کل اور آج کے خوارج
کل کے خارج آشکار تھے اور آج کے بھی لیکن آج ہم جنابِ عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت علیؓ کے راستے پر نہیں۔ ہم ان کی قوتِ فیصلہ، جرات اور علم کے وارث نہیں رہے۔ ہم نے ان کی راہ ترک کی تو اللہ نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا۔
یہ ایک کتاب سے اقتباس کا خلاصہ ہے:"عبداللہ بن عباسؓکہتے ہیں: لشکرِ علیؓسے علیحدہ ہونے کے بعد چھ ہزار خوارج ایک گھر میں جمع ہو ئے۔ باہم مشورے سے اتفاق کیا کہ امیر المومنین ؓ سے جنگ کریں گے۔ خبریں پہنچتی رہیں کہ خوارج جنگ کی تیاریوں میں ہیں۔ آپؓ فرماتے:انہیں چھوڑ دو۔ جب تک جنگ پہ نہ اتریں، میں انہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ ضرور نکلیں گے۔ ایک دن میں آپ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا:ارادہ ہے کہ آج میں خوارج کے پاس جاؤں، انہیں سمجھانے کی کوشش کروں۔
آپؓ نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہیں نقصان پہنچائیں گے۔ عرض کیا:اللہ نے چاہا تو ایسا نہیں ہو گا۔ فرمایا: اچھاجاؤ مگر ان سے قرآن کی بنیاد پر مناظرہ نہ کرنا کہ قرآن کئی پہلوؤں کا حامل ہے۔ سنت کی بنیاد پر ان سے گفتگو کرنا۔ حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا: کتاب اللہ کا میں ان سے زیادہ عالم ہوں۔ بالاخر آپ ؓنے اجازت مرحمت فرمائی۔
میں نے بہترین یمنی لباس پہنا۔ خوب سنور کر پہنچا۔ اْن سے بڑھ کر عبادت گزار نہیں دیکھے تھے۔ پیشانیاں سجدوں کے نشانات سے مزین تھیں۔ کثرت عبادت سے اْن کے ہاتھ اونٹ کے اْس حصے کی طرح ہو گئے تھے جو زمین پر لگتے رہنے سے سخت ہو جاتا ہے۔ انہوں نے صاف ستھری قمیضیں پہن رکھیں تھیں۔ چہرے شب بیداری کے شاہد۔ میں نے انہیں سلام کہا۔
خوارج کہنے لگے:مرحبا ابن عباسؓ۔ کیسے آنا ہوا۔ میں بولا:میں تمہارے پاس انصار و مہاجرین اور رسول اللہ ؐکے داماد علی بن ابی طالبؓ کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔ سنو! اْن کی موجودگی میں قرآن مجید نازل ہوا اور وہ اس کی تفسیر و تاویل کا تم سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اْن میں سے ایک گروہ کہنے لگا:قریش سے جھگڑا نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے:بل ھم قوم خصمون(سورۃ الزخرف)قریش جھگڑا کرنے والے لوگ ہیں۔
اْن میں سے دو یا تین آدمی کہنے لگے:ہم اِن سے بات کر لیتے ہیں۔ میں نے کہا:تمہیں نبی کریمؐ کے داماد پر اور مہاجرین و انصار پر جو اعتراضات پیش کردو۔ تم میں سے ایک بھی قرآن کا ان سے بڑھ کر عالم نہیں۔ خوارج: تین اعتراضات ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے حکم کے مقابلے میں انسانوں کو منصف بنایا ہے؛حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان کتاب اللہ میں موجود ہے:ان الحکم الا للہ۔
میں بولا: دوسرا اعتراض کیا ہے؟ بولے: اْنہوں نے ایک گروہ سے لڑائی کی۔ انہیں قتل کیا لیکن نہ تو کسی کو قید کیا نہ مال غنیمت جمع کیا۔ اگر وہ مومن تھے تو پھر انہوں نے ہمارے لئے اِن سے لڑائی کرنا کیسے جائز قرار دیا۔ اْن میں سے کسی کو قیدی بنانے بھی نہ دیا۔ پوچھا:تیسری چیز؟ خوارج:انہوں نے صلح کا معاہدہ لکھتے وقت اپنے نام سے امیر المومنین کا لفظ مٹا دیا۔ پوچھا: کوئی اور بات؟
خوارج:بس یہ کافی ہیں۔ میں نے کہا:یہ کہ انہوں نے انسانوں کو حَکّم بنایا تو اس پر میں کچھ آیات تلاوت کرتا ہوں۔ تو کیا تم اپنے موقف سے دستبردار ہو جاؤ گے؟ خوارج:جی بالکل۔
میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ایک خرگوش کے معاملے کو، جس کی قیمت ایک چوتھائی درہم سے زیادہ نہیں ہوتی، انسانوں کے سپرد کر دیا ہے۔ اور یہ آیتِ کریمہ پڑھی:اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مار۔ اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اْسی کے ہم پلہ ایک جانور اْسے نذر کرنا ہو گا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے(سورہ المائدہ95)مرد و عورت کے معاملے میں فرمان باری تعالیٰ ہے:اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو(سورہ النساء 35)۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آدمیوں کی تحکیم ایک خرگوش کے قتل اور عورت کے معاملہ میں افضل ہے یا مسلمانوں کے باہمی معاملات کی درستی اور خونریزی روکنے کے لئے افضل ہے؟
خوارج:بلکہ یہی افضل ہے۔ ابن عباسؓ: یہ بات طے ہو گئی؟ خوارج:جی ہاں۔
ابن عباسؓ: جہاں تک یہ کہ انہوں نے لڑائی کی اور کسی کو قید نہ کیا۔ نہ ہی مال غنیمت سمیٹا تو کیا تم اپنی ماں ام المومنین سیدہ عائشہ ؓکو قیدی بناتے؟ اللہ کی قسم! اگر تم نے یہ کہا کہ وہ ہماری ماں نہیں تو تم اسلام ہی سے نکل جاؤ گے۔ اور اگر تم نے یہ کہا کہ ہاں ہم انہیں گرفتار کرنے کے لیے تیار ہیں تو تب بھی تم اسلام سے خارج۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:پیغمبرؐ مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبرؐ کی بیویاں مومنوں کی مائیں۔ (سورہ الاحزاب6)کیا تم نے یہ بات مان لی؟ خوارج:جی ہاں۔
میں نے کہا:ہاں! سیدنا علیؓ نے اپنے نام سے امیر المومنین کا لفظ مٹا دیا۔ اللہ کے رسول ؐ نے حدیبیہ کے روز مشرکین کے نمائندوں ابو سفیان بن حرب اور سہیل بن عمروؓ کے ساتھ صلح نامہ تحریر کروایا۔ آپ ؐ نے سیدنا علیؓ کو حکم دیا کہ وہ صلح کی شرائط تحریر کریں۔ سیدنا علیؓ نے لکھا:اس تحریر کی رو سے محمد رسول اللہ ؐ نے قریش مکہ سے صلح کی ہے" مشرکین نے اس پر کہا: اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپ سے کبھی لڑائی نہ کرتے۔ اس پر نبی کریم ؐ نے فرمایا: اے علی!اسے مٹا دو اور لکھو کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس کے مطابق محمد بن عبداللہ(ﷺ) نے صلح کی ہے۔ اللہ کی قسم!آپؐ سیدنا علیؓ سے بدرجہا افضل اور برتر ہیں۔
لاجواب ہو کر دو ہزار خارجی تائب ہو گئے۔ باقی سب لڑائی کے لئے نکلے اورسب کے سب قتل کر دیے گئے۔ اس بحث کے نتیجے میں بعض خوارج نے اطاعت قبول کر لی۔ باقی گمراہی پر قائم رہے۔ سیدنا علیؓ نے کوفہ کی مسجد میں اْن سے خطاب کیا تو وہ مسجد کے کونوں سے بولے:ان الحکم الا للہ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ شرک کے مرتکب ہیں کہ آپ نے لوگوں حَکّم بنایا۔
سیدنا علیؓ نے فرمایا: تین باتوں کا ہم وعدہ کرتے ہیں۔ مساجد میں آنے سے تمہیں روکیں گے نہیں۔ مالِ فے میں تمہارا حصہ روکیں گے نہیں۔ اور تم سے لڑائی کرنے میں پہل نہ کریں گے۔
پھر انہوں نے ایک جگہ ڈیرا جما لیا۔ جو بھی مسلمان اْن کے قریب سے گزرتا اسے قتل کر دیتے۔ دست درازی اس حد تک بڑھی کہ انہوں نے جلیل القدر صحابی سیدنا عبداللہ بن خباب بن ارت ؓکو بھی شہید کر دیا۔ سیدنا علیؓ نےاْن کو کہلا بھیجا: عبد اللہ بن خبابؓ کو کس نے قتل کیا ہے؟ جواب میں خارجیوں نے کہا:ہم سب نے۔ آپؓ نے جنگ کی تیاری کی اور نہروان کے مقام پر ایک بھرپور لڑائی میں اِن کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ مذکورہ بالا تفصیلات کی مسلم تاریخ کے کبار اہلِ علم نے تصدیق کی ہے۔
سیدنا علیؓ ابن ابی طالب نے ابن عباس ؓکو تلقین کی تھی کہ وہ سنت کی بنیاد پر انہیں قائل کریں۔ ثابت ہوا کہ خوارج مطلقاً منکر حدیث نہ تھے لیکن صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لئے احادیث سے نظر چرا کر تفسیر بالرائے کا سہارا لیتے۔ کل کے خارج آشکار تھے اور آج کے بھی لیکن آج ہم جنابِ عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت علی ؓکے راستے پر نہیں۔ ہم ان کی قوتِ فیصلہ، جرات اور علم کے وارث نہیں رہے۔ ہم نے ان کی راہ ترک کی تو اللہ نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا۔