بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
اکستان کو تنہا کرنے والا بھارت افغانستان میں تنہا رہ گیا۔ مواقع ایک بار پھر ارزاں ہیں لیکن جیسا کہ سرکارؐ نے فرمایا تھا: زندگی ایسی ایک سواری ہے کہ آدمی اس پر سوار نہ ہو تو آدمی پر وہ سوار ہو جاتی ہے۔ مثبت اور سائنسی اندازِ فکر، پہل کاری، قوانینِ قدرت کا ادراک، ریاضت اور یکسوئی۔ قائداعظم نے کہا تھا: ایمان، اتحاد اور تنظیم!
عامر خاکوانی نے پاکستانیوں کو کاغذ کی قوم کہا۔ عمل پسندی سے محروم، کاغذ کالے کرنے اور باتیں بنانے والی۔ جی ہاں، جذباتی مگر بنیادی خرابی شاید یہ ہے کہ یکسوئی ہمیں کبھی نصیب نہیں ہو سکی۔
قطعی الفاظ میں قائدِ اعظم نے کہا تھا: پاکستان میں پاپائیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی، مذہبی طبقات کی حکمرانی۔ یہ تاثر دینے والے ایک ہندوستانی اخبار نویس کو انہوں نے ڈانٹ دیا تھا۔ اسی طرح کمیونسٹوں کو انہوں نے ففتھ کالمنسٹ کہا تھا، قوم سے انحراف کرنے والے اجنبی۔ عمر بھر ایک بار بھی سیکولر ازم کا لفظ انہوں نے برتا نہیں۔ یہ نہرو کا نعرہ تھا: سوشلزم، سیکولرازم اور جمہوریت۔ اقبالؔ کے ہاں بھی یہ اصطلاح نہیں پائی جاتی۔ ادھر دانشوروں کی ایک بھیڑ ہے، جو قائدِ اعظم کی ایک تقریر کو لیے بیٹھی ہے، انہیں سیکولر ثابت کرنے پر تلی رہتی ہے۔ 11ستمبر 1948ء کی تقریر۔
منیر احمد منیر، ڈاکٹر صفدر محمود اور تحریکِ پاکستان پہ تحقیق کرنے والے دوسرے اہلِ قلم نے معاملہ الم نشرح کر دیا۔ قائدِ اعظم کی 101تقاریر میں اسلامی نظام پہ زور ہے۔ آپ نے قرآن کو پاکستان کا دستور کہا۔ میثاقِ مدینہ سے منیر احمد منیر نے قائدِ اعظم کی اس مشہور تقریر کا موازنہ کیا۔ ثابت کیا کہ مسلمانوں کے ریاستی نظم و نسق میں اقلیتوں کے حقوق بالکل اکثریت جتنے۔ کچھ زیادہ تفصیل منیر صاحب بیان کرتے تو پی ایچ ڈی کا شاندار مقالہ ہو جاتا۔ قائدِ اعظم پر اتنا مواد انہوں نے جمع کر دیا ہے کہ عہدِ آئندہ کا مؤرخ اور آنے والی نسلیں حیرت کریں گی۔ ایسے ہی آدمی کو فرد کی بجائے ادارہ کہا جاتاہے۔
1946ء کے انتخابات میں 75۔ 6فیصد ووٹ لینے والے قائدِ اعظم کیا چاہتے تھے؟ کیسی ریاست؟ اس سوال کا جواب یہ ہے: ایک جدید اسلامی فلاحی ریاست۔ اقبالؔ اور قائدِ اعظم کی خط و کتابت پر مشتمل جناب محمود علی کی مرتب کردہ کتاب میں نکتہ آشکار ہے:ایک اسلامی فلاحی ریاست۔ سوانح نگاری ایک مشکل صنف ہے۔ کوئی قلمکار کسی تاریخ ساز شخصیت کا پوری طرح احاطہ نہیں کر سکتا۔ کچھ پہلو اجاگر ہوتے ہیں تو کچھ دوسرے نظر انداز۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی داستان آغا شورش کاشمیری نے لکھی، ایک چھوٹی سی کتاب۔ ایک ہی نشست میں شاہ جی نے پڑھ ڈالی۔ پھر کہا:شورش ہی شورش ہے، اس کتاب میں عطاء اللہ کہاں ہے؟
قائدِ اعظم کی بھی مکمل سوانح عمری کوئی نہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں آپ کو انہماک تھا۔ اتنی سی بات کہہ کر لوگ گزر جاتے ہیں کہ ان کی دیانت شک و شبہ سے بالا تھی۔ دیانت دار توبہت ہوتے ہیں، قائدِ اعظم ایک خالص آدمی تھے۔ کبھی جھوٹ نہ بولا، کبھی وعدہ نہ توڑا۔ خیانت کا خیال بھی سر میں داخل نہ ہو سکتا۔ وقت ضائع نہ کرتے، غیبت سے گریز تھا۔ زندگی میں ترتیب بہت، لباس ا چھا، سواری شاندار، تن من اجلا۔ اوقات نظم کے سانچے میں ڈھلے۔ ہماری خرابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ماضی میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ جب ہم دنیا پہ حکمران تھے۔ ایک اعتبار سے عظمتِ رفتہ کی آرزو اور دوسری طرف فرار کا رویہ۔ عصرِ نو کا چیلنج ہم قبول نہیں کرتے۔
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
جدید صنعتی اور کاروباری ادارے قائم کرنے کے لیے قائدِ اعظم متحرک ہی نہیں، پرجوش تھے۔ اخبار، انشورنس کمپنیاں اور ائیر لائن۔ بہت جلد سٹیٹ بینک آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ یہ بھی کہا کہ کمیونزم اور سرمایہ داری نہیں، دنیا کو ایک تیسرا نظام درکار ہے، اسلامی معاشی نظام۔ سب سے اہم بات اس موقع پر یہ کہی کہ تحقیق کا ڈول ڈالنا ہوگا۔ ریاضت کرنی ہوگی، خون پسینہ ایک کرنا ہوگا۔ یہی وہ کام ہے، جو ہم کرنانہیں چاہتے۔ ہم مغلوں کے وارث، ہم خوابوں کی دنیا کے اسیر۔ ہم دنیا کی سب سے زیادہ سہولت پسند قوموں میں سے ایک۔ ہم نہیں جانتے کہ نعمت کمائی جاتی ہے۔ ریاضت کی تمنا بجائے خود ایک عظیم انعام ہے۔ ع
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
یہ ملوکیت اور جاگیرداری ہے جو سہل کوشی اور انحصار کی روش پیداکرتی ہے، جو سرپرستی کی تمنا پالتی ہے۔ صبح دم لندن یا نیویارک کی گلیوں میں بابو اور کارکن، ڈاکٹر، انجینئر اور سرکاری افسر تیز تیز چلتے نظر آتے ہیں۔ اپنے دفاتر اور کارخانوں میں پہنچنے کے لیے بے تاب۔ ایک پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی، افغان اور ایرانی کے مقابلے میں دو گنا تیز رفتار سے۔ ان کی اوسط کارکردگی شاید دو گنا سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بنی اسرائیل کی طرح ہم یہ چاہتے ہیں کہ موسیٰ ؑ لڑے اور اس کا رب۔
اگر کچھ کرنا ہے تو ہمارے حکمران کریں۔ ارے بھائی، حکمران اسی معاشرے سے اٹھے ہیں۔ افسر شاہی، سیاستدان اور کاروباری طبقات بھی۔ اپنے لیے کچھ زیادہ خواب دیکھنے والے مگر ان کا اندازِ فکر وہی ہے، باقی معاشرے جیسا۔ قوموں کی نفسیات صدیوں میں ڈھلتی اور آسانی سے بدلتی نہیں۔ ہم بدلیں بھی کیسے؟ تبدیلی کے لیے نعروں کی نہیں، شعوری کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ الفاظ نہیں، عمل کی۔
تبلیغی جماعت والے ایک بات ٹھیک کہتے ہیں: قال سے قال اور حال سے حال پیدا ہوتاہے۔ یعنی اظہار سے اظہار جنم لے گا اور عمل سے عمل۔ لیڈر وہ ہوتاہے، جو اپنے کردار سے رہنمائی کرتا ہے۔ اورنگزیب عالمگیر اور صلاح الدین ایوبی سرکاری خزانے سے کبھی کچھ نہ لیتے تھے۔ اصحابِ رسولؐ اور جناب عمر بن عبد العزیزؒ کی پیروی میں قائدِ اعظم کا طریق دوسرا تھا۔ اپنی ذات پہ کم از کم اخراجات۔ عمر بھر شب خوابی کا قیمتی لباس پہنا تھا۔ گورنر جنرل ہوئے تو کھدر کا ملبوس سلوایا۔
بدھ کی سویر ایک ٹویٹ کیا "ایسی کروٹ حالات نے بدلی کہ افغانستان میں بھارت پٹ گیا۔ چین اور روس ہی نہیں، امریکہ بھی پاکستان کو بنیادی کردار سونپنے پر آمادہ ہے، قیامِ امن کے لیے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہوش مندی کا مظاہرہ کریں۔" اس پر ایک صاحب نے اظہارِ مسرت کیا " وہ وقت آگیا، جب پاکستان کی ہاں اور ناں میں فیصلے ہوں گے۔"وہ وقت کبھی نہیں آئے گا، جب تک کہ ہم اپنا اندازِ فکر نہ بدلیں۔ باتیں بنانے کی بجائے عمل کی شہادت رقم نہ کریں۔ فلسفی نے کہا تھا: انسانی کردار بھی کپڑے کی طرح ہوتاہے۔ ایک ایک دھاگا ڈال کر بنا جاتاہے۔ اقوام کی عظمت کا سفر بھی اسی طرح طے ہوتاہے۔ زینہ زینہ، رفتہ رفتہ، بتدریج۔ پہاڑ کی چوٹی سرکرنا ہوتی ہے!انگریزی میں کہتےہیں Himalayan Task۔
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
پاکستان کو تنہا کرنے والا بھارت افغانستان میں تنہا رہ گیا۔ مواقع ایک بار پھر ارزاں ہیں لیکن جیسا کہ سرکارؐ نے فرمایا تھا: زندگی ایسی ایک سواری ہے کہ تم اس پر سوار نہ ہو گے تو وہ تم پر سوار ہو جائے گی۔ مثبت اور سائنسی اندازِ فکر، پہل کاری، قوانینِ قدرت کا ادراک، ریاضت اور یکسوئی۔ قائداعظم نے کہا تھا: ایمان، اتحاد اور تنظیم!