فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
چترال کے اس پیکرِ خلوص ہدایت اللہ اور اس کے کارنامے کا تذکرہ جلد ہی۔ جو دلوں میں امید جگاتا اور ایثار بوتا ہے۔
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
چترال کی وادی میں اترتے ہوئے" الخدمت "کے روحِ رواں وقاص شاہ نے دائیں ہاتھ اشارہ کیا "یہ ہوائی اڈہ ایک دریا کے درمیان ہے" درمیان اگر نہیں تو دریا کنارے ضرور۔ چترال ایک پراسرار سرزمین ہے۔ 21ہزار کلومیٹر پر پھیلا، آزاد کشمیر سے چار گنا بڑا۔ متحدہ عرب امارات کی اکثر ریاستوں اور کئی یورپی ممالک سے وسیع تر۔ آبادی البتہ محدود ہے۔ یہی کوئی نصف ملین۔ زیرِ کاشت رقبہ ساڑھے تین فیصد۔
شندور، دنیاکے سب سے بلند میدان میں ہر سال پولو کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ اب کی بار جو چترالیوں نے جیت لیا۔ ایک چترالی شہ سوار کو کھانا میسر ہو یا نہ ہو، اپنے اسپ کے ناز نخرے شوق سے اٹھاتا ہے۔ اسے آسودہ رکھتا اور اس کی تربیت میں لگا رہتا ہے۔ سوار ہی نہیں، گھوڑے کا ہنر بھی اس کھیل میں آشکار ہوتاہے۔ آدمی اور وفادار جانور کی رفاقت کبھی موسیقی ایسا آہنگ پیدا کردیتی ہے۔
یہ بادشاہوں کا کھیل تھا۔ لاہور کی مٹی اوڑھ کر سونے والے قطب الدین ایبک اسی میں مگن تھے کہ جان ہار دی۔ عظیم عرب شاعروں نے، تابہ ابد جن کا کلام زندہ رہے گا، اپنے گھوڑوں کے قصیدے لکھے۔ امرائو القیس نے کہا تھا" بارش میں جیسے ایک چٹان لڑھکتی ہو۔ "
آدم زاد کے اس رفیق کو اللہ کی ایک نشانی کہا گیا۔
قسم ہے ان کی جو پھنکاریں مارتے ہوئے دوڑ تے ہیں
پھر اپنی ٹاپوں سے چنگاریاں جھاڑتے ہیں
پھر صبح سویرے چھاپا مارتے ہیں
پھر گرد و غبار اڑاتے ہیں
پھر لشکر میں جا گھستے ہیں
انسان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے
اور وہ خود اس پر گواہ ہے
اہلِ چترال اللہ کے شکر گزار بندوں میں سے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اب پشاور، سوات اور نوشہرہ پہ توجہ مرکوز رکھنے والی اپنی حکومت سے نالاں ہیں۔ اسلام آباد والوں سے بھی۔ دو روزہ قیام کے دوران درجنوں چترالیوں نے اس ناچیز سے پوچھا کہ سرکار کو ان کی پرواہ کیوں نہیں۔ "وہ شور مچانے والوں کی سنتے ہیں " ان سے عرض کیا "کوئی بڑا ہنگامہ نہ سہی، پر امن احتجاج تو لازم ہے۔ مثلاً اہلِ سوڈان کی طرح، جنرل نومیری کو جنہوں نے اس طرح بھگا دیا تھا کہ تین دن گھروں سے باہر نہ نکلے۔
بہتر گھنٹے کے لیے اہلِ چترال کواڑ بند کر کے بیٹھ رہیں تو پشاور اور اسلام آباد والوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔
بے حسی کا زیادہ شدید احساس، کافرستان کے سفر میں ہوتا ہے۔ اڑھائی ہزار برس سے اس دشوار گزار آبادی میں مقیم یہ یونانی ایک عجوبہ ہیں۔ سکندرِ اعظم کی واپسی کے بعد دس سال تک ٹیکسلا میں اس کے جنرل تخت نشین رہے۔ پھر جیسا کہ ہمیشہ ہوتاہے، اکثریت نے جارح اقلیت کو مغلوب کر لیا۔ افراتفری میں بھاگے۔ ان وادیوں میں پناہ لی، رسائی جن تک بہت مشکل تھی۔ یہیں اپنی قدیم زبان اور رسم و رواج کے ساتھ نسل درنسل وہ زندہ رہے۔ ٹیلی ویژن پہ اس منفرد "کلچر "کا ذکر اہتمام سے ہوتا ہے۔ کچھ بھی نہیں، محض خرافات۔
سمٹتے سمٹتے بمبوریت نام کے اس گائوں اور اس وادی میں ان کی تعداد سات ہزار رہ گئی ہے۔ بتدریج مسلمان ہوتے جا رہے ہیں، خاص طور پر خواتین کہ جانوروں سے بدتر زندگی بتانے پر انہیں مجبور کیا جاتاہے۔ دریا کنارے بستے ہیں لیکن غسل سے گریز، مسلسل میلے کچیلے۔ بچے ہوں، جوان یا بوڑھے ایک آلودگی اور یبوست دائم دکھائی دیتی ہے۔ بچّے بھیک مانگتے ہیں۔ گھر دکانوں میں بدل گئے۔ دوردراز سے لائی گئی سستی دستکاریاں جہاں دھری رہتی ہیں۔ لکڑی کے بے ہودہ سے بت۔ قدیم ٹیکسلا کی طرح یہ ہنر مندی کے شاہکار مجسمے نہیں۔
سنگ تراشی تو دور کی بات ہے، لکڑی پہ کندہ کاری بھی انہوں نے سیکھی نہیں، جو علاقے میں با افراط ہے، بہت تنگ گلیاں۔ بہت کاہل لوگ۔ مرنے والوں کی لاشیں ایک کھلے چوکھٹے میں رکھ کر بھول جاتے ہیں۔ لباس کی انفرادیت بھی محض افسانہ ہے۔ پلاسٹک کے "موتیوں " سے بنی چار انچ چوڑی اور دو فٹ لمبی پٹی کے سوا، جو سر پہ دھری جاتی ہے، باقی پہناوا اس خطے کاعمومی پرانالباس ہے۔ اڑھائی فٹ چوڑے، سات فٹ لمبے لکڑی کے کھلے چوکھٹے میں مرنے والے کی لاش رکھ دی جاتی ہے۔ بدبو پھیلتی رہتی ہے ؛حتیٰ کہ خودبخود تمام ہوتی اور راکھ رہ جاتی ہے۔ "
تعلیم دو اور ووٹ لو۔ دھوکہ اب نہیں چلے گا" دیوار پہ لکھا تھا۔ ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ نمائش کی بجائے ان بیچاروں کی مدد کرے۔ وہ چڑیا گھر کے جانور نہیں۔ کافرستان میں کئی مساجد اور مدارس واقع ہیں۔ سیاح ہی نہیں، جوش و جذبے سے بھرے اسلام کے مبلغین کے طفیل نہیں بلکہ اپنی بیمار رسوم سے تنگ آکر وہ اسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایک ارب چالیس کروڑ مسلمان موجود ہیں، ان سات ہزار کے اضافے سے کوئی انقلاب برپا نہیں ہوگا۔ بہتر سلوک اور مواقع فراہم کرنے سے یہ پسماندہ زندگیاں ضرورثمر بار ہو سکتی ہیں۔
ایمان کا بیج دل میں پھوٹتا اور برگ و بار لاتا ہے۔ صدیوں پہلے چند تاجر انڈونیشیا پہنچے او رساری زمین اللہ کے نور سے بھر گئی تھی۔ ا س لیے کہ وہ علم اور حسنِ کردار کے حامل تھے۔ عراق، ایران، شام اور مصر، عہدِ اوّل میں مسلمان جہاں کہیں گئے، بستیوں کی بستیاں ایمان لے آئیں۔ اس لیے کہ وہ ستانے اور لوٹنے والے نہیں، مددگار اور مہربان تھے۔ خلافتِ راشدہ کے بعد بنو امیہ نمودار ہوئے۔ کردار اور علم کے چراغ مدھم ہوئے، رفتہ رفتہ بجھ گئے۔ بنو عباس بھی ویسے ہی تھے۔ بادشاہ سب ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، بھوکے، بہت ہی بھوکے۔
کل میکدے میں ایک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا
دریائے چترال کے ساتھ ساتھ، یہ ایک یادگار سفر تھا۔ بری طرح ادھڑی اور زلزلے سے پامال سڑک کے دونوں طرف آسماں گیر کوہسار اور جھاگ اڑاتا دریا۔ کہیں کہیں، مثلاً ایون گائوں میں منظر ایسا دلکش ہے کہ دیکھنے والے گنگ ہو جاتے ہیں۔ افغانستان کی بلندیوں سے آغاز کرتادریا طویل مسافت طے کر کے افغان سرزمین کو سیراب کرتا، پاکستان لوٹ آتا ہے۔ وہاں دریائے کابل کہلاتا ہے اور آخر کو اٹک کے مقام پر دریائے سندھ سے گلے ملتا ہے۔
پانچ صدیاں ہوتی ہیں، یہیں ظہیر الدین بابر کے ایک رفیق نے اسے لکھا: ہندوستان میں نے عبور کر لیا۔ یہ ویرانہ مہذب انسانوں کے قابل نہیں۔ شجر دریا میں اپنا عکس نہ دیکھیں تو زندگی کیا اور اس کا ان بساط کیا۔ ایک ریڈ انڈین سردار نے یورپ سے آنے والے فاتحین سے کہا تھا:چہرے اگر تازہ ہوا کالمس محسوس نہ کریں۔ پتوں کے جھومنے، بجنے کی آواز اگر سنائی نہ دے، زندہ رہنے کے کیا معنی ہیں۔ زندگی ختم ہوئی اب تو محض جینا ہے۔
خیال بھٹک جاتا ہے۔ لیجیے چترال کے سینکڑوں غریب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے والے ہدایت اللہ کو ہم بھول ہی گئے۔ بوٹا سا قد، مگر توانائی کا طوفان۔ خود آرام سے بیٹھتا ہے، نہ کسی کو بیٹھنے دیتا ہے۔ چترال کے اس پیکرِ خلوص اور اس کے کارنامے کا تذکرہ جلد ہی۔ جو دلوں میں امید جگاتا اور ایثار بوتا ہے۔
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی