گومگو
اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے کہ ہجرت اور جہاد کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ ذہنی طور پر کوئی قوم آزاد ہو جائے تو تادیر اسے غلام نہیں رکھا جا سکتا۔ زنجیریں توڑ ڈالنے کا اہلِ کشمیر نے توتہیہ کرلیا۔ پاکستانی قیادت گومگو کا شکار ہے۔ تاریخ کے چوراہے پر ابھی ششدر کھڑی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی طوفانی یلغار ایسی غیر متوقع تھی کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں سکتہ ساطاری رہا۔ ابھی ابھی کشمیر کمیٹی کے چئیرمین فخرِ امام سے بات ہوئی، تو انہوں نے بتایا کہ بالآخر حکومتِ کا ردِّعمل سامنے آیا ہے۔ وہ خود اسلام آباد سے کہیں دور پڑے ہیں۔ انہیں دارالحکومت میں ہونا چاہئیے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے برعکس ایک ذمہ دار اور سنجیدہ آدمی ہیں۔ حکمتِ عملی کی تشکیل میں انہیں شامل رہنا چاہئیے۔
یاد آیا کہ الیکشن سے قبل عمران خاں سے جب یہ کہا کہ فخرِ امام کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جا سکتاہے، تو انہوں نے کہا: اب و ہ ایک بزرگ آدمی ہیں۔ عرض کیا: کیا آپ کو ان سے کھیت میں ہل چلوانا ہے؟ اچھا ہوا کہ آزاد حیثیت سے وہ جیتے اور اچھا ہوا کہ انہیں کشمیر کمیٹی کی سربراہی سونپی گئی، دس برس تک جو مولانا فضل الرحمٰن کی گرفت میں رہی، جو جہادِ کشمیر کو جہاد ہی نہیں مانتے۔ جنہیں یہ منصب سیاسی رشوت کے طور پر سونپا گیا اور یہ سارا وقت انہوں نے گنوا دیا۔
بابائے قوم نے کہا تھا: کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، مگر تماشہ دیکھیے کہ سیاسی جماعتوں کو کوئی پرواہ ہے اور نہ سول حکومت کو۔ کشمیر کا مقدمہ عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے فضا سازگار ہے مگر سرکار مخمصے میں مبتلا۔ مدتوں سے سول حکومتوں کا اندازِ فکر یہی ہے کہ یہ عسکری قیادت کا دردِ سر ہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اب تک مسلم ممالک اور چین کو اعتما دمیں لیا جا چکا ہوتا۔ عالمی پریس میں احتجاج کی آواز بلند ہوتی اور ایک جنگی مہم کی طرح پاکستانی سفارت خانے بروئے کار ہوتے۔ مگر افسوس کہ پوری قوم سینیٹ کے بے معنی الیکشن میں الجھی رہی۔ ہیجان میں مبتلا معاشروں کا مقدر یہی ہوتا ہے۔
وادی میں کرفیو کی سی کیفیت ہے۔ دھڑا دھڑ بینکوں سے لوگ روپیہ نکلوا رہے ہیں۔ گھروں میں راشن جمع کر رہے ہیں اور ہر چاروں طرف خوف کا راج ہے۔ کیا یہ صدر ٹرمپ کے بیانات کا نتیجہ ہے کہ بھارتی قیادت مہم جوئی پرتل گئی یا اس کے سوا بھی؟ افغانستان میں بیس سالہ بھارتی سرمایہ کاری یکا یک بے معنی ہو گئی۔ امریکی صدر نے افغان جنگ کو بے ثمرقرار دے کر واپسی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہر چند کہ پینٹا گان اور سی آئی اے ان سے متفق نہیں، مگر ٹرمپ اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس معاملے میں امریکی رائے عامہ اور میڈیا بڑی حد تک ان کا ہمنوا ہے۔ اس لیے کہ افغانستان میں امریکی مہم سے کچھ بھی حاصل نہ ہو سکا اور مستقبل میں بھی کوئی امکان پوشیدہ نہیں۔
سات عشروں تک بھارت ہر افغان حکومت کی سرپرستی کر تا رہا کہ، شمال سے بھی پاکستانی سرحدوں پہ دباؤ رکھ سکے۔ افغان سرزمین پر بھارتیوں نے 9عدد قونصل خانے قائم کیے۔ ظاہر ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بننے کے لیے۔ صرف بلوچستان کی علیحدگی کے لیے بھارت نے پانچ سو ملین ڈالر سالانہ کی رقم مختص کی۔ "را" اور افغانستان کی این ڈی ایس نے اشتراکِ عمل سے ہر طرح کی دہشت گردی روا رکھی۔ افغانستان ہی نہیں، ایرانی سرزمین بھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ امریکی سرپرستی میں۔ انکل سام کی حکمتِ عملی میں مرکزی نکتہ یہ تھا کہ دباؤ ڈال کر پاکستان کو بلیک میل کیا جائے۔ پاکستان کی عسکری قیادت کا احساس یہ تھا کہ افغانستان کو جنگ سے جیتا نہیں جا سکتا۔ مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے۔
تدبیر کنند بندہ، تقدیر کنند خندہ۔ کبھی ایک مفکر کی آنکھ آنے والے زمانوں کا سیاستدانوں سے بہتر ادراک کرتی ہے۔ 1920ء کے عشرے میں امان اللہ خاں کی دعوت پہ اقبالؔ جب افغانستان تشریف لے گئے، تو واپسی پر انہوں نے کہا تھا کہ افغانوں کی سادگی اور سخت جانی انہیں ہر بحران سے بچا لے جائے گی۔ اور یہ کہا تھا:ایشیا ایک جسم کی مانند ہے۔ اس میں فساد ہوگا تو سارے ایشیا میں فساد، اور اسے قرار نصیب ہوگا تو سارے ایشیا میں امن۔ اللہ کے آخری رسول ؐ کا فرمان یہ ہے: مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اُس دانائے راز نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ افغانستان اور کشمیر کے مقدر کا فیصلہ ایک ساتھ ہوگا۔
کیا افغانستان کے حالات میں یکایک پید اہونے والے انقلاب، اور اس کے نتیجے میں کابل سے بھارت کی بے دخلی نے اسے بوکھلا دیا؟ کیا وہ تنازعہ کشمیر کے باب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پہ برہم ہے؟ یانریندر مودی انتخابی مہم میں کیے گئے اپنے اعلان کی تکمیل کے لیے بے تاب ہیں؟ کچھ بھی ہو، تیور ان کے خطرناک ہیں۔ اپنی مصنوعی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار ہیں۔
اندازے یہ ہیں کہ جموں کے علاقے کو الگ صوبہ بنا کر وادی کو وفاقی علاقہ قرار دینے والے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں گم صم ہیں، حتیٰ کہ جماعتِ اسلامی بھی، چالیس برس سے جو پورے جوش و خروش کے ساتھ کشمیر کا مقدمہ لڑتی آئی ہے۔ خود حکومت اپنا ردّعمل پوری طرح متعین نہیں کر پائی۔ صورتِ حال ایسی ہے کہ خود بھارت کے معتدل مزاج عناصر پریشان ہیں۔ آل انڈیا کانگرس نے عسکری یلغار اور الحاق کی نوعیت تبدیل کرنے کی مخالفت کی ہے۔
کشمیر کا مسئلہ ہے کیا؟ یہ تقسیمِ بر صغیر کے ایجنڈے کا وہ حصہ ہے، جسے ابھی مکمل ہونا ہے۔ چالیس برس میں ایک لاکھ کشمیری شہید کر دیے گئے۔ زعفران کے کھیت اور سیب کے باغات اجاڑ دیے گئے۔ سینکڑوں مارکیٹیں گن پاؤڈر چھڑک کر جلا دی گئیں۔ اس کے باوجود اہلِ کشمیر نے بھارتی غلبے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ قربانیو ں کی ایک ایسی نظیر انہوں نے رقم کی ہے کہ تاریخ میں کم ہی مثالیں ہوں گی۔ حالات مگر ان کے لیے سازگار نہ تھے۔ اب بہرحال تاریخ کروٹ بدلتی دکھائی دیتی ہے۔
نائن الیون کے بعد آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کے پسِ منظر میں دیکھا جا تارہا۔ پھر یہ کہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی معاشی قوت ہے، ایک وسیع و عریض مارکیٹ۔ قوموں کے اشتراکِ عمل کا انحصار ان کے مفادات پہ ہوتا ہے اور مغرب اپنے مفاد کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ کل جانے کیا ہو؟ اب مگر ڈونلڈ ٹرمپ نریندر مودی کا گاہے مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ اب انہیں بنیا ذہنیت کا کچھ نہ کچھ ادراک ہوا ہے۔
اسرائیل بھارت کا نیا شراکت دار ہے۔ مسلم دشمنی دونوں میں مشترک ہے۔ وہ امریکہ اور یورپ کے اندیشے کو برت رہے ہیں۔ اس لیے کہ مغرب عالمِ اسلام میں بیداری کے امکانات سے خوفزدہ ہے۔
بندوں کے اپنے فیصلے ہیں اور اللہ کے اپنے۔ 1979ء میں روس افغانستان پہ چڑھ آیا تو کہا گیا کہ، ساڑھے تین سو سال سے وسعت پذیر روسی کبھی لوٹ کر نہیں جاتے، لیکن پھر نہ صرف افغانستان سے پلٹے بلکہ وسطِ ایشیا سے بھی۔
اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے کہ ہجرت اور جہاد کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ ذہنی طور پر کوئی قوم آزاد ہو جائے تو تادیر اسے غلام نہیں رکھا جا سکتا۔ زنجیریں توڑ ڈالنے کا اہلِ کشمیر نے تو تہیہ کرلیا۔ پاکستانی قیادت گومگو کا شکار ہے۔ تاریخ کے چوراہے پر ابھی ششدر کھڑی ہے۔