ڈسکہ میں کیا ہوا؟
سانحہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خود کو رسوا کر رہی ہیں۔ ہیجان میں مبتلا، کمزور سے کمزور تر اور اسٹیبلشمنٹ مضبوط تر۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
ڈسکہ کے الیکشن میں اصل سوال دھاندلی کا نہیں بلکہ فریقین کا اخلاقی افلاس۔ میڈیا بھی کنفیوژن پھیلانے کا ذریعہ بنا، حقائق واضح نہ کر سکا۔ کئی معتبر اخبار نویس بھی جذبات کا شکار ہو ئے۔ ہمیشہ تعجب رہا کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ہاتھ میں کون سا ہنر ہے کہ جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور پھر کپتان کے لیے بھی قابلِ قبول ٹھہریں۔
اس حلقے میں ایک صاحب ہیں، پیر مدنی۔ ذرائع ابلاغ میں ان کا ذکر کبھی نہ ہوا۔ علاقے میں ان کا احترام ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی تھے مگر 2018ء میں نظر انداز ہوئے۔ اپنے ایک عزیز عثمان عابد کو آزاد امیدوار کے طور پر کھڑا کر دیا۔ 57000ووٹ حاصل کیے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار نے 61000اور نون لیگ کے جیتنے والے امیدوار کو ایک لاکھ ایک ہزار کی تائید حاصل تھی۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو ان سے نیاز حاصل ہے۔ اب ادراک ہوا کہ وہ ایک محنتی اور سخت جان خاتون ہیں۔ اس نواح کے نشیب و فراز کو خوب پہچانتی ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی داخل ہو چکے تومودبانہ پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ پی ٹی آئی کی حمایت پرکسی نہ کسی طرح انہیں آمادہ کر لیا؛چنانچہ عثمان عابد دستبردار۔ گمان اغلب یہ کہ آئندہ کے لیے ان کی اہمیت مان لی گئی۔ انتخابی مہم میں پی ٹی آئی کا انہوں نے ہاتھ بٹایا۔
ریاضی کا ایک سادہ سا سوال یہ ہے کہ 61000اور 57000 کتنے ہوتے ہیں؟ 118000۔ ضمنی الیکشن میں برسرِ اقتدار پارٹی کے لیے ماحول زیادہ سازگار ہوتا ہے۔ اس لیے کہ با رسوخ لوگوں کی اکثریت ترقیاتی منصوبوں پہ نظر رکھتی ہے کہ معتبر ٹھہریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وسطی پنجاب میں بحیثیت مجموعی نون لیگ کو برتری حاصل ہے۔ آخری تجزیے میں سیاست مگر ایک مقامی چیز ہے۔ اہم لوگوں کی اکثریت اپنا وزن جس پلڑے میں ڈال دے، وہی بھاری۔ تہہ در تہہ پاکستانی معاشرہ سفارش اور رسوخ کا معاشرہ ہے۔ پولیس، پٹوار اور دوسرے سرکاری دفاتر میں ہر حاجت مند کو آئے دن سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔
سوا دو سالہ اقتدار میں خان صاحب نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ بے روزگاری اور گرانی بڑھی ہے۔ کرونا کی وبا نے صورتِ حال کو اور بھی گھمبیر کر دیا۔ خلقِ خدا مگر آئے دن تبدیلیوں کے حق میں نہیں۔ 1990ء کے رائیگاں عشرے سے عام آدمی نے یہ سیکھا کہ فقط حکمران کی تبدیلی سے دن نہیں پھرتے۔
میڈیا انتخابی عمل کا اہتمام سے جائزہ نہیں لیتا۔ خاص طور پر دیہی حلقوں میں۔ پیر مدنی کی حمایت کے بعد نون لیگ کی برتری تمام ہو چکی تھی۔ اب یہ ایک سخت مقابلہ تھا۔ تحریکِ انصاف فتح حاصل کرنے پر تلی تھی۔ اس نے ایک بھرپور اور منظم مہم برپا کی۔ نون لیگ نے بھی ہرگز کسی کوتاہی کا ارتکاب نہ کیا۔ ہاں مگر وہ مقتدر تو نہیں کہ عملاً سرپرستی فرما سکیں۔ مرحومہ کلثوم نواز کے الیکشن میں پنجاب اور مرکزی حکومت نے تین ارب روپے ڈال دیے تھے۔ ڈسکہ میں مریم نواز نے حامیوں کا لہو گرمانے کی کوشش کی۔ عام جلسوں کے ا ثرات مگر محدود ہوتے ہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کارزار میں نہ تھے کہ انتخابی عمل کے شناوروں کو بروئے کار لاتے۔ بلند آہنگ خواجہ آصف بھی تو نہیں۔
اخبار نویس کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ جانبدار اور غیر جانبدار۔ ایک چیز ہوتی ہے، جسے Willingness to believe کہا جاتاہے۔ اپنی پسند کی اطلاع پر یقین کرنے کی آمادگی۔ پسندیدہ آدمی کے لیے ہر اچھی اطلاع ماننے کو تیار اور ناپسندیدہ کے باب میں بری بات کو قبول کرنے پہ تلے ہوئے۔
ایک وڈیو منظرِ عام پر آئی۔ بعض لوگ کچھ پریذائیڈنگ افسروں سے بات کرتے ہوئے۔ ایک سرکاری ادارے کا نام لے کر گڑ بڑ پہ آمادہ کرتے ہوئے۔ پولنگ ختم ہونے کے بعد یہ وڈیو جاری کی گئی۔ بعض ممتاز اخبار نویسوں نے اسے اپنا لیا۔ بعد میں شواہد سے معلوم ہوا کہ یہ تواڑھائی بجے کا عمل تھا۔ یہ لوگ کون تھے اور کیا چاہتے تھے؟ شاید یہ الیکشن کمیشن کی تحقیقات سے واضح ہو۔
آزاد اخبار نویسوں کا کہنا یہ ہے کہ رات دس بجے پی ٹی آئی کو پانچ ہزار کی برتری حاصل تھی۔ بتدریج جو بڑھتی گئی۔ یہ قابلِ فہم ہے۔ اس لیے کہ منسلک وزیرِ آباد میں بھی، جہاں پیر مدنی ایسی معتبر شخصیت موجود نہ تھی، ، جہاں نیک نام چیمہ خاندان کے خوش اخلاق نثار چیمہ سرگرمِ عمل تھے، نون لیگ کی برتری معمولی ہی رہی۔ ضمنی انتخابات میں حکومت کے لیے بارسوخ لوگوں پہ اثر انداز ہونا سہل ہوتاہے۔
دونوں طرف سے پروپیگنڈے کا طوفاں اٹھایا گیا۔ کہا جاتاہے کہ میڈیا کو کپتان نے سرنگوں کر دیا ہے۔ واقعی ایسا ہے۔ نون لیگ کا رسوخ مگر اب بھی زیادہ ہے۔ خاص طور پر اہم اخبار نویسوں میں۔ عشروں تک ا نہوں نے اداروں اور افراد کی سرپرستی کی۔ دوسری طرف عمران خان میڈیا سے نفرت کرتے ہیں۔ اپنے فدائین کو وہ بتاتے رہتے ہیں کہ اخبار نویس بلیک میلر ہوتے ہیں۔ خال ہی اب کسی ممتاز اخبار نویس سے ان کے ذاتی مراسم باقی ہیں۔ دباؤ ڈال کر وہ ہموار کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ مسلسل اور متواتر ان کے حامی آزاد اخبار نویسوں کی کردارکشی کرتے رہتے ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ بلدیاتی یا اسمبلیوں کے آئندہ الیکشن میں انہیں اس کی قیمت چکانا ہوگی۔
یہ نہیں کہ تحریکِ انصاف والے اجلے اور شفاف ہیں۔ اول تو ہر قماش کے لوگ اب اس پارٹی میں شامل ہو چکے۔ باقی ماندہ بھی شخصیت اور ہیجان کے مارے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بات دوسری ہے، جہاں تک مرکزی دھارے کا تعلق ہے، صحافت کو نون لیگ برتنا جانتی ہے۔ مریم نواز پراپیگنڈے کے اس معرکے میں ذاتی طور پر پیش پیش تھیں۔ پھر احسن اقبال اور رانا ثناء اللہ ایسے جہاندیدہ لیڈر۔ کچھ خواتین ارکانِ اسمبلی بھی۔ اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی فتح کا اعلان کر دیا جائے۔ اس قدر ڈنکا پیٹا جائے کہ پی ٹی آئی ظفرمند بھی ہو تو اس کی فتح مشکوک ٹھہرے۔ مریم نواز نے اعلان کیا کہ نون لیگ کا امیدوار 157000ووٹ لے چکا۔
سب سے زیادہ کنفیوژن 20پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کی گمشدگی سے پیدا ہوا۔ ریٹرننگ افسر کے دفتر میں بہت تاخیر سے پہنچے۔ پی ٹی آئی کے موقف کو اکثریت نے شک کی نظر سے دیکھا کہ گہری دھند کی وجہ سے ہوا۔ دھند کیا نہیں تھی؟ پیچیدگی اس میں کیا ہے؟ الیکشن کمیشن کو اس نواح کے لوگوں سے پوچھنا چاہئے۔
محترمہ مریم نواز کا مطالبہ ہے کہ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ ہو۔ پھر سے الیکشن ہوا تو نون لیگ کے ووٹ شاید اور بھی کم ہو جائیں۔ اس کے باوجود انہیں اس پہ اصرار کیوں ہے؟ غالباً اس لیے کہ حریف کوپیہم دباؤ میں رکھا جائے۔ پروپیگنڈے کے محاذ پر اسے پسپا کیا جائے۔
سانحہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں خود کو رسوا کر رہی ہیں۔ ہیجان میں مبتلا، کمزور سے کمزور تر اور اسٹیبلشمنٹ مضبوط تر۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا