ایں دفترِ بے معنی؟
زندگی مچھلیاں پکڑنے کی مہم نہیں کہ لہروں تلے ڈھونڈلی جائیں۔ موتی گہرائی میں ہوتے ہیں۔۔ اور قلب و جان میں دعا کی پکار چاہئے۔
حق نہیں ہے نہ سہی، تیری سخاوت کے حضور
ہے مرا کام تمنّا کی جسارت کرنا
اجالا پھیل چکا او ر پرندے ٹہنیوں میں دبک گئے تو یارِ طرح دار وصی شاہ کا پیغام ملا۔ کیا ضروری ہے، سیاست پہ لکھیں؟ کیوں نہ کچھ آج محبت پہ لکھیں۔
موصوف کا موضوع یہی ہے اور ہنر بھی یہی۔ 17لاکھ، جی ہاں، ان کے شعرے مجموعے سترہ لاکھ کی تعداد میں چھپ چکے۔ ہمیں خود کو تھامنا پڑتا ہے۔ کہیں چلے جائیے، کسی سے بات کیجئے، یہی ایک موضوع ہے۔ عمر اسی کی نذر ہو گئی۔ اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو اپنی حماقتیں یاد آتی ہیں اور وہ عرب خطیب، جس نے کہا تھا: حسنِ ظن ایک بھنور ہے اور بدگمانی بجائے خود ایک تحفظ۔ بدگمانی تو ہرگز کوئی قابلِ رشک نہیں۔ کیسے کیسے روشن دماغ اس بنا پر ہلاک ہوئے۔
جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
حد سے بڑھی خوش گمانی بھی لیکن تباہی لاتی ہے۔ 1996ء میں جب ایک سپنا دیکھا تو چاروں اور گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ امید کی کوئی مشعل فروزاں نہ تھی۔ عمران خان کو میں دیکھتا تھاکہ بنیادی سیاسی حقائق اور اپنے سماج کے تانے بانے سے نا آشنا ہیں۔ اس کے باوجود اگر کچھ امید تھی تو اس لیے کہ وہ سچا دکھائی دیتا تھا اور پرعزم بھی۔ تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت نہ تھی، اس کے مدّاحوں کا ایک انبوہ۔ اکثر کا اندازِ فکر یہ تھا کہ اس کی ناراضی مول نہ لی جائے۔ اب خیر خواہ وہ شخص نہیں ہوتا، جو محبت جتلاتا اور تائید کرتا رہے بلکہ وہ جو کھری بات بھی کہہ دے۔ جو آدمی سب سے بڑا اثاثہ تھا، وہی سب سے بڑا مسئلہ بھی۔ ہر ایک کو وہ قابلِ اعتبار سمجھتا اور آنکھیں بند کر کے بھروسہ کر لیتا۔
سیاست میں جی لگانے کی کوشش تو کی مگر بے دلی سے۔ کامل یکسوئی کبھی پیدا ہی نہ ہو سکی؛حالانکہ وہی مطلوب تھی۔ عہدِ جاہلیت کے عرب شاعروں سے مماثلت رکھنے والے، اپنے زمانے سے بے نیاز منفرد شاعر منیر نیازی دنیا سے اٹھے تو تعزیتی تحریر کیلئے ڈاکٹر خورشید رضوی سے رہنمائی کی درخواست کی۔ دوسرے سوالات کے علاوہ، ایک سوال یہ کیا: کیا مرحوم کبھی سیاست پہ بات کیا کرتے؟ کسی پارٹی یا رہنما سے وابستگی کی جھلک کبھی ان کے اظہارِ خیال میں جھلک اٹھی ہو؟ بے ساختہ ڈاکٹر صاحب نے کہا: کیا دلچسپی ہوتی؟ ایک سطحی چیز سے انہیں کیا شغف ہوتا؟ ہم سب کا مسئلہ یہی ہے۔ صدیاں گزر گئی ہیں کہ زندگی کے دو اہم ترین شعبوں، دین اور سیاست کو ہم نے ادنیٰ لوگوں کے سپرد کر رکھا ہے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایک بار اس ناچیز سے کہا: حقیقت یہ ہے کہ سیاست سے مجھے کراہت ہے۔ عرض کیا: ہمارا حال بھی یہی ہے مگر کیا کریں؟ سیاست تو خیر، دین کا حال یہ ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی یا تو اسے عمومی مذہبی فرائض میں دیکھتے ہیں یا کرامات کی تلاش میں۔ کرامات؟ سیدنا ابوبکرصدیقؓ سے لے کر، جناب عمر بن عبد العزیزؓ تک، کون کرامات دکھایا کرتا؟ دین ایک آموختہ نہیں کہ ازبر کر لیا اور دہراتے رہے بلکہ زندگی کا فہم۔ آدمی کیا ہے اور کائنات کیا؟ اس سے بھی پہلے یہ کہ کیا ا س کائنات کا کوئی رب ہے؟ کوئی خالق اور پروردگار؟ کیا واقعی وہ حیّ و قیوم ہے اور قادرِ مطلق، جس کے حکم بنا ایک پتہ بھی ہلتا نہیں؟ اس کے قوانین کیا ہیں؟
بائیس برس ہوتے ہیں، شعبان کی آخری شام تھی۔ مصوّر، مقرر، نثر نگار اور سیاست کار محمد حنیف رامے مرحوم سے عرض کیا: اگر آپ گوارا کریں تو آپ سے آپ کے بارے میں بات کی جائے؟ وہ کون سے عوامل تھے کہ کامیاب و کامران ہو کر بھی حقیقی اطمینان حاصل نہ ہو سکا؟ ان کے الفاظ تو یہ نہ تھے مگر مفہوم یہی: کیسے بے رحم آدمی ہو، اس رسان سے اتنا سنگین سوال کرتے ہو؟ ازراہِ کرم آمادہ ہو ئے مگر جذبات سے لرزتی آواز اور جو کچھ ارشاد کیا، اس کاخلاصہ یہ تھا۔
اسے ڈھونڈتے میرؔ خود کھو گئے
کوئی دیکھے اس جستجو کی طرف
بولے: غور و فکر توبہت کیا۔ ساری دنیا کا ادب پڑھ ڈالا مگر یکسوئی نہ ہوسکی۔ اشفاق احمد کی طرح ان کا مسئلہ بھی یہ تھاکہ جب للک جاگتی تو کوئی بابا تلاش کرتے۔ نیک خصلت، صداقت شعار، محوِ عبادت لوگ۔ مٹی کے دئیے، جو کچھ دیر، کچھ دور تک اجالا کرتے ہیں۔
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے۔ آخر کو مگر ادراک ہوا سب آدم زاد بعض اعتبار سے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دیوتا کوئی نہیں۔ مردِ کامل کہانیوں میں ہوتے ہیں، زندگی میں ہرگز نہیں۔ ہاں، وہ ایک استثنائی عہد تھا، جب آفتاب مدینہ کے آسمان پہ چمکتا رہا۔
کافی نہیں ہوتا۔ مشاہدہ کافی نہیں ہوتا۔ خود کو ایک سانچے میں ڈھالنا تھا، وہ قیمتی وقت صحافت اور سیاست کی نذر ہو گیا۔ اس منفرد اور قادر الکلام شاعر افتخار عارف کا شعر یہ ہے: اک چھوٹی موٹی لہر ہی تھی میرے اندر۔ اس لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں؟ بہت سا قیمتی وقت حیاتِ اجتماعی کے تیور سنوارنے کی آرزو میں بربا دکیا۔ خو د کو دیکھنا چاہئیے تھا، خود کو۔ اپنے آپ سے ملاقات کی ہوتی۔ خود سے بات کی ہوتی۔ دکھ دینے والا ملال زندگی سے رخصت ہوا اور مایوسی بھی۔
جس شام کپتان سے تلخی ہوئی، اپنے دل کو ٹٹولا تو اللہ کا شکر اداکیا کہ کوئی زخم نہیں۔ کوئی غم، ہرگز کوئی افسردگی نہیں۔ یہی غنیمت ہے کہ سچائی کا ادراک ہونے لگا۔ درویش منش طالبِ علم لیڈر بارک اللہ خاں کہا کرتے: زندگی میں کوئی کامیابی کامیابی نہیں اور کوئی ناکامی ناکامی نہیں۔ بس یہ ہے کہ آپ نے اس سے سیکھا کیا۔ سادہ سے آدمی مگر دلاور ایسے کہ ایوب خاں کی حکومت خطرے میں ڈال دی تھی۔ اس کے باوجود زعم کبھی چھو کر نہ گزرا تھا۔ خود پہ کبھی ناز نہ کیا۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ایک عام آدمی کی زندگی جیے۔
الحمد للہ کہ فکر و خیال کی بزم روشن ہے۔ ایک سبق اچھی طرح سے پڑھ لیا ہے کہ محض سیاست سے قوم کا بھلا ہو سکتاہے اور نہ اپنا۔ زندگی مچھلیاں پکڑنے کی مہم نہیں کہ لہروں تلے ڈھونڈلی جائیں۔ موتی گہرائی میں ہوتے ہیں۔۔ اور قلب و جان میں دعا کی پکار چاہئے۔
بوند ہوں کامِ صدف تک مجھے پہنچا دینا
شورشِ موج میں خود میری حفاظت کرنا
دل کو دریوزہ کثرت میں نہ الجھا دینا
مجھ کو ہر حال میں تنہا تو کفایت کرنا
حق نہیں ہے نہ سہی، تیری سخاوت کے حضور
ہے مرا کام تمنّا کی جسارت کرنا
(قند مکرر)