دفاع اور معیشت
خان صاحب کو سوچنا ہوگاورنہ دوسروں کی طرح وہ بھی رزقِ خاک ہو جائیں گے۔ دوسرے قہرمانوں کی طرح، نامراد۔
اس خطے کی ہر معیشت ہم پہ بازی لے گئی۔ بھارتی روپیہ کبھی ہم سے آدھا تھا، دو گنا ہو چکا، حتیٰ کہ بنگلہ دیشی ٹکا بھی۔ ڈھاکہ میں زرِ مبادلہ کے ذخائر ہم سے دو گنا ہیں۔ بھارتی معیشت نو گنا بڑی۔ کرونا سے مغربی معیشت برباد ہوئی تو بھارتی ماہرین چیخے کہ سرمایہ کاری اب وہاں سے نہیں ہوگی۔ شتابی سے نریندر مودی نے یوٹرن لیا اور چینی سرمایہ کار کمپنیوں پر عائد پابندی ختم کر دی۔ نظم و ضبط کے طفیل، تیزی سے جس نے وائرس پر قابو پا لیاتھا۔
پاکستان وہی ملک ہے، 1960ء کے عشرے میں خوب جو پھل پھول رہا تھا۔ پیش گوئی یہ تھی کہ کیلیفورنیا کے بعد یہ دنیا میں سب سے زیادہ فروغ پائے گا۔ شرح ترقی سات آٹھ فیصد تھی۔ نئے بیجوں سے زرعی انقلاب رونما ہوا۔ ڈیم بنے اور جدید صنعت کاری کا آغاز ہوا۔ 1981ء میں پاکستان کی فی کس آمدن380ڈالر، بھارت کی 280اور چین کی 180ڈالر تھی۔
پھر ملائیشیا اور ترکی کی معیشت قلانچیں بھرنے لگی۔ ملائیشیا کے پاس ربڑ اور پام آئل کے سوا کیا تھا؟ سرمایہ چینیوں کے پاس۔ عام آبادی افلاس سے بلک رہی تھی۔ ترکی کو یورپ کا مردِ بیمار کہا جاتا۔
ہمارے ساتھ یہ ہوا کہ اپنی تمام توانائیاں ہم نے باہمی جنگ میں لٹا دیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار جزوی استثنا ہیں۔ پوری رفتار سے صنعت کاری تب بھی ہو نہ سکی۔ معیشت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا گیا۔ کرپشن کا طوفان، سول سروس کا بگاڑ، پولیس اور عدلیہ کو گھن کھاتا رہا۔ صنعتوں کو بھٹو نے قومیا کر برباد کر ڈالا۔ بعد والے بھی نجکاری کی جرات نہ کر سکے۔ قومیا نے سے جو خوف پھوٹا، آج بھی اس کے اثرات ہیں۔ دولت کی بیرونِ ملک منتقلی اب بھی جاری ہے۔ اب تک یہ عمل جاری ہے۔ 200ارب ڈالر پاکستانیوں کے بیرونِ ملک پڑے ہیں۔ شاید اس سے بھی زیادہ۔ صرف ایک بڑے پراپرٹی ڈیلر نے دو عشرے میں آٹھ بلین ڈالر سمندر پار بھیجے۔ زرداری اور شریف خاندان کے قصے سبھی کو ازبر ہیں۔
دولت ہی فرار ہو جائے تو صنعت کاری کیسی، معیشت کی جو اصل اور جڑ ہے۔ جس کے بغیر جدید اقتصادیات سے ہم آہنگی کا سوال ہی نہیں۔ ملازمتیں کیسے پیدا ہوں۔ بھوک اور بے روزگاری کا خاتمہ کیسے ممکن ہو۔ بجلی کے کارخانوں اور دوسرے منصوبوں سے بھٹو، شریف اور زرداری خاندانوں نے ڈٹ کر پیسہ کمایا۔ سرکاری افسروں نے بھی کوئی کسر چھوڑی نہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں جو بیرونی شہریت حاصل کر چکے۔
عسکری اعتبار سے پاکستان ایک بڑی قوت ہے۔ بے مثال ایٹمی اور میزائل پروگرام۔ ہمارا ٹینک بھارتی ٹینک سے بہتر ہے۔ ایسے لڑاکا طیارے ہم نے بنائے ہیں کہ دنیا میں دھوم مچی ہے۔ کم از کم تیسری دنیا کا کوئی ملک یہ کارنامہ انجام نہ دے سکا۔ اس کے سوا بھی بہت ایجادات۔ پاکستانی فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہے۔ کسی بھی خطے میں خرابی ہو، اقوامِ متحدہ پاکستانی دستوں کو ترجیح دیتی ہے، ہمیشہ جن کی کارکردگی، دوسروں سے بہتر اور برتررہی۔
سائنسدانوں کی بہترین ٹیم ہمیں اللہ نے عطا کی ہے۔ ساری دنیا ہمارے تعاقب میں تھی، بدترین رکاوٹوں کے باوجود اپنے دفاعی منصوبے خوبی سے ہم نے تکمیل کو پہنچائے۔ ایک بار ایک ممتاز پاکستانی سائنسدان سے پوچھا:کیا آپ دس ہزار کلومیٹر تک رسائی رکھنے والا میزائل بنا سکتے ہیں؟ ان کا جواب یہ تھا: سائنسی نہیں، یہ انتظامی فیصلہ ہے۔ وسائل فراہم کر دیجیے اور کل ہمیں اجازت دے دیجیے، بہت مختصر عرصے میں ہدف ہم حاصل کر لیں گے۔ بھارتی سائنسدان عبدالکلام کا چرچا بہت ہے۔ انہیں بھارتی میزائل پروگرام کا باپ کہا جاتاہے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ ہندوستانی سائنسدانوں کو ٹھوس ایندھن بنانے میں پانچ برس لگے۔ اس کے برعکس ٹھوس ایندھن والا میزائل لانچنگ پیڈ پر لگانے میں ہمارے سائنسدانوں نے فقط سوا دو سال صرف کیے۔
اللہ انہیں برکت دے، ربع صدی ہونے کو آئی، جنرل عبد الوحید کاکڑ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے پاس پہنچے تو ڈاکٹر صاحب بولے: میں نے تو میزائل کبھی دیکھا تک نہیں۔ مدبر اور محتاط جنرل نے کہا: آپ کی ٹیم بہت اچھی ہے۔ انشاء اللہ آپ کامیاب رہیں گے۔ پھر میزائل سازی کے سلسلے کا آغاز ہوا، دنیا جسے حیرت سے دیکھتی ہے۔ پاکستانی میزائل پروگرام بھارت کا ہم پلہ ہے۔ بھارتی کولڈ ڈاکٹرائن کا مقصد، تیز رفتاری سے حملہ کر کے پاکستان کے ایک علاقے پر قبضہ جمانا تھا۔ تاکہ پاک افواج کی ہمت توڑ دی جائے۔ پندرہ بیس برس سے بھارت یلغار کے خواب دیکھتا ہے۔ اس لیے یہ خواب متشکل نہ ہو سکا کہ اول پاکستانی فوج ہمیشہ چوکس رہی۔ جہاں کہیں قدم آگے بڑھایا، منہ کی کھانا پڑی۔ دو اڑھائی برس ہوتے ہیں، آزاد کشمیر کی سرحد پہ جنرل بلال اکبر نے بھارتی چیف جنرل بپن راوت کو پیغام بھیجا: بھاگ جاؤ ورنہ اڑاکے رکھ دیں گے۔ وہ بھاگ نکلا۔ اسلحے میں ہم پیچھے نہیں۔ فلسفہء شہادت ہمارے سپاہی کے رگ و ریشے میں ہے۔ میدان جنگ میں اسی سے معجزے رقم ہو تے ہیں۔ سرخ لہو سے لکھی کہانیاں ابد الآباد تک باقی رہتی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف ایسی جنگ ہم نے جیتی کہ سارا عالم حیرت میں ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں ستارہء جرات حاصل کرنے والے میجر نادر پرویز سے پوچھا: کیاآپ نے خود سے بہادر کوئی سپاہی دیکھا ہے؟ وجیہ آدمی کی آنکھیں بھر آئیں اور کہا: ایک نہیں، بہت سے۔ پھر ایک دوست کا ذکر کیا، تین دن حالتِ جنگ میں جو سویا نہ تھا۔ آرام کے لیے ساتھیوں نے اصرار کیا تو بولا: There Will be enough time to sleep in grave قبر میں سونے کو بہت وقت ہوگا۔ اپنی جان کا سودا وہ کر چکا تھا۔ پاک فوج پر ڈھنگ کی ایک کتاب لکھ دی جائے تو عسکری سائنس کے ماہرین کو ورطہء حیرت میں ڈال دے۔
ایسے اور اتنے کارنامے سرانجام دینے والا ملک اپنی معیشت کیوں سنوار نہیں سکتا؟ اس لیے کہ ہم افراد کا مجموعہ ہیں، قوم نہیں۔ اس لیے کہ یہ کبھی کسی حکومت کی ترجیح نہ تھی۔ کچھ بہتری آئی بھی تو فوجی زمانوں میں، حالانکہ معیشت ہمیشہ جمہوری نظام اور سول اداروں کے ذریعے نمو پایا کرتی ہے۔ نئی حکومت کا حال اور بھی پتلا ہے۔ احتساب بجا مگر یہ واحد ایجنڈا نہیں ہو سکتا۔ حکومت کا وظیفہ کیا ہے؟ ملک کا دفاع، افتادگانِ خاک کی بہبود، نظامِ عدل کی تشکیل، ٹیکس وصولی اور استحکام کہ معیشت، تعلیم اور صحت فروغ پائیں۔ معیشت کے باب میں بے نیازی کا یہی عالم رہا تو اندیشہ ہے کہ آخر کار وہ دفاع کا بوجھ نہ اٹھا سکے۔
ایک جنون سا خان صاحب پہ سوار رہتاہے کہ مخالفین کو دفن کر ڈالیں۔ خود ان کی اپنی صفوں میں بھی اتنے ہی کرپٹ لوگ موجود ہیں۔ فرد یا قوم، انتقام کوئی ایجنڈا نہیں۔ جوحریفوں کو پامال کرنے کے آرزومند ہوں، وہ زندگی نہیں جیتے۔ خود جلتے اور دوسروں کو جلاتے ہیں۔ صحت مند معاشرے وہ تعمیر نہیں کر سکتے۔
خان صاحب کو سوچنا ہوگاورنہ دوسروں کی طرح وہ بھی رزقِ خاک ہو جائیں گے۔ دوسرے قہرمانوں کی طرح، نامراد۔