Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. Mian Sahib

Mian Sahib

میاں صاحب

اب کہاں، اب ایسا دوسرا آدمی کہاں۔ یادیں ہیں کہ ہمیشہ باقی رہیں گی اور دعا کے ہاتھ ہمیشہ اٹھتے رہیں گے۔ ہر طرح کے کھوٹ سے پاک، ہیرے جیسا آدمی۔

میاں ماجد چلے گئے۔ اس حال میں گئے کہ اللہ کی اس وسیع و عریض دنیا میں شاید ہی کسی شخص کو مرحوم سے ذرا سی شکایت بھی ہو۔ دعا کرنے والے بہت، ایسا آدمی جو کسی زندگی میں داخل ہو تو مستقل طور پہ اس کا حصہ بن جاتاہے۔ صبح کے پانچ بجے تھے۔ میاں محمد خالد حسین کا پیغام ملا کہ میاں ماجد انتقال کر گئے۔ عمر بڑھ گئی تھی، بہت دن سے بیمار تھے۔ ایک کے بعد دوسری علالت۔ انسانی ذہن عجیب ہے۔ وہ کسی بھی چیز کو قبول کر سکتاہے مگر موت کو نہیں۔ ہمیشہ یہ ایک حادثے کی طرح ہوتی ہے۔ کم از کم کچھ دیر کے لیے جو حواس کو مختل کر دے۔ پھر میاں ماجد جیسا آدمی، دنیا میں ایسے کتنے لوگ ہوں گے، پوری زندگی جنہوں نے ناک کی سیدھ میں چلتے گزار دی ہو۔ ایک مسافر کی طرح، نظر جس کی ہمیشہ منزل پر رہے۔ راستے کی دل کشی اور دل فریبی سے جو جی نہ لگائے۔

اللہ کے آخری رسولﷺ نے ارشاد کیا تھا: میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں، جو کسی محفل میں جائیں تو ان کا تعارف نہ کرایا جائے اور اٹھ کر چلے جائیں تو ان کا ذکر نہ ہو۔ پوری طرح تو یہ قول میاں صاحب پہ صادق نہیں آتا۔ اس لیے کہ ایک ممتاز اور محترم خاندان سے ان کا تعلق تھا؛البتہ یہ کہ نمودِ ذات، شہرت و ناموری سے کبھی انہیں دلچسپی نہ رہی۔ ایک لمحہ کو نہیں، رتّی برابر بھی نہیں۔ مکمل طور پر ایک بے ساختہ آدمی۔ کہا جاسکتاہے اور پورے وثوق سے کہ ان کا ظاہر و باطن ایک تھا۔ عدمِ تحفظ اور احساسِ کمتری کے اس پیچیدہ معاشرے میں، ہر کوئی جہاں اپنی خوبیاں اور دوسروں کی خامیاں اجاگر کرنے کے درپے رہتا ہے، وہ ایک بے نیاز شخص تھے۔ آدمی کو جس طرح رزق کی ضرورت ہے، اسی طرح رفاقت کی بھی۔

ہر آدمی چاہتاہے کہ کسی وقت اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرے۔ اپنے احساسات میں شناسا کو شریک کرے۔ میاں محمد خالد حسین کے سوا بھی، جن کے ساتھ کبھی کبھار انہیں ملنے جاتا، شاید ان کے کچھ بے تکلف دوست ہوں۔ عام طور پر لیکن وہ ضروری بات پر اکتفا کرتے۔ سادہ ترین الفاظ میں سامنے کی بات۔ ملمع نہ ریا کاری۔ دکھاوا نہ شکایت۔ وہ ایک اور تہذیب، ایک اور زمانے کے آدمی تھے۔ وہ لوگ، صبح سویرے جو جاگ اٹھتے اور مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ لاہور کا قلعہ لچھمن سنگھ، لندن بریڈ فورڈ یا اسلام آباد، دن میں پانچ بار نماز کے لیے وہ قریب ترین عبادت گاہ کا رخ کرتے۔ لگ بھگ ایک برس ہوتاہے، پوچھا: میاں صاحب کیا اب بھی پیدل جایا کرتے ہیں۔ بولے: اب تو نہیں۔ میاں صاحب کے لہجے میں محرومی کا ایک ذرا سا احساس تھا۔ آسودہ حال آدمی، گھر میں ایک سے زائد گاڑیاں کھڑی رہتیں۔ مگر وہ ان میں سے تھے کہ سر جھکائے تسبیح و مناجات پڑھتے ہوئے دھیمی رفتار سے جو مسجد کا رخ کرتے۔

عام طور پر مذہبی لوگ تھوڑے سے کج بحث، زیادہ نہیں تو تھوڑے سے فرقہ پرست اور کسی نہ کسی درجے میں زعمِ تقویٰ کا شکار لازماً ہوتے ہیں۔ ان عیوب سے میاں صاحب پاک تھے۔ صاف، سیدھے اورکھرے۔ سچ کی طرح سادہ۔ اس قدر بے ریا کہ گاہے تعجب ہوتا۔ محسوس یہ ہوتا کہ عہدِ قدیم کا کوئی آدمی بھٹک کر ہمارے زمانے میں آگیا۔ اپنے عہد کے تبدیل ہوتے رجحانات سے کوئی دلچسپی جسے قطعاً نہیں۔ بے خبر ہرگز نہ تھے۔ باخبر لوگوں میں زندگی بتائی۔ غیر متعلق چیزوں سے مگر کوئی دلچسپی نہ تھی۔ گو لاہور کی ممتاز شخصیت چوہدری منیر احمد کے بہنوئی تھے، میاں نواز شریف کی نواسی سے جن کے صاحبزادے کی شادی ہوئی۔ وہ مگر بے نیاز تھے۔ بے نیاز مگر بے زار نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ تقریبات کے سوا کبھی ایک بار بھی وہ میاں نواز شریف یا شہباز شریف سے ملنے گئے ہوں۔ کبھی کوئی سفارش کی ہو۔ اپنی دنیا میں وہ آسودہ تھے۔ اپنے گھر میں شاد۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سعادت مند اولاد عطا کی۔

ترقی کرتے کرتے ان کے داماد نوید مختار لیفٹیننٹ جنرل اور پھر آئی ایس آئی کے سربراہ بنے۔ اس ادارے کی تاریخ کے شاید وہ واحد سربراہ تھے، جن کے باب میں کبھی کوئی تنازعہ نہ اٹھا۔ کراچی کے کور کمانڈر تھے تو کبھی کبھار میں ان سے ملنے جایا کرتا۔ ایک حلیم الطبع اور نفیس آدمی۔ ساٹھ ستر برس پہلے میاں صاحب کی شادی ایک تعلیم یافتہ مگر مذہبی رجحانات رکھنے والی قدامت پسند اور شائستہ خاتون سے ہوئی۔ اپنی سادگی اور وقار میں دوسروں کے لیے جو ایک نمونہء عمل ہیں۔ اہلِ ثروت میں ایسے لوگ شاذ و نادر ہوتے ہیں۔ النادر کاالمعدوم۔ اپنی اولاد کی میاں بیوی نے ایسی تربیت کی کہ دیکھنے والے رشک اور حیرت کا شکار ہوتے۔ نوید مختا ر کور کمانڈر تھے تو بیگم یعنی میاں صاحب کی صاحبزادی تقریباً پابندی سے تھرپارکر جایا کرتیں کہ دوسروں سے مل کر ان مجبور اور بے نوا لوگوں کی مدد کریں، صدیوں سے جو حالات کے رحم و کرم پہ ہیں۔

بھتیجی نے انہی دنوں فرمائش کی کہ اخبارات کے لیے وہ سماجی موضوعات پر لکھنا چاہتی ہیں۔ میاں مسکرائے اور فقط یہ کہا: ارے بھائی ایک فوجی افسر کے خاندان کو ذرا زیادہ محتاط ہونا چاہئیے۔ انگریزی میں لکھا گیا خوبصورت مضمون انہوں نے بھیجا۔ میں چپکا ہو رہا۔ میاں ماجد مرحوم کو بچوں سے ایسی محبت تھی کہ ان پہ نثار ہوتے لیکن ایک جذباتی توازن کے ساتھ۔ اولاد اور عزیز و اقارب کے باب میں نہایت خوش بخت تھے اور کیوں نہ ہوتے۔ دل کا آئینہ شفاف تھا۔ اندر باہر اجالا۔ حسِ مزاح خوب پائی تھی مگر ایسی نہیں کہ دل شکنی کریں۔

مکروہاتِ دنیا سے ہرگز کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میاں عامر محمود کے دادا کے سب سے چھوٹے بھائی تھے۔ مشرقی پنجاب کے ایک ہی گاؤں سے ہمارا تعلق تھا اور گہرا باہمی ربط کئی نسلوں پہ پھیلا ہوا۔ میاں عامر محمود لاہور کے مئیر بنے تو وہ خوش نہ تھے لیکن فقط یہ کہا: اس کی ضرورت کیا تھی۔ مودب فرزند نے جواب دیا: پھیلے ہوئے کام کاج ہیں، حکام سے واسطہ پڑتا ہے۔ ٹی وی چینل کھولنے کا فیصلہ کیا تو مجھ سے کہا: تم انہیں سمجھاتے کیوں نہیں۔ اس میں رکھا کیا ہے۔ عرض کیا: میں یہ جسارت کیسے کروں؟ ممکن ہے، کل مجھے اس ادارے میں کام کرنا پڑے۔ اس پر ہمیشہ کی طرح وہ خاموش ہو گئے۔ غیر ضروری بحث سے ہمیشہ گریز تھا۔

ملازموں پہ مہرباں۔ کوئی کام ان سے کہتے تو حکم کے لہجے میں نہیں بلکہ سرسری انداز میں۔ دوستوں، عزیزوں اور رشتے داروں پر جو بیتی سو بیتی۔ گھریلو ملازمین بھی اتنے ہی غم زدہ پائے گئے۔ ان میں سے ایک نے کل کہا: کیسا شاندار آدمی تھا۔

اب کہاں، اب ایسا دوسرا آدمی کہاں۔ یادیں ہیں کہ ہمیشہ باقی رہیں گی اور دعا کے ہاتھ ہمیشہ اٹھتے رہیں گے۔ ہر طرح کے کھوٹ سے پاک، ہیرے جیسا آدمی۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Kisan Ko Maar Kyun Nahi Dete?

By Raheel Moavia