فتنہ پرور
غیر ذمہ دار ی ہے، خودغرضی، مفاد پرستی اور ابن الوقتی۔ خوئے انتقام ہے اور اس سے مغلوب لوگ۔ لیڈر نہیں، اکثر ان میں سے مسخرے ہیں۔ اپنے کارناموں کی سزا بھگتنے والے، اپنے انجام سے خوفزدہ۔ آنے والے کل میں جنہیں عبرت کا نشان بننا ہے۔ وہی پرانی کہاوت: تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتا۔
جسٹس جاوید اقبال بظاہر عدمِ احتیاط کے شکارہوئے۔ قانون کی رو سے کیا وہ جرم کے مرتکب بھی ہوئے؟ قرآنِ کریم، سنت رسولؐ یعنی شریعت یا قانون کے کسی انصاف پسند عالم سے پوچھا جائے تو اغلباً وہ یہی کہے گا کہ مقدمہ اس آدمی پر چلایا نہیں جا سکتا۔ کوئی سزا دی نہیں جا سکتی۔ پارلیمانی پارٹی کا سوال ہی کیا، فتنے کو ہوا دی جائے؟ مزید بے یقینی، بد امنی اور تصادم؟ یہ البتہ قابلِ فہم ہے کہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھیج دیا جائے۔ وہی ایک ادارہ ہے، نازک معاملات میں جس پر بھروسہ کیا جا سکتااور جس کا یہ دائرہء کار ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل۔
سینیٹر اور ارکانِ اسمبلی تو شخصیات کے نمائندے ہیں۔ آصف علی زرداری، میاں محمد نواز شریف اور جنابِ عمران خان کے۔ وہ انہی کے اشارہء ابرو پر حرکت میں آتے اور انہی کے موقف کی تبلیغ کرتے ہیں۔ امیدوار وں کو ٹکٹ نواز شریف عطا کرتے ہیں۔ ابھی کل تک جنابِ زرداری یہ بھی گوارا نہ کیا کرتے کہ کوئی بلاول بھٹو کی طرف مائل ہو۔ جب یہ ہوا تو ایک فاتحانہ شان کے ساتھ انہوں نے اعلان کیا کہ ٹکٹ وہ دیں گے۔ یہی بات الیکشن کے ہنگام عمران خاں نے کہی تھی۔ ٹھیک انہی الفاظ میں: ٹکٹ میں خود دوں گا۔ لطیفہ یہ ہے کہ وقت آیا تو یہ کام انہوں نے دوسروں کے سپرد کر دیا۔ یہ ہے ان سیاسی جماعتوں کی حالت۔
ہوسِ اقتدار ہے، ہمارے سیاسی لیڈروں کا تمام تر زادِ راہ صرف ہوسِ اقتدار۔
اس طرح کے تماشے جمہوریت میں نہیں ہوتے۔ دنیابھر میں پارٹیوں کے مقامی نمائندے امیدواروں کا انتخاب کرتے ہیں، اور یہ حتمی ہوتاہے۔ بڑے سے بڑا، مقبول سے مقبول کوئی لیڈر بھی اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔ فقط الیکشن کے ڈھونگ کا نہیں۔ شاید اسی لیے عبقری اقبالؔ نے کبھی یہ محسوس کیا تھا۔
گریز از طرزِ جمہوری غلا مے پختہ کاری شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید
طرزِ جمہوری سے گریز کرو، کسی پختہ کار کی پیروی کرو، دو سو گدھوں کے مغز سے بھی انسانی فکر نہیں پھوٹ سکتی۔
جی ہاں، اقبالؔ بعد میں جمہوریت کے قائل ہو گئے تھے ؛حتیٰ کہ اس بات کے بھی کہ پارلیمان کو دینی امور میں بھی اجتہاد کا حق دے دیا جائے۔ مگر کون سی پارلیمان؟ وہ جو مرتب، مہذب اور باقاعدہ سیاسی جماعتیں ہوں۔ جو عوام کو تعلیم دیں۔ اپنے کارکنوں کی تربیت کریں۔ حکمرانی کو جو حق اور اختیار نہیں بلکہ امانت سمجھیں۔
فتنے سے ہم دوچار ہیں اورقرآنِ کریم یہ کہتاہے:فتنہ قتل سے بڑا جرم ہے۔ یہ چند غیر ذمہ دارانہ واقعات کا نتیجہ ہے۔ وہ تو صاف انکار کرتے ہیں، فرض کیجیے، وہی ایک ایک لفظ جسٹس جاوید اقبال نے کہا تھا، جو چھاپا گیا تو بھی اس کا جواز نہیں۔ پچاس برس صحافت میں گزارنے والے اس طالبِ علم کی رائے میں کوئی ایسی چیز کبھی شائع نہیں ہونی چاہئیے، جس سے معاشرے میں فتور اور فساد پیدا ہو۔ حیرت ہے کہ یہ لکھا کیسے گیا اور حیرت ہے کہ چھپ کیسے گیا۔
جہاں تک ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی قابلِ اعتراض گفتگو کی بات ہے، خود چینل نے معافی مانگ لی۔ خود اعتراف کر لیا کہ وہ حماقت کے مرتکب ہوئے۔ اوّلین یہ کہ کسی ملاقاتی کو کسی بھی شخص کی گفتگو ٹیپ کرنے کا حق کیا ہے۔ قرآنِ کریم کہتاہے کہ مخمصہ اگر ہو تو کبار اہلِ علم سے رجوع کرنا چاہئیے۔ ایک جگہ "راسخون فی العلم " کے الفاظ ہیں اور دوسری جگہ " اہلِ ذکر "۔ اسلام میں خلوت (Privacy)کا حق مقدس ہے۔ سرکارؐ کے شہر پہ رات اتر آتی تو وہ جلیل القدر حکمران عمر ابنِ خطابؓ، کبھی کبھی گلیوں میں گھومتا۔ رات کا سنّاٹا، پتھر اور گارے کے بنے وہ چھوٹے چھوٹے مکان اور ان کے مختصر سے صحن۔ ایک شب مشکوک سی آوازیں سنائی دیں۔ کان لگا کر سنا تو یہ تین چار بادہ نوش تھے۔ آپؓ نے پکڑا اور عدالت میں لے گئے۔
ملزموں کا استدلال یہ تھا کہ خود امیر المومنین خطا کے مرتکب ہیں۔ انہیں دیوار پھلانگنے کا حق کیا تھا؟ چنانچہ سرکارؐ اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے وارث کو معذرت پیش کرنا پڑی۔ یہ ہے ایک نجی زندگی کے تحفظ کا حق، کبھی کسی صور ت میں جسے پامال نہیں کیا جا سکتا۔ رہے سیاستدان اور دانشور تو وہ جو چاہیں کریں، کسی قانون، کسی ضابطہء اخلاق کا اطلاق ان پہ نہیں ہوتا۔ وہ آواز اور اظہار ہیں، فکر اور عقیدہ نہیں۔ ملک اور قوم پر جو بھی بیت جائے، انہیں اس سے کیا۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
قرائن سے آشکار یہ ہے کہ کسی سیاسی پارٹی نے نہیں، ریکارڈنگ اس خاتون نے کی، خود جس پرالزامات ہیں، اس کے شوہر پر بھی۔ ہاں مگر سیاسی پارٹیوں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی اور پوری کوشش کہ یہی ان کا وطیرہ ہے اور ہمیشہ سے ہے۔ چیخ کر زرداری صاحب نے کہا کہ نیب کے چئیرمین کو تھکا دیا جائے گا۔ کس چیز سے؟ ظاہر ہے کہ یہ ان کے علم میں تھا اور ظاہر ہے کہ لوٹ مار کی دلدل میں گھرا لیڈر احتساب کرنے والوں سے نالاں ہے۔ تین دن میں چار بار نون لیگ اپنا موقف بدل چکی۔ اوّل
شہباز شریف صاحب نے بیان داغا کہ کسی کی ذاتی زندگی سے ہمیں کیا تعلق۔ ہم غیر جانبدار رہیں گے۔ پھر شاہد خاقان عباسی ابھرے اور ارشاد کیا کہ پارلیمانی کمیٹی بننی چاہئیے۔ نہ صرف جسٹس جاوید اقبال کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا بلکہ وزیرِ اعظم کو بھی ذمہ دارٹھہرایا۔ ان کے بقول طاہرخاں نیازی چونکہ عمران خاں کے دوست ہیں ؛لہٰذا انہیں بھی تفتیش کے لیے طلب کرنا چاہئیے۔ سبحان اللہ! اس دلیل کی رو سے شاہد خاقان عباسی اگر خطاکار ہوں تو ان کے صاحبزادے اور دوستوں سے بھی باز پرس ہونی چاہئیے۔
طاہر خاں کو وزیرِ اعظم نے برطرف کر دیا۔ اللہ ان پہ رحم کرے، یہی ان کی سزا ہے اور وہ "نیک نامی " عمر بھر جو ان کے ساتھ رہے گی۔ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اس ڈرامے کی ذمہ دار ہیں۔ جی ہاں، موقع سے فائدہ اٹھانے کی سبھی مرتکب مگر کہانی کے بنیادی کردار صرف پانچ ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال، کالم نگار، ایک خاتون، اس کا میاں اور وہ شخص جس نے یہ گفتگو ٹی وی سے نشر کرنے کا ٹھیکہ لیا۔ کیا مفت میں لیا؟ کیا وہ عمران خان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مرتکب نہیں ہوئے؟
غیر ذمہ دار ی ہے، خودغرضی، مفاد پرستی اور ابن الوقتی۔ خوئے انتقام ہے اور اس سے مغلوب لوگ۔ لیڈر نہیں، اکثر ان میں سے مسخرے ہیں۔ اپنے کارناموں کی سزا بھگتنے والے، اپنے انجام سے خوفزدہ۔ آنے والے کل میں جنہیں عبرت کانشان بننا ہے۔ وہی پرانی کہاوت: تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتا۔