کس کس کو بھلا دیا
اللہ اللہ مجید امجد ایسے شاعر کو ہم بھول گئے؛ کن مشغلوں میں ہم کھو گئے۔ کیا کیا بھلا دیا۔ عصر رواں سے ہم آہنگ ہونے کی آرزو میں آدمی نے اپنے آپ کو کھو دیا:
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
جہالت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسنا کی
کلیات مجید امجدؔ کا نیا نسخہ ملا تو سرائیکی کا دلکش محاورہ یاد آیا "سجن ملن تے اکھیاں ٹھہرن" صاحب!کیا بلیغ اور میٹھی زبان ہے جس زبان میں خواجہ غلام فرید ایسے درویش نابغہ نے جوت جگائی ہو۔ اس کا خزانہ کیسا وقیع ہو گا۔ اردو کی محبت بجا کہ مسلم برصغیر کی زبان ہے۔ علاقائی زبانوں پنجابی، سرائیکی، پشتو اور بلوچی کو مگر کیوں طاق نسیاں پہ رکھ دیا۔ خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ سے لے کر خواجہ مہر علی شاہ تک کے کیسے لعل و گہراس کے دامن میں ہیں۔ ایک زمانے میں خوش حال خان خٹک کے دیوان کا مطالعہ کرنے کی ٹھانی تھی۔ کچھ دن جی لگایا لیکن پھر مکروہات زمانہ؛
سندھی، بلوچی بلکہ خاراور کوہستانی زبانوں کے تراجم بھی دستیاب ہو سکتے ہیں اگر نہیں تو مہیا کرنے چاہئیں۔ کیسا کیسا گلدستہ، کیسا کیسا جہان معنی۔ ڈاکٹر خورشید ایک دن میاں محمد پہ بات کر رہے تھے۔ ایک مصرع پڑھا اور ارشاد کیا، غالبؔ نے جو بات پورے شعر میں بیان کی، میاں محمد نے ایک مصرعے میں نمٹا دی۔ وہ مصرع تو ذہن کے افق پر طلوع نہ ہو سکا، ایک دوسرا شعر یاد آیا:
جتن جتن ہر کوئی کھیڈے ہارن کھیڈ فقیرا
جتن دا مل کوڈی پیندا ہارن دا مل ہیرا
ظفر مندی کی آرزو تو سبھی پالتے ہیں۔ فقیر تو ہارنے کی بازی کھیل۔ جیت کی انتہا ایک کوڑی ہے اور خود ہار جانے کا صلہ دمکتا ہوا ہیرا۔
کیا ہے میں نے متاعِ غرورکا سودا
فریب سود و زیاں لاالہ الہ اللہ
جستہ جستہ شب اس دیوان کو دیکھتا اور حیران ہوتا رہا۔ اڑتالیس برس پہلے کے وہ ایام یاد آئے، جب پہلی بار "شب رفتہ" کے اوراق قلب و دماغ پہ اترے تھے:
روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گلاب کے پھول
حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول
افق افق پہ زمانوں کی دھند سے ابھرے
طیور، نغمے، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول
کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروسِ گل۔ قبائے جہاں گلاب کے پھول
جہانِ گریہ شبنم سے کس غرور کے ساتھ
گزر رہے ہیں تبسّم کناں گلاب کے پھول
یہ میرا دامنِ صد چاک یہ ردائے بہار
یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول
کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز
گندھے ہوئے بہ خمِ گیسواں گلاب کے پھول
خیال یار تیرے سلسلے نشُوں کی رتیں
جمالِ یار تری جھلکیاں گلاب کے پھول
مری نگاہ میں دور زماں کی ہر کروٹ
لہو کی لہر، دل کا دھواں گلاب کے پھول
سلگتے جاتے ہیں چپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرۂِ پیغمبراں گلاب کے پھول
یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجدؔ
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا:میں نے بہت کم شاعر ایسے دیکھے ہیں، جن کے ہاں زندگی کی ہولناک سنجیدگی اور مقدر کی ستم آرائی کے لئے ایسے دردناک تصورات موجود ہوں۔ اس کے باوجود اس کے قاری کا مجموعی تاثر انبساط میں اتنا ڈوب کر باہر آتا اور مطمئن ہوتا ہو، جتنا مجید امجدؔ کے کلام سے ہوتا ہے۔ امجدؔ زندگی کو بسِ بھرا، رس بھرا کہتا ہے مگر اس کے کلام میں رس رچا ہوا ہے کہ بسِ کی تاثیر منفی ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا کا ارشاد یہ ہے کہ:مجید امجدؔ نے جس آفاقی شعور کا مظاہرہ کیا ہے، اقبالؔ کے بعد وہ انہی کی نظم میں اجاگر ہوا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ اقبال ؔکا رویہ فلسفیانہ ہے جب کہ مجید امجدؔ نے سائنسی سوچ سے استفادہ کیا ہے۔
سید جعفر طاہر نے کہا:مجید امجد ؔہمارے دور کے بڑے شاعر بھی ہیں اور اہم بھی۔ بڑے شاعر غالبؔ، انیسؔ اور اقبالؔ کے معنوں میں۔ اہم لوگ کہ ان کا مطالعہ کئے بغیر ہمارے شاعرانہ ذوق اور فنی ارتفاع کی تربیت نامکمل۔
شہزاد احمد کا تبصرہ یہ ہے: میرا جی، فیض اور راشد نے اپنے مکاتب فکر کو جنم دیا۔ ہمارے اس عہد کے بیشتر لکھنے والے، ان تینوں میں سے کسی نہ کسی کے پیچھے لمبی قطاروں میں کھڑے ہیں۔ مجید امجدؔ نے کسی کی تقلید کی اور نہ کسی کو اپنی تقلید کی ترغیب دی۔
امجد اسلام امجدؔ کا تاثر ایک اور افق پہ اجالا کرتا ہے:نئی نظم اور آزاد نظم کے سلسلہ میں کچھ سکہ بند نام بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ میرے نزدیک ان سب سے زیادہ اہم اور دور رس اثرات کا حامل کام مجید امجد ؔنے کیا ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات، تکنیک، نظم کی فکری اور فنی تربیت نئے اسالیب کی طرف ہے۔ پیش قدمی اور سب سے بڑھ کر ایک نئے لہجے کی تلاش وہ بنیادیں ہیں، مستقبل کی شاعری کوجن پر اپنے کاخ و کو بلند کرنے ہیں۔
شعری مطالعہ کی اہمیت آج کچھ اور بھی زیادہ ہے۔ اس لئے کہ اخبارات ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کے پیدا کردہ لسانی افلاس اور ویرانے میں کلاسیکی نثر اور شاعری ہی اجالا کر سکتی ہےمجید امجدؔزیادہ انہماک کے مستحق ہیں مگر آج مصروفیت کی یلغار میں صرف یہ چند منتخب اشعار:
ترے فرقِ ناز پہ تاج ہے، مرے دو شِ غم پہ گلیم ہے
تری داستاں بھی عظیم ہے، میری داستاں بھی عظیم ہے
*
تہہِ خاک کرمکِ دانہ جو بھی شریک رقص حیات ہے
نہ بس ایک جلوہ طور ہے، نہ بس ایک شوقِ کلیم ہے
*
میری کتنی سوچتی صبحوں کو یہ خیال زہرپلا گیا
کسی بنتے لمحے کی آب کو خرامِ موج تبسم ہے
*
چاہو تو واقعات کی ان آندھیوں میں بھی
اک ریزہ چن کے فکر کے دریا میں پھینک دو
تم یوں کھڑے رہو کہ تمہیں علم تک نہ ہو
طوفاں میں گھر گئے ہو کہ طوفاں کا جزو ہو
اللہ اللہ مجید امجد ایسے شاعر کو ہم بھول گئے؛ کن مشغلوں میں ہم کھو گئے۔ کیا کیا بھلا دیا۔ عصر رواں سے ہم آہنگ ہونے کی آرزو میں آدمی نے اپنے آپ کو بھلا دیا:
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
جہالت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسنا کی