خاکوانیوں نے لوٹ لیا
لکھنے والے کا ہر لفظ سخاوت کا مظہر ہوتاہے۔ جی جان سے، خلوصِ قلب سے کی جانے والی عنایت۔ شرط یہ کہ وہ دل صداقت کا مسکن ہو، تلاشِ حق کا آرزومند!
تیرہ برس ہوتے ہیں، جھجکتے ہوئے عامر خاکوانی شاہ جی کے کمرے میں داخل ہوئے، عباس اطہر مرحوم۔ شاہ جی نے ان سے کچھ استفسار کیا۔ سادہ سا، لجاتا ساجواب۔ ایک آدھ سوال میں نے بھی کیا، وہی ادھورا سا جملہ۔ شاہ جی سے پوچھا تو سر اٹھائے بغیر بولے "مزاج ہی ایسا ہے "
پانچ سال بعد لاہور سے ایک بڑے اخبار کا اجرا ہوا تو میگزین ایڈیٹر کے لیے ان کا نام تجویز کیا۔ میاں صاحب بولے: کبھی ان کا نام نہیں سنا۔ عرض کیا: میں نے تو سنا ہے نا اور میں انہیں جانتا ہوں۔ خاکوانی نے اصرار کیا کہ ٹیم ان کی اپنی ہوگی۔ تھوڑا سا تعجب ہوا۔
عامر خاکوانی نے میگزین کا انداز ہی بدل ڈالا۔ از سرنو اس کی تشکیل کی اور ایسی تشکیل کہ پڑھنے والوں کے دل میں ڈیرہ جما لیا۔ نئے قاری بھی پیدا کیے۔ کتابوں کے رسیا، ادب کے طالب علم، داستان کی اہمیت سے آشنا۔ کبھی کسی کو مداخلت کی ضرورت نہ پڑی۔ خاکسار نے صرف دو مشورے دئیے۔ میگزین کا قاری بہت بالغ نہیں بلکہ کم پڑھے لکھے لوگ اور گھریلو خواتین ہوتی ہیں۔ ادق موضوعات سے گریز چاہئیے اور اگر لازم ہو تو ہلکے پھلکے انداز میں نمٹایا جائے۔ ثانیاً اپنے نام کو مختصر کر دیجیے۔ عامر ہاشم خاکوانی کی بجائے، عامر خاکوانی۔
اب ان کی تازہ کتاب سامنے ہے۔ استاد انشااللہ خاں نے کہا تھا: چھڑا جو قصہ کہیں کل رات ہیر رانجھے کاتو اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیامجھے تو خاکوانیوں نے لوٹ لیا۔ بیس برس ہوتے ہیں، یارِ عزیز خالد مسعود خاں سے ملنے ملتا ن گیا۔ وہ مجھے اطہر خاں خاکوانی کے ہاں لے گئے۔ کشادہ گھر کے صحن میں خوبصورت خیمہ ایستادہ، 29رمضان المبارک کی تراویح ان کے ہاں پڑھی۔ شب وہیں قیام۔ سحری میں چپڑی ہوئی روٹی اور پیاز والا انڈے کا سالن۔ بچپن میں والدہ محترمہ بی بی جی سحری میں یہی التزام کیا کرتیں۔ حیرت ہوئی کہ جاگیردارانہ ریاکاری کا نام و نشان تک نہیں۔ خالد مسعود نے ایک واقعہ سنایا۔ خاکوانیوں کے ہاں دیگ میں کھانا پکتا ہے۔ سب ملازمین اور مہمانوں کے لیے ایک ہی سالن۔ اطہر کے چھوٹے بھائی نے ایک دن کسی ملازم سے کہا: مہمان تمہارے ہاں بہت آتے ہیں۔ اس نے کہا: لالہ تمہاری شکل کیا مجھ سے اچھی ہے؟ یہ سب کچھ اللہ نے تمہیں اسی لیے دیا ہے کہ خلقِ خدا کے کام آئے۔ مقدمہ بڑے بھائی کے سامنے پیش ہوا تو فیصلہ ملازم کے حق میں صادر ہوا۔
یاد ہے کہ بعد ازاں بھی ایک بار جانا ہوا۔ قندہار کی سرد ہوا کا راج۔ انگیٹھی بھی کفایت نہ کر سکی تو اطہر نے پکار کر کہا "وڈّی بھاہ گھن آئو" بڑی آگ لے آئو۔ ایک بہت بڑی انگیٹھی۔
اکتوبر1999ء میں خرطوم جانے کا اتفاق ہوا تو ایک اور خاکوانی کا ذکر سنا۔ سوڈان کے دارالحکومت میں گنتی کے چند پاکستانی ہیں، انہی میں سے ایک نیشنل بینک پاکستان کے مینیجر خٹک صاحب تھے۔ ان کی خدمت میں حاضر ہو اتو فورا ہی کھل گئے۔ اب بھی ان کی یاد قوسِ قزح تلے، پہاڑیوں کے دامن میں پھیلے سبزہ زار کی طرح امڈتی ہے۔ پھر ظفر اقبال کا شعر جی میں جاگ اٹھتا ہے۔
کہیں پربتوں کی ترائیوں پہ ردائے رنگ تنی ہوئی
کہیں بادلوں کی بہشت میں گلِ آفتاب کھلا ہوا
سوڈان کی ازدواجی رسوم کا ذکر تھا۔ بولے: خاکوانی صاحب کسی پر فدا ہو گئے۔ درد بھری شاعری اور آہ و بکا۔ خٹک صاحب نے ان سے کہا: ارے بھائی یہ ایک دوسری دنیا ہے۔ اس کے ماں باپ سے جا کر ملو۔ حق مہر طے پا گیا تو چند منٹ میں معاملہ، تمام وگرنہ خبط سے کچھ حاصل نہیں۔ خٹک صاحب کے لیے ساری دنیا، تمام زندگی ایک لطیفہ تھی۔ اس بیچارے خاکوانی کی روداد بھی۔
سوڈان کی آبادی کم ہے اور رقبہ وسیع۔ جنوب کے جنگلوں میں بے پناہ بارشیں او روسط میں بہتاہوا دریائے نیل۔ جہاں ایک کنارے پر کبھی موسیٰؑ سے خضرؑ کی ملاقات ہوئی تھی۔ یہیں مہدی سوڈانی نے تاریخ کا ایک خیرہ کن باب رقم کیا تھا۔ ایک سکیم کے تحت دنیا بھر کے مسلم کاشتکاروں کو قابلِ کاشت اراضی بلا معاوضہ دی جا رہی تھی۔ پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت کو ایک لاکھ ایکڑ زمین پیش کی گئی۔ ملتان کا یہ خاکوانی زمیندار نگران بنا کر بھیجا گیا۔ پر وہ بیچارہ دل ہار بیٹھا۔ دور دور تک پھیلے کھیتوں کی کیا دیکھ بھال کرتا۔ دل شکستہ لوٹ آیا، ایک کہانی چھوڑ آیا اور یہ تاثرکہ بیشتر خاکوانی صاحبِ دل ہوتے ہیں۔
پھر اپنے دوست اسحٰق خاکوانی۔ بادوستاں مروت، با دشمناں مداراکی تصویر۔ انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ ریل کے افسر بنے۔ سبکدوش ہو کر سیاست میں آئے۔ آخر کار ریلوے کے وزیر ہو گئے۔ جیتے اور ہارے بھی مگر اپنی وضع سے کبھی انحراف نہ کیا۔ جنوبی پنجاب میں الیکشن 2018ء میں ٹکٹ تقسیم کرنے کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ کیسی مہارت اور سلیقہ مندی سے کام لیا۔ اکثریت آسانی سے حاصل کر لی۔ اگرچہ بے حد دبائو تھا اور دبائو ڈالنے والوں میں ناچیز بھی شامل تھا کہ جمشید دستی کے ساتھ معاہدہ کرکے چند سیٹیں اسے دے دوکہ وہ طوفان سا دکھائی دیتاتھا۔ خاکوانی نے انکار کر دیا اور فیصلہ درست ثابت ہوا۔ حافظہ بیدار، سیاست کے اسرار و رموز سے آشنا۔ سانحہ یہ ہوا کہ چند ہزار ووٹوں سے خود ہار گئے ان کے بقول شاہ محمود اور چوہدری سرور کے ایما پر ایک اور صاحب میدان میں اتر آئے۔ اور بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ریوڑیوں کی طرح، عمران خان نے مناصب بانٹے۔ بہت عمل دخل اس میں خاکوانی کے ذاتی دوست جہانگیر ترین کا بھی تھا مگر وہ بھلا دیے گئے۔ ع
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے
جہاں تک اسحق خان کا تعلق ہے، وہ التجا کرنے والے نہیں۔ التجا کیا، حسنِ طلب بھی نہیں، اشارہ بھی نہیں۔
کیا دستِ طمع کسو کے آگے کریں دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے، سرہانے دھرے دھرے
خاکوانیوں کے اس قصے میں عامر خاکوانی کی کتاب کہاں گئی "زنگار نامہ" ایک خیال کی رو میں بہہ گئی۔ محاورہ یہ ہے کہ "قلم گوئید کہ من شاہ جہانم"، قلم نے کہا کہ دنیا کا بادشاہ میں ہوں۔ ایک جہت اس کی یہ بھی ہے کہ آغاز کرو تو دریا کی طرح، اپنی سمت کا تعین قلم کبھی خود ہی کر لیتا ہے۔
دیر تک میں سوچتا رہا کہ یہ سب خاکوانی رومان پسند کیوں ہوتے ہیں؟ ان کی بعض خصوصیات مشترکہ کیوں ہیں۔ کم از کم ان سب کی، طالبِ علم کو جن سے واسطہ پڑا۔ 2012ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب کے دیباچے میں عرض کیا تھا: عامر خاکوانی میرے پسندیدہ کالم نگار ہیں، اب بھی ہیں۔
اگرچہ کچھ تنقیدی نکات ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ جس انشراح سے عامر خاکوانی لکھتے ہیں عصری صحافت میں اس کی مثال کم ہوگی۔ سوچ سمجھ کر طے کیا گیا موقف، رواں اور بے ریا لہجہ۔ غیر جانبداری مگر دکھاوے کی نہیں۔ نقطہء نظر اور عقیدہ رکھتے ہیں مگر لازماً کسی گروہ کے حامی یا مخالف نہیں۔ آزادمصنف کی روش یہی ہوتی ہے۔
یہ تحریر یں پڑھتے ہوئے والٹیئر یاد آتا ہے، جس نے کہا تھا Every word of a writer is an act of generosity لکھنے والے کا ہر لفظ سخاوت کا مظہر ہوتاہے۔ جی جان سے، خلوصِ قلب سے کی جانے والی عنایت۔ شرط یہ کہ وہ دل صداقت کا مسکن ہو، تلاشِ حق کا آرزومند!