاہ بھی کیا یاد کرے گا "

یا للعجب سہروردی کے وہ بھی تھوڑے سے قائل تھے۔ خودپسند آدمی نے کہا تھا کہ قائدِ اعظم کے سوا اگر کوئی درخورِ اعتنا تھا تو وہی تھے۔ 1946ء کے فوراً بعد متحدہ بنگال کا غلغلہ اٹھا۔ ہزار برس سے دبی ہوئی بنگالیوں کی برہمی اشتعال میں ڈھلنے لگی۔ چنگاری بھڑک اٹھی، سیاست اور تاریخ کے نبض شناس محمد علی جناح کو ادراک تھا۔ اپنے زمانے کی نبض پہ ان کا ہاتھ رہتا۔

متحدہ بنگال کی انہوں نے مخالفت نہ کی بلکہ اشارہ کیا کہ اس تجویز کو وہ قبول کر سکتے ہیں مگر جذبات سے مغلوب مسلم بر صغیر۔ مسلمانانِ ہند اقبال ؔ کو اب یکسر بھول چکے تھے۔ 1930ء کے خطبہء الہٰ باد میں جنہوں نے کہا تھا کہ وہ بر صغیر کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں دو مسلم ریاستوں کو متشکل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ برصغیر کے اطراف و اکناف سے مسلم لیگ کے وفود یکجا ہوئے اور چند گھنٹوں میں متحدہ پاکستان کی منظوری دے دی۔ 1940ء کی قرار داد کو فراموش کر دیا، جس کے مطابق دو ملک وجود میں آنا تھے۔

کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ

ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

مسلم بر صغیر انگریزی کی غلامی اور ہندو غلبے سے نجات کے لیے بے تاب تھا۔ بنگالی قوم پرست اپنی قومی شناخت کے لیے۔ صدیوں کی محرومی کا اب وہ ازالہ چاہتا تھا۔ پندرہ سولہ برس پہلے سہروردی کو وزارتِ عظمیٰ سے محروم کر کے پھر ون یونٹ کے اقدام اور اس کے بعد مارشل لا کے نفاذ سے بنگالیوں کے جذبات کو پیہم مجروح کیا گیا۔ اسلام آباد سے مقرر کیا جانے والا ایک کے بعد ویسا ہی دوسرا درباری گورنر۔ بنگالی بے چین تھے، بہت بے چین۔

اِدھر اقتدار کے لیے شیخ مجیب الرحمٰن کی وحشت اور اندیشوں کے سنپولیے یہ کہ جنرل آغامحمد یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو ہمالہ بن کر حائل ہو جائیں گے۔ مسئلے کا حل سامنے تھا، کنفیڈریشن!آج ہر کوئی مان لے گا مگر تب ایک آدمی بھی نہ اٹھا۔ جماعتِ اسلامی کے ایک رہنما تھے سید صدیق الحسن گیلانی۔ ان بے ریا لوگوں میں سے ایک جو بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں انقلابی پارٹی کا حصہ بنے اور زمانے کے سب تیور بدل جانے کے باوجود نہ بدلے۔ جماعتِ اسلامی کے صدر دفتر میں چائے کی ایک پیالی، کے ٹو کا ایک سستا سگریٹ اور کسی بھی موضوع پر کھل کر بات کرتے۔

1971ء میں اوائل موسمِ سرما کی ایک صبح ناچیز ان کی خدمت میں حاضرتھا۔ ہمیشہ کی طرح مہربان اور پرتپاک۔ پوچھا: تو کھری آواز میں کہا: عملاً مشرقی پاکستان الگ ہو چکا۔ پروفیسر غلام اعظم نہیں مانتے۔ دوسرے بھی نہیں مانتے۔ ملک بھر میں کوئی نہیں مانتا۔ کوئی لیڈر نہیں، اس ملک میں کوئی لیڈر نہیں۔ سبھی ہوا کے رخ پر بہنے والے۔ الیکشن سے پہلے ہی گیلانی صاحب نے اپنا تجزیہ پارٹی کی مجلسِ عاملہ میں پیش کر دیا تھا جوفیصلے کا فورم ہے۔ غالباً مجلسِ شوری میں بھی، بجائے خود جو ہمیشہ ایک موثر ادارہ رہی اور اب بھی ہے ؛ اگرچہ سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کرسی پہ اب سینیٹر سراج الحق براجمان ہیں۔

یکم اکتوبر1970ء کو موچی دروازہ لاہور کے جلسہء عام میں سید ابو الاعلیٰ مودودی خود اپنا تجزیہ پیش کر چکے تھے "علاقائی پارٹیاں جیت گئیں تو فوج بھی ملک کو متحد نہ رکھ سکے گی۔ علاقائی پارٹیوں سے ان کی مراد شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ اور ذو الفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی تھی۔ قومی پارٹی جماعتِ اسلامی تھی۔ 8دسمبر1970ء کی صبح ایک اخبار میں سید صاحب کا انٹرویو چھپا: یہ بات کسی طرح میری سمجھ میں نہیں آتی کہ جماعتِ اسلامی الیکشن ہار سکتی ہے۔ خود فریبی سی خودفریبی تھی، سارے لوگ اور سارے لیڈر جس میں مبتلا تھے۔ وحشت سی وحشت تھی، ہیجان سا ہیجان۔

مقبوضہ کشمیر میں تین ماہ 17 دن سے 80 لاکھ آدمی گھروں میں قید ہیں۔ آسانی سے کھانے پینے کو میسر نہیں۔ خورونوش کیا، دوادارو بھی نہیں۔ مریض گھروں میں ایڑیاں رگڑتے ہیں۔ کرفیو کے وقفے میں ہسپتال پہنچادیے جائیں تو وہاں بھی۔ آدھی رات کو دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ بار ہ سال سے زائد عمر کا کوئی بھی بچّہ اٹھا لیا جاتاہے، بہت دور کسی بھارتی جیل کی سنگین چاردیواری کے لیے۔

ماں باپ، بہن بھائیوں، عزیز رشتے داروں اور دوستوں کے دل کا چین ہمیشہ کے لیے رخصت۔ ہمیشہ ہمیشہ کا اضطراب۔ کوئی غالبؔ، کئی اقبالؔ، کوئی شیکسپئر ہوتا تو ان کے درد کی تصویر بناتا۔ محمد بن قاسم اور احمد شاہ ابدالی تو کیا، کوئی سعدی ہی ہوتا، جو بغداد کی بربادی کا نوحہ لکھتا۔ یہاں تو پتھر کے کلیجے ہیں۔ یہاں تو پرویز الٰہی ہیں، شہباز شریف ہیں، آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف ہیں اور چالیس ہزار سالہ تاریخ کے پہلے ایماندار حکمران خان عمران خان۔

لاہور ہائی کورٹ کے جس جج کو گالی دی جا رہی ہے، کردار کشی کی مہم برپا ہے، ان کے دادا قائدِ اعظم کے ساتھی تھے، والد لاہور کے نیک نام وکیل، جو جج بنتے بنتے رہ گئے۔ سب جانتے ہیں، یہ وہی جج ہیں جنہوں نے ماڈل ٹائون کے قتلِ عام پہ وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا، جب ان کے اقتدار کا سورج نصف النہار پہ تھا۔

فرمایا: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra