پائوں تلے گھاس
مہینوں تک ایک بھی چھٹی نہ کرنے والے آدمی کے پائوں تلے گھاس اگ آئی ہے۔ وہ بددلی کا شکار ہے، معلوم نہیں کیوں؟
مشکلات نہیں بلکہ اندازِ فکر کی خرابی ہوتی ہے، جو ایک پر عزم آدمی کو اس حال سے دوچار کرتی ہے۔ 1992ء کے ورلڈ کپ میں پہلے چار میچ ہار کر بھی، جس آدمی کو ورلڈ کپ جیتنے کا یقین تھا، اس کا مایوسی میں مبتلا ہونا حیرت انگیز نہیں؟ دونیاں چونیاں مانگ کر شوکت خانم ہسپتال اور نمل کالج جیسے شاہکار جس نے تعمیر کیے۔ نمل کالج بہترین اداروں میں سے ایک ہے۔
بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے منسلک تھا تو سمندر پار منصوبوں کی نگران پروفیسر نے بتایا تھا: نمل کالج کے طلبہ کا تعلیمی معیار یونیورسٹی کے برطانوی کیمپس سے بہتر ہے۔ پوچھا: انگریزی میں بھی؟ جواب ملا: ہاں انگریزی میں بھی۔ شوکت خانم کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ دو ہسپتال بن چکے، تیسرا زیرِ تعمیر ہے۔ شاید چوتھا اور پانچواں بھی بن جائے کہ اعتبار اور معیار قائم ہے۔
کاروبارِ حکومت کی بات دوسری ہے۔ اوّل دن سے کپتان کا مسئلہ یہی ہے کہ سیاست کوخود سمجھتا نہیں او رمشیر ناقص۔ معاملہ فہم ہے اور نہ مردم شناس۔ دھوکہ کھاتا ہے اور بار بار۔ عدمِ تحفظ کے مارے ایک لیڈر نے ضمنی انتخابات میں پانچ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دلائے، جو سب کے سب ناکام رہے۔ 2018ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کا الیکشن جیت لیا مگر صوبائی سیٹ پر ایک گمنام آدمی سے ہارا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وزارت اعلیٰ کا امیدوار نہ بن سکا۔ منت سماجت سے خان پسیج جاتا ہے۔ مشورہ دینے والوں میں سے بعض اوقات سب سے بعد والے کی بات مان لیتاہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں : آئینے میں آخری عکس۔
بددلی کا اندازہ بدھ کو ایوانِ وزیرِ اعظم کے بیان سے ہوا۔ یہ کہ گیس پر عائد ٹیکس کا معاملہ پھر سے عدالت کے سپرد۔ آخری سطور چونکا دینے والی تھیں : ممکن ہے کہ 208 ارب روپے حکومت کو اب نہ مل سکیں۔ یہی نہیں ممکن ہے، وصول کردہ 295 ارب بھی واپس کرنا پڑیں۔
ایک دن پہلے وزیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا: ایک خاص مقصد کے لیے یہ مہم ہے کہ حکومت نے سرکاری خزانہ لٹا دیا۔ یہ تاثر میڈیا نے پیدا کیا۔ خاکسار کے سوا، تقریباً تمام اخبار نویسوں کی رائے یہ تھی کہ حکومتی فیصلہ بد نیتی نہیں تو حماقت کی پیداوار ہے۔ وزیرِ اعظم نے دھوکہ کھایا ہے۔ واپس لیا گیا تو بعض نے وزیرِاعظم کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ عا مر متین نے لکھا: یہ عظیم اخلاقی جرأت کا مظہر ہے۔
غالباً میں واحد اخبار نویس تھا، علی الاعلان جس نے سمجھوتہ کی تائید کی۔ دلیل یہ تھی " سارا جاتا دیکھیے تو آدھا دیجیے بانٹ "۔ معاملہ سالہا سال اگر عدالتوں میں الجھا رہے تو سرکاری آمدن کم ہو گی اور ملک اس کا متحمل نہیں۔ اپنی نظر سے زندگی کو دیکھنے والا ہر آدمی کبھی نہ کبھی تنہا رہ جاتا ہے۔ یہ ناچیز بھی ان میں سے ایک ہے۔ بے نظیر بھٹو نے سیلز ٹیکس نافذ کیا تو اس کی تائید کرنے والا بھی تنہا تھا۔ عمران خان سیاست میں آئے تو سولہ برس تک ان کی حمایت کرنے والے بھی تنہا۔ انسانی اندازے درست ہوتے ہیں اور نادرست بھی۔ غلطی ہو جائے تو ہم اخبار نویس اعتراف نہیں کرتے۔ درست ثابت ہو تو یاد دلاتے ہیں "کیا پہلے ہی میں نے کہہ نہ دیا تھا؟"
گیس ٹیکس پر وزیرِ اعظم کا بیان آیا تو صدمہ ہوا۔ فردوس عاشق اعوان کا موقف، خود وزیرِ اعظم کا موقف تھا۔ چوبیس گھنٹوں میں یکسر تبدل کیسے ہو گئے؟ یہ سوال میں نے ان دو تین آدمیوں میں ایک سے کیا، جو اس تصور کے بانی اور پرجوش حامی تھے۔ وزیرِ اعظم کے مخلص ساتھی، سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے والے۔ پوچھا: وزیرِ اعظم پیچھے کیوں ہٹے؟ بولے: وزیرِ اعظم کی کابینہ نے اس مشکل مقام پر انہیں پہنچا دیا کہ آگے کھائی تھی۔ پلٹ آنے کے سو اکوئی چارہ نہ رہا۔ "میں سخت صدمے کا شکار ہوں " وہ بولے "کابینہ میں ایک شخص بھی ایسا نہیں، سلیقہ مندی سے جو سرکاری موقف پیش کر سکتا۔
کوئی ایک بھی اس ہنر میں تربیت یافتہ نہیں۔ پوچھا:وزیرِ اعظم کو کیا یہ کہنا چاہئیے تھا کہ چار پانچ سو ارب کا خسارہ اگر ہوا تو مخالفت کرنے والے ذمہ دار ہوں گے۔ جواب ملا: بالکل نہیں مگر وہ زچ ہو گئے۔ یہی رائے اخبا رنویس عدنان عادل کی تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جن کی دیانت شک و شبہہ سے بالاتر ہے اور جو بے تعصب سمجھے جاتے ہیں۔ وزیرِ اعظم کے پلٹ جانے پر ان کی رائے بھی یہی تھی۔ معلوم نہیں، انہوں نے اظہار کیا یا نہیں۔
غالبا یہ 1983ء تھا۔ اس وقت افغانستان کی سب سے بڑی پارٹی حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے شدید ترین دبائو اور اصرار کے باوجود صدر ریگن کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا۔ بحران یہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی یقین دہانی پر امریکیوں نے ملاقات کی تاریخ اور وقت کا اعلان کر ڈالا تھا۔ حکمت یار ڈٹے رہے۔ زچ ہو کر صدر ریگن نے نیو یارک میں پی آئی اے کے روزویلٹ ہوٹل میں اپنی صاحبزادی کو ایک نئے دعوتی کارڈ کے ساتھ بھیجا۔
اس نے کہا: صدرِ امریکہ سے اگر آپ ملنا پسند نہیں کرتے تو ازراہِ کرم مسٹر اینڈ مسز ریگن کے ساتھ چائے کی ایک پیالی پی لیجیے، ورنہ پوزیشن ان کی خراب ہو گی۔ نیویارک سے واشنگٹن لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر تیار کھڑا ہے۔ حکمت یار کا جواب یہ تھا:پیدل چل کر میں واشنگٹن جانے کے لیے تیار ہوں مگر میری شرائط ماننا ہوں گی۔ یہ شرائط کیا تھیں۔ گلبدین اپنے موقف پر کیوں ڈٹے رہے اور انہیں اس کی کیا قیمت چکانا پڑی، یہ کہانی پھر کبھی۔
اس پہ ضیاء الحق بہرحال بھڑک اٹھے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبد الرحمٰن سے انہوں نے کہا: حکمت یار کو بتا دو کہ اگر ہم اسے بنا سکتے ہیں تو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ جنرل اختر عبد الرحمٰن نے افغان لیڈروں سے مستقل رابطے میں رہنے والے، The Bear Trapکے مصنف بریگیڈئیر یوسف کو طلب کیا۔ اُس نے کہا: حکمت یار اور احمد شاہ مسعود وہ لوگ ہیں، جن کے پائوں تلے گھاس نہیں اگتی۔
اختر عبد الرحمٰن قائل ہو گئے اور انہوں نے صدر ضیاء الحق کو قائل کرلیا: بہت سخت پیغام دینے کی بجائے حکمت یار کا انتظار کرنا چاہئیے۔ صدر ضیاء الحق ذاتی طور پر ان سے بات کریں۔ برسوں بعد حکمت یار سے میں نے پوچھاتو ان کا جواب یہ تھا: ضیاء الحق نے مجھ سے سوال تک نہ کیا۔ وہ جانتے تھے کہ حزبِ اسلامی کے بغیر افغانستان میں جنگ ہو سکتی ہے اور نہ امن۔
وزیرِ اعظم مایوسی کا شکار کیوں ہیں؟ سمجھوتے پر کیوں آمادہ نظر آتے ہیں۔ یہ ان کا مزاج تو نہ تھا۔ ملک کی ممتاز ترین شخصیات میں سے ایک نے مجھ سے کہا تھا: عدالتیں اور نہ افواج، عمران خاں نے نواز شریف کو چلتا کیا۔ ہمارے بس کی یہ بات نہیں تھی۔
کپتان کے بارے میں بھی تصور یہی تھا کہ اس کے پائوں تلے گھاس نہیں اگتی۔ خود اس نے کہا تھا: حکومت تو کوئی چیز ہی نہیں جان بھی چلی جائے تو پرواہ نہیں۔ 2007ء جنرل مشرف کے فرستادہ ایک باوردی جنرل نے دھمکی دی تو چمک کر کپتان نے کہا جلدی کرو میں بچ گیا تو چھوڑوں گا نہیں۔ ابھی ابھی ایک ذمہ دار آدمی نے بتایا: خان صاحب تاخیر سے دفتر تشریف لاتے اور جلد چلے جاتے ہیں۔ مہینوں تک ایک بھی چھٹی نہ کرنے والے آدمی کے پائوں تلے گھاس اگ آئی ہے۔ وہ بددلی کا شکار ہے، معلوم نہیں کیوں؟