ایک سپاہی کی یاد (3)
سینیٹ انتخابات میں اخلاقی افلاس سے اس جواں مردسپاہی کی یاد قلب و جاں میں چمک اٹھی۔ کاش کہ ہماری سیاست اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایسے کچھ امانت دار موجود ہوتے۔ ادبار سے ہم بچ نکلتے، ضرور بچ نکلتے۔
فاروق گیلانی کے لہجے میں کسی چونکا دینے والی دریافت کی سرشاری تھی۔ ایک فوجی افسر کا ذکر کیا۔ وزارتِ زراعت جنگل اگاتی ہے۔ ادائیگی مشروط ہے کہ خاردار تار قائم ہو اور اسّی فیصد پودے صحت مند۔ بریگیڈیئر سے پوچھا: کتنے فیصد؟ جواب ملا: سوفیصد۔ حیرت سے سوال کیا کہ یہ کس طرح ممکن ہے؟ وجیہہ آدمی بولا: اس لیے کہ 120فیصد گاڑے تھے "اور خاردار تار؟ ":جی نہیں، گاؤں والوں کو سکھایا کہ زندگی میں اشجار کی برکت و فضیلت کیا ہے۔" جنگل کی حفاظت وہ خود کرتے ہیں۔ اس آدمی کا نام بریگیڈئیر سلطان ہے" عرض کیا۔ حیرت زدہ، انہو ں نے پوچھا کہ یہ بات میں کیسے جانتا ہوں؟ "اس لیے کہ صرف بریگیڈیئر سلطان ہی ایسا کر سکتے ہیں "۔
وسیع مطالعہ، اچھی صحبت۔ لائق اور امانت دار افسر کتنے ہی اہم مناصب سے گزر آیا تھا۔ تیس برس کی شناسائی۔ اس کے باوجودپوری طرح اعتبار نہ آیا۔ بات ہی ایسی تھی۔ بولے "دنیا میں کیا ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں؟ "
جی ٹی روڈ پر گاڑی جب ترکئی کی پہاڑیوں کے پاس پہنچتی ہے تو وہ یاد آتے ہیں۔ اس گاؤں کی نشان دہی کرنے والا بورڈ تلاش کرتا ہوں، جہاں کبھی محمد سلطان نے جنم لیا تھا۔ پاک فوج کا ایک خیرہ کن باب جسے رقم کرنا تھا۔ 'ڈومیلی، اس گاؤں کانام ہے۔ دو ندیاں یہاں گلے ملتی ہیں۔ سبکدوشی کے برسوں بعد، ایک تقریب میں جنرل محمد ضیاء الحق سے بریگیڈیئر کی ملاقات ہوئی تو جنرل نے کہا "کیا ساری دنیا سے آپ ناراض ہیں؟ آپ کو مدعو کیا مگر تشریف نہ لائے" ہمیشہ کی دھیمی اور ٹھہری ہوئی آواز میں جواب یہ تھا "سر! ائیر پورٹ پولیس سٹیشن کا تھانیدار بھی بلائے تومیں حاضر ہو جاؤں مگر یہ کہ مدعو کرنے میں شرفا قرینہ ملحوظ رکھتے ہیں "۔ راولپنڈی پہنچ کر جنرل نے فون کیا "میں ضیاء الحق بول رہا ہوں۔ کیا بیگم صاحبہ کے ہمراہ آپ میرے گھر تشریف لانے کی زحمت گوارافرمائیں گے؟ "
کھانے کی میز پر ایک گہری اداسی کے عالم میں حکمران نے سوال کیا "تلافی کی کوئی صورت؟ کوئی سی ملازمت، کوئی منصب؟ میرے دل پہ بوجھ ہے"۔ نفی میں بریگیڈئیر نے سرہلایا اور کہا "جنگ لڑنے کے سوا میں کوئی ہنر رکھتا ہی نہیں۔"
جنرل محمد ضیاء الحق کو وہ دن یاد آئے، جب انہیں ساتھ لے کر وہ قاہرہ پہنچے تھے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ ختم ہونے کے بعد۔ مصری جنرلوں نے صیہونی سپاہ کے مقابل اپنی کامیاب حکمتