کیوں نہیں؟
ترجیحات حکمران کو طے کرنا ہوتی ہیں، مردانِ کار کا انتخاب بھی۔ آدمی کی بجائے اگر وہ دیوتا بن جائے اور خود سے فرصت ہی نہ پا سکے؟
محترمہ ثانیہ نشتر ویسی ہی لگیں، جیسا کہ گمان تھا۔ تین الفاظ میرے ذہن میں ابھرے۔ simple، straight، اور sincere سادہ، سیدھی اور مخلص۔ اوّل ایک محترمہ تشریف لائیں۔ ڈھنگ سے اوڑھا ہوا دوپٹہ۔ بولیں : میں ثانیہ نشتر صاحبہ کی سیکرٹری ہوں۔ میز کی طرف بڑھا تو انہوں نے دوسری طرف رکھے ہوئے صوفوں کی طرف اشارہ کیا۔ تب معاً احساس ہوا کہ یہ ایک اور طرح کی جگہ ہے۔ سادگی اور اپنائیت میں گندھی۔ ریا اور دکھاوے سے پاک۔ "دفتر کاہے کو ہے"سوچا " یہ تو ایک گھر ہے۔ " ثانیہ نشتر جیسے لو گ دنیا میں جہاں کہیں جا بیٹھتے ہیں، کسی بھی چاردیواری کو گھر بنا دیتے ہیں۔ ان کے تیور یہ ہوتے ہیں :
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشتِ انساں پر
کسی بھی شہر میں جائوں، غریبِ شہر نہیں
سچ کی طرح سادہ لوگ، دیانت کی طرح اجلے۔ اپنے پروردگار کے سائے میں اس کی مخلوق سے محبت کرنے والے۔ پھر ایک اور صاحب آئے تو کہا: یہ میرے ساتھی ہیں۔ یہی ایک بنیادی فرق تھا۔ بندے اور آقا نہیں، ایک خاندان کے لوگ، بہن بھائی۔
ثانیہ نشتر کا اصرار تھا کہ مجھ ناچیز کا شکریہ ان پہ واجب ہے، جو خود ان کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ گزارش کی کہ میں تو خراجِ تحسین پیش کرنے آیا ہوں۔ مدتوں بعد کسی سرکاری دفتر سے کوئی خوشخبری طلوع ہوئی۔۔ پھر سوال کیا کہ سوا آٹھ لاکھ جعل سازانہوں نے کیسے دریافت کیے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں نوسربازوں کی نک سک سے درست فہرست کیسے بنی۔
اس انداز میں، گویا کارنامہ تو کیا، کوئی قابلِ ذکر واقعہ ہی نہ ہو، انہوں نے بتانا شروع کیا: ظاہر ہے کہ عطیات وصول کرنے والوں کی فہرستیں موجود تھیں، چنانچہ شناختی کارڈ نمبر بھی۔ نادرا والوں سے پوچھا کہ کارڈ رکھنے والوں کی کون کون سی تفصیلات ان کے پاس محفوظ ہوتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ میاں ہے تو اس کی بیوی اور بیوی ہے تو اس کے میاں کی ملازمت اور ذریعہ ہی نہیں، کل آمدن بھی۔ بیرونِ ملک سفر کی تفصیل اور جائیداد بھی۔ یہ تفصیلات حاصل کر لی گئیں اور حکومتِ پاکستان کے متعلقہ محکمے سے پوچھا گیا کہ ان میں سرکاری ملازم کون کون سے ہیں اور ان کی موجودہ تنخواہ کیا ہے۔ ساری معلومات یکجا ہو چکیں تو معلوم ہوگیا کہ کون محترمہ اپنے میاں پہ عنایت کر رہی ہیں اور کون سے میاں صاحب اپنی اہلیہ پر۔ جائیدادوں کے گوشوارے اور بچوں کے بارے میں معلومات ابھی مرتب کرنا ہیں۔
فرزانہ راجہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی پہلی چئیرپرسن تھیں۔ معقول حد تک وہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں اور نہ کوئی انتظامی تجربہ۔ ظاہر کہ یہ عہدہ انہیں سیاسی رشوت کے طور پر دیا گیا۔ نواز شریف برسرِ اقتدار آئے تو سابق سینیٹر جنابِ انور بیگ اور پھر ماروی میمن۔ کہا جاتا ہے کہ جن پر وزارتِ خزانہ کا سایہ دراز تھا اور بعد ازاں الجھنوں کا باعث بنا۔ عرض کیا، انور بیگ کو میں خوب جانتا ہوں۔ وہ تو ایک معقول آدمی ہیں۔ غالباًاسی لیے ٹک نہ سکے۔ فرزانہ راجہ اور ماروی میمن کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
سوال کیا کہ فہرست سے جن لوگوں کے نام نکالے گئے اور جو افسر جواب طلبی سے گزر رہے ہیں، کیا ان کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے۔ ہمیشہ برقرار رہنے والی سادگی سے انہوں نے کہا: سیاسی وابستگی سے متعلق ہمارے پاس کوئی مصدقہ معلومات تو ہیں نہیں ؛لہٰذا اس بارے میں کیا کہا جائے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پیپلزپارٹی کے دور میں شروع ہوا اور ظاہر ہے کہ مقاصد سیاسی تھے۔ سرکاری خزانے سے ساٹھ ستر لاکھ خاندانوں کو وظائف دے کر آصف علی زرداری ان کے ووٹ خریدنے کے خواہشمند تھے۔ پانچ سالہ اقتدار میں رسوائی اس قدر سمیٹی، مہنگائی اور بدنامی اتنی بڑھی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسلام آباد سے نکال دیے گئے۔ تدبیر کنند بندہ، تقدیر کنند خندہ۔
9 برس ہونے کو آئے، ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کے قتل اور قومی سلامتی کے دوسرے امور سے متعلق بد مزگی بہت بڑھ گئی تو وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے جان لیا کہ پیپلزپارٹی دفن ہونے والی ہے، مستعفی ہو گئے۔ نون لیگ اور ابھرتی ہوئی پی ٹی آئی سے سودا بازی شروع کی کہ کہاں دام زیادہ لگتے ہیں۔ موقع پرستی میں تو کوئی کلام نہیں لیکن لوٹ مار سے شغف نہیں۔ نسل درنسل شاہ رکنِ عالم کے مزار کی آمدن پہ پلتے آئے ہیں۔ فقط سیاسی عہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔
نشہ بڑھتا ہے، شرابیں جو شرابوں میں ملیں
ہماری اشرافیہ یہی ہے۔ زندگی سے بھاگی ہوئی، زندگی سے بھیک مانگتی ہوئی۔ ہمیشہ سے حکمرانوں کے سائے میں سرسبز اور آزادی کی دھوپ میں مرجھانے والی۔ ظاہر ہے کہ ملتان میں گیلانی خاندان ہی ان کا سب سے بڑا حریف تھا۔ دائمی حسد کا مضبوط رشتہ۔ ان دنوں ایک واقعہ وہ سنایا کرتے کہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے مالی جرائم کا پلندہ لے کر وہ ایوانِ صدر پہنچے۔ زرداری صاحب نے جواب دیا: اگر چند کروڑ روپے یوسف رضا نے بنا لیے تو حرج ہی کیا۔
شاہ محمود کہتے ہیں کہ چالیس برس سیاست کی، گھاس نہیں کھودتا رہا۔ ایوانِ صدر میں گھاس ہی کھودی، ٹکا سا جواب لے کر واپس آگئے۔ بلاول بھٹو کے واویلے سے آشکار ہے کہ جعل سازوں کی اکثریت پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ سب سے سنگین پہلو تو یہی ہے مگرمسئلہ صرف یہی ایک نہیں۔ اس بالٹی میں اور بھی کئی چھید تھے۔ مثلاً جن کے ذریعے رقوم بھیجی جاتیں، ایک حصہ وہ ہڑپ کر جاتے۔ بے نوا، بے چارے غریب دیہاتی ان کے رحم و کرم پر تھے۔ ایسے افسر بھی بہت سے تھے، جعلی فہرستیں جنہوں نے بنائیں۔ ہر ماہ لاکھوں روپے ہڑپ کر جاتے۔ کچھ رودادثانیہ نشتر نے سنائی، کچھ پہلے سے معلوم۔ اصلاحی پروگراموں اور نئے منصوبوں کے بارے میں ثانیہ نشتر بتاتی رہیں اور میں سنتا رہا۔ مثلاًیہ کہ چالیس لاکھ بیوائوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے الگ کر کے ان میں تیس لاکھ کا اضافہ کیا جائے گا۔ ان میں سے ہر ایک کو دو ہزار روپے ہر ماہ پیش کیے جائیں گے۔ اربوں روپے بینکوں میں پڑے رہتے اور ان کا منافع یہ ہضم کر جاتے۔ اب نئے معاہدے بینکوں سے کیے ہیں۔ اندازہ ہے کہ کروڑوں روپے بچ رہیں گے اور محتاجوں کے کام آئیں گے۔ بار بار دہرایا گیا وہ شعر، دھواں دیتا رہا
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
محترمہ ثانیہ نشتر کچھ اور تفصیلات بتانے پرآمادہ تھیں مگر اجازت چاہی اور وعدہ کیا کہ پھر حاضر ہوں گا۔ سرکاری خزانے میں جہاں دیکھو، لوٹ مار ہی لوٹ مار۔ ستم یہ ہے کہ چلن اب بھی وہی ہے۔ جہاں خوش بختی سے ثانیہ نشتر جیسا کوئی نیک طینت آپہنچا ورنہ وہی چھچھورے، وہی ابن الوقت، وہی کاسہ لیس اور وہی طفیلی۔ وہی بے حسی، وہی کم نظری۔ ثانیہ ایک ہی ہیں، کپتان کوڈھنگ کا کوئی دوسرا اجلا آدمی کیوں نہ مل سکا؟
ترجیحات حکمران کو طے کرنا ہوتی ہیں، مردانِ کار کا انتخاب بھی۔ آدمی کی بجائے اگر وہ دیوتا بن جائے اور خود سے فرصت ہی نہ پا سکے؟