ایک سلگتی روح (2)
اگرچہ ایسا کوئی حادثہ نہ ہوا لیکن ایک دن اچانک واران بس سروس بند ہو گئی۔ بینک سے قرضے کی ایک شق یہ ہوا کرتی ہے کہ جب وہ چاہے، پوری کی پوری رقم طلب کر سکتا ہے۔ اس بینک کو جو فوجی انتظام و انصرام کے تحت کام کرتاہے، حکم دیا گیا اور اس نے قرض طلب کر لیا۔ اچانک اتنی بڑی رقم کہاں سے ادا کی جاتی؛چنانچہ جائیدادبکنے لگی۔ یوسف صاحب کی، ان کے بھائی اور شاید جنرل صاحب کی بھی۔ آئے دن مقدمات قائم ہونے لگے۔ قدم قدم پر پولیس والے رکاوٹیں کھڑی کرنے لگے۔
کاروبار کا میاں بیوی تجربہ رکھتے تھے۔ شائستگی اور حسنِ انتظام کے وہ خوگر تھے۔ اس کے باوجود آئے دن ایک کے بعد دوسرا مسئلہ؛چنانچہ بس سروس تمام کرنے کا فیصلہ کیا گیااور ظاہر ہے کہ بسیں فروخت کر ڈالنے کا۔ عام طور پر باور کیا جاتاہے کہ پرویز مشرف منتقم مزاج آدمی نہ تھے۔ اپنے سابق باس جنرل حمید گل کے باب میں ان کا رویہ مختلف ثابت ہوا۔ بسوں کا کوئی بھی خریدار واران بس سروس کے صدر دفتر کا رخ کرتا تو خفیہ ایجنسی کے اہلکار تعاقب کرتے۔ تعاقب اور تنبیہ کہ اس معاملے سے وہ دور رہے۔ زخم کریدنے کی کبھی کوشش نہیں کی لیکن یہ تو ظاہر ہے کہ کروڑوں کا خسارہ ہوا۔ عشروں کی کمائی دیکھتے ہی دیکھتے لٹ گئی۔
حاسدینِ کرام نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ یاد آتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر بھی آدمی گر سکتے ہیں۔ جنیدِ بغدادؒکا وہ جملہ بھی "یہ کاروبارِ دنیا ہے، ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ "
انہی دنوں ایک ہنگامہ ملک میں برپا ہوا۔ مغرب کے کسی ملک میں رحمتہ اللعالمینﷺ کی شان میں گستاخی کا سانحہ ہوا۔ ملک بھر میں احتجاجی جلوس پھوٹ پڑے۔ ملٹری انٹیلی جنس کے ایک افسر نے خاموشی سے خاندان کو اطلاع دی کہ شیخ صاحب نے اپنے چند کارکنوں کو زمرد خان کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے جلوس میں شامل کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ مری روڈ پر جو واران کے ڈپو میں کھڑی درجنوں بسوں پر پٹرول بم پھینکیں گے۔
تفصیل معلوم ہوئی تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔ جنرل صاحب سے کہا کہ وہ حکومت سے بات کریں۔ کسی طرح وہ آمادہ نہ تھے۔ بہت اصرار کے بعد انہیں قائل کیا۔ جنرل مشرف کے وزیرِ داخلہ آفتاب شیر پاؤ سے انہوں نے رابطہ کیا۔ احتجاج تو کیا، ایک آدھ جملہ کہہ کر ٹیلی فون بند کر دیا۔ ازراہِ احتیاط عمران خان، قاضی حسین احمد، ڈاکٹر شعیب سڈل اور اخبار نویس دوستوں کو ناچیز نے مطلع کر دیا۔
محترمہ عظمیٰ گل سے میں نے کہا: اپنے ادارے کے ایک دو آدمی اگر وہ ساتھ کر دیں تو میں خود اس ڈپو کے سامنے کھڑا رہوں گا۔ عمر بھر وہ شام میری یادوں میں محفوظ رہے گی۔ کچھ اور تفصیلات بھی ہیں۔ زندگی نے اگر اپنے مشاہدات رقم کرنے کی مہلت دی تو عرض کروں گا۔
فتنوں کا زمانہ جاری تھا اور آئے دن ہنگامے جاری رہتے کہ زندگی اسی کا نام ہے۔
بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایّام ہیں
اسی طوفانی یلغار میں جنرل حمیدگل کے خاندان، خاص طور پر عظمیٰ گل کی شخصیت کھلتی چلی گئی۔
2005ء کا زلزلہ آیا تو خاندان کے چھوٹے بڑے مصیبت زدگان کی مدد میں جت گئے۔ واران بس سروس کا مرکزی دفتر ایک سٹور کی شکل اختیار کر گیا۔ انہی دنوں کا ایک واقعہ یاد آیا۔ پختون خوا کے ایک پہاڑی مقام سے بارش اور برف باری کا سلسلہ جہاں جاری تھا، ایک بوڑھا آدمی جنرل حمید گل کو ڈھونڈتا ہوا آیا۔ محترمہ عظمیٰ گل نے فون کیا: سینکڑوں آدمی، بوڑھے اور عورتیں کھلے برفانی میدان میں پڑے ہیں۔ دو اڑھائی سو خیموں کی ضرورت ہے۔ کوشش بہت کی، بندوبست نہیں ہو سکا۔ گہرا رنج اس کی آواز میں تھا۔ لگتا تھا کہ رو دے گی۔
