خیر اور شر
اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے : تم ایک چیز کو برا سمجھتے ہو؛حالانکہ اس میں تمہارے لیے خیر پوشیدہ ہوتی ہے۔ تم ایک چیز سے محبت کرتے ہو ؛حالانکہ اس میں تمہارے لیے شر ہوتاہے۔ آنے والا کل کیا لائے گا، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتامگر یہ کہ ظلم کے مقابل ڈٹ کر کھڑے ہونے والے، جہاد کرنے والے ہی سرخرو ہوتے ہیں۔
سلامتی کونسل کے اجلاس سے پہلے جتنے با خبر لوگوں سے بات ہوئی، وہ اندیشوں کا شکار تھے۔ ماسکو سے کوئی امید وابستہ نہیں تھی۔ فرانس سے ویٹو کا اندیشہ تھا۔ افغانستان میں امریکہ کو پاکستان کی ضرورت آپڑی ہے مگر وہ بھارت کا تزویراتی حلیف بھی ہے۔ اگرنتیجہ توقعات سے بہت بہتر رہا تو اس میں بین الاقوامی میڈیا کا کردار ہے، سوشل میڈیا کا بھی۔ بعض عرب ممالک عین وقت پہ دھوکہ دے گئے۔ اقوام جب مایوسی کا شکار ہوتی ہیں توپسپائی اور پستی ہی میں پناہ ڈھونڈتی ہیں۔ چین چوکنا رہا اور اس نے دوستی کا حق ادا کردیا۔ وہ پاکستان کا ویسا ہی حلیف ہے، جیسا کہ امریکہ بھارت کا۔ بین الاقوامی امور کا ادراک رکھنے والے سید مشاہد حسین ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس پتے بہت ہیں مگر سلیقہ مندی کے ساتھ ہم استعمال نہیں کرتے۔ پاکستانی قوم نے حمیت کا راستہ استعمال کیا۔ اخبار نویسوں نے دہائی دی تو حالات کا رخ متعین ہوگیا۔ حکومتِ پاکستان کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ سیاسی قیادت میں کمزوری کے کچھ آثار اوّل اوّل نظر آئے لیکن بالاخر وہ یکسو ہو گئی۔ اسلام آباد نے دانائی کا مظاہرہ کیا کہ سلامتی کونسل میں ذمہ داری محترمہ ملیحہ لودھی کے سپرد کی۔ اپنا فرض انہوں نے سلیقہ مندی سے ادا کیا اور بھارت کو صدمے سے دوچار ہونا پڑا، آسمان کو جس کا تکبر چھو رہا تھا۔ پانچ اگست کا بھارتی اقدام بالاخر پاکستان، کشمیر اور بھارت کے لیے کیا لائے گا، اس کا فیصلہ مستقبل کرے گا لیکن اب وقت کا دھارا ہندوستان کے حق میں نہیں۔ کشمیریوں نے سپرانداز ہونے سے انکار کر دیا ہے اور پاکستانی قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ کشمیری اگر ڈٹے رہے اور انشاء اللہ ڈٹے رہیں گے۔ پاکستانی قوم اگر ثابت قدم رہی اور انشاء اللہ ثابت قدم رہے گی تو ایک ایک قدم ہم آگے بڑھتے جائیں گے۔ شیکسپئر نے کہا تھا : ہر آدمی کی زندگی میں ایک لہر اٹھتی ہے، اگر وہ اس پر سوار ہو جائے تو کامیابی لازم ہوتی ہے۔ اقوام کے حق میں بھی یہ بات اتنی ہی درست ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے، جس کی انہوں نے کوشش کی۔ قدرت کے ابدی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ذرّہ ء خلوص بھی وہ ضائع نہیں کرتی۔ ساٹھ سال سے سید علی گیلانی پورے قد سے اگر مقتل میں کھڑے ہیں تو کیا اس میں قدرت کا کوئی گہرا اشارہ پوشیدہ نہیں؟شاید یہ کہ بالاخر دنیا کی واحد بت پرست قوم کو منہ کے بل گرنا ہے۔ افراد یا اقوام، تکبر، انسان دشمنی اور خود پسندی برباد کرنے والی خصوصیات ہیں۔ بھارت نے نریندر مودی کو قیادت سونپ کر تکبر کی راہ چنی ہے۔
بھارتی میڈیا اب سکتے میں مبتلا ہے، توجیح اور تاویل میں۔ معدودے چند کے سوا بھارتی اخبار نویس جھوٹ پہ جھوٹ بولتے رہے۔ ثابت کرتے رہے کہ حالات معمول پہ آتے چلے جائیں گے۔ اب وہ ایک نیا گیت گا رہے ہیں کہ بے شک سلامتی کونسل میں بھارتی موقف کی پذیرائی نہ ہو سکی مگر عملاً پاکستان اور کشمیر کو کیا ملا؟ جناب، اخلاقی تائید حاصل ہوئی اور اس وقت یہی درکار ہے۔ فراموش کردہ کشمیر واشنگٹن پوسٹ، نیو یارک ٹائمز اور گارجین کے پہلے صفحے پر جگمگا رہا ہے۔ الجزیرہ تو الگ، بی بی سی اور سی این این کے لیے بھی اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تحریکِ آزادی کو مقامی لکھیں۔ رابرٹ فسک اور ارون دھتی رائے ہی نہیں، وہ اخبار نویس بھی اب کشمیر پہ لکھ رہے ہیں، کل تک کشمیر کی جنگِ آزادی جن کے لیے دہشت گردی کے سوا کچھ نہ تھی۔
پچاس برس کے بعد اقوامِ متحدہ میں کشمیر اجاگر ہوا ہے۔ فرانس ویٹو کا ہتھیار استعمال کرنے کی ہمت نہ پا سکاتو اس کی وجہ عالمی ضمیر ہے۔ کبھی کبھی، خال خال جو بروئے کار آتا ہے۔ "لوگوں کے دل دشت میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہیں، ہوا جنہیں الٹاتی پلٹاتی ہے " نئی دہلی کے ساتھ ماسکو کے غیر معمولی تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔ بھارت جدید ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار ہے۔ اس کے باوجود روس نے ہندوستان کی حمایت سے انکار کر دیا۔ بالواسطہ طور پر امریکہ نے بھی مدد کی۔ اقوامِ متحدہ میں اجلاس کے ہنگام صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگرچہ یہ کہا کہ دونوں ملکوں کو باہم بات چیت کرنی چاہئیے مگر وہ جانتے ہیں کہ اب آسانی سے یہ ممکن نہیں۔ بروقت شاہ محمود قریشی نے کہہ دیاکہ آر ایس ایس سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ حکومتِ پاکستان اگر چاہے بھی تو پاکستانی قوم ہرگز ہرگز اجازت نہیں دے گی۔ اس باب میں عمران خان عوامی جذبات کو بہرحال زیادہ ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہ نواز شریف کی حکومت نہیں، جن کے گھر میں آئے دن بھارتی مہمان بلا تکلف آتے اور بعض اوقات ہفتوں قیام کیا کرتے۔ ان میں لندن سے آنے والا ایک ڈاکٹر شامل تھا، جاتی امرا میں جو سیاسی اجلاسوں میں بھی شریک ہوا کرتا۔
بدقسمتی سے ہماری اجتماعی یادداشت بہت ناقص ہے۔ آزاد کشمیر میں 2010ء کی انتخابی مہم کے دوران مظفر آباد میں آنجناب نے اعلان کیا تھا :اتنا ظلم بھارت نے کشمیر میں نہیں کیا، جتنا پاکستانی فوج نے۔ تب بھارتی سفیر نے سید مشاہد حسین سے کہا تھا : We are pleasently surprised that Mian sahib did not mention India or Indian army in the campaign.۔ ہمیںخوشگوار حیرت ہے کہ میاں صاحب نے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران بھارت یا بھارتی فوج کا کوئی ذکر تک نہ کیا۔ جی نہیں، ذکر تو کیا مگر ہندوستان کے حق میں۔
میاں محمد نواز شریف ان گنتی کے پاکستانیوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے بھارتی بالادستی کے امریکی تصور کوپوری طرح قبول کر لیا تھا۔ بھارتی ہندوئوں کے ساتھ شریف خاندان کے تعلقات ایک نہیں، تین نسلوں پر پھیلے ہیں۔ اس کہانی کا آغاز پچھلی صدی کے دوسرے عشرے میں امرتسر سے ہوا۔ دبئی، جدّہ، لندن اور جاتی امرا اس کے مختلف پڑائو ہیں لیکن یہ کہانی پھر کبھی۔ زرداری اور نواز شریف مظلوم کشمیریوں کے باب میں کتنے سنجیدہ تھے، اس کی ایک علامت کشمیر کمیٹی ہے، دونو ں ادوار میں مولانا فضل الرحمٰن سربراہی کے منصب پر فائز رہے۔ کشمیر پر اسلام آباد کی یکسوئی میں راولپنڈی کا دخل بھی ہے، جہاں زیادہ گہری سطح پر تجزیہ ہوتاہے۔ پانچ اگست کے انقلاب سے جو گہرے اثرات مرتب ہوئے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ کشمیر میں بھارت نواز قیادت بے معنی ہوگئی۔ اس کا کردار تمام ہوا۔ اب وہ اپنی قوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے بھارت نواز دانشور اب بے بس ہیں۔ ان میں سے بعض نے کشمیر پر ٹسوے بہائے۔ ان میں سے ایک سیاہ بخت نے اہلِ کشمیر کا موازنہ تھر کے مکینوں سے کیا ہے۔
اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے : تم ایک چیز کو برا سمجھتے ہو؛حالانکہ اس میں تمہارے لیے خیر پوشیدہ ہوتی ہے۔ تم ایک چیز سے محبت کرتے ہو ؛حالانکہ اس میں تمہارے لیے شر ہوتاہے۔ آنے والا کل کیا لائے گا، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتامگر یہ کہ ظلم کے مقابل ڈٹ کر کھڑے ہونے والے، جہاد کرنے والے ہی سرخرو ہوتے ہیں۔