اتنے میں کہیں سے خبر ملی کہ راولپنڈی میں عمران خان کے امدادی کیمپ میں سینکڑوں خیمے کہیں سے پہنچے ہیں۔ موبائل فون کا استعمال اس زمانے میں عام نہیں تھا۔ بھاگتا ہوا میں گیا اور ان سے کہا: خان صاحب نے بھیجا ہے۔ فوری طور پر یہ خیمے میرے حوالے کر دیجیے۔ کسی کو شبہ تک نہ ہوا اور ممکن حد تک برق رفتاری سے یہ خیمے متاثر ہ لوگوں تک پہنچا دیے گئے۔ بعد میں ہنس ہنس کر عظمیٰ اس واقعے کا ذکر کیا کرتیں۔ اس کے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسی حرکت یہ آدمی کر سکتاہے۔ خود میرے سان گمان میں بھی نہ تھا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی پہ برپا ہونے والی وکلا کی تحریک میں بھی جنرل حمید گل کے خاندان نے اسی جو ش و خروش سے حصہ لیا۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے۔ میرے لاہورکے کاروباری دوستوں نے، جن میں سے اکثر کا تعلق کارپٹ انڈسٹری سے تھا، سات آٹھ لاکھ روپے فراہم کیے۔ ان میں سے زیادہ تر میں نے عظمیٰ کے حوالے کیے۔ کچھ راولپنڈی اور اسلام آباد کی وکلا انجمنوں کے بینک کھاتوں میں جمع کرا دیے۔ اس رقم سے احتجاجی جلوس کے شرکا کو قیمے کے نان اور پانی کی بوتلیں فراہم کرنا تھیں۔
حادثہ یہ ہوا کہ وکلا کے لیڈر اعتزازا حسن نے آخری موقع پر دھرنا ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔ عطیہ دہندگان میں سے ایک صاحب مجھ پہ بگڑے کہ دھرنا ہوا ہی نہیں تو روپیہ کہا ں گیا؟ ان صاحب کو میں نے پیشکش کی کہ وہ Auditorکو بھیجیں۔ آمدرفت کے لیے جہاز کا ٹکٹ میں انہیں فراہم کروں گا۔ ان کی فیس بھی ادا کروں گا۔ خاموش ہو گئے لیکن شک و شبہے کا شکار۔ سال بھر کے بعد فون کیا اور معافی مانگی۔ وہ دن اور آج کا دن اگر کبھی کسی نے عطیے کی پیشکش کی تو روپے کو چھونے سے انکار کر دیا۔
کرونا کی وبا پھیلی تو عظمیٰ گل اور ان کے میاں نے راولپنڈی کے بے نظیر ہسپتال میں 150بستروں کا ایک وارڈ قائم کیا اور خود واران کے دفتر میں بھی، حتیٰ کہ ایک دن ضلعی انتظامیہ نے واران کے دفتر پہ قبضہ کر لیا۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا:
ہم کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
عظمیٰ گل کی زندگی ایسی ہی رہی۔ باپ کی لاڈلی بیٹی عمر بھر طوفانوں کا سامنا کرتی اور خلقِ خدا کے دکھ بانٹتی رہی۔ کشمیری مہاجرین کے لیے سب سے زیادہ عطیات شاید اس نے تنِ تنہا جمع کیے۔ ایک ایک مارکیٹ گھوم کر ان کے لیے کپڑے اور جوتے خریدے۔
امریکہ بہادر کی خصتی کے بعد افغانستان قحط سے دوچار ہوا تو دن رات ایک کر دیے۔ آٹا، کوٹ، کمبل اور ضرورت کی دوسری اشیا، کم از کم چار پانچ کروڑ روپے کے عطیات جمع کیے۔ یہی نہیں، بھیجنے میں کمال احتیاط اور اہتمام سے کام لیا۔ جب بھی ایسا کوئی مرحلہ آیا، گردو پیش والوں کو بھی متحرک کیا۔ غم پالتی ہیں لیکن پتوار نہیں ڈالتیں۔ سبحان اللہ، ظہیر کاشمیری نے کہا تھا:
جاؤ کہہ دو کوئی ساحل کے شبستانوں میں
لنگر انداز ہوں میں آج بھی طوفانوں میں
بائبل میں لکھا ہے: یہ لوگ زمین کا نمک ہیں۔ ایسے لوگ نہ ہوں تو ملک اور معاشرے کیا رہیں گے؟ جانوروں کے غول۔ جبلتوں کے مارے ہجوم!
رہی اس کی کالم نویسی تو خود پڑھیے۔ لہو سے لکھی ہوئی داستانیں ہیں۔ کبھی ایک شعلہ سا لپک ا ٹھتا ہے اور کبھی گداز کی فراوانی سے دل موم ہو جاتا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا:
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تووہ لہو کیا ہے
(عظمیٰ گل کی کتاب کا دیباچہ)
(ختم شد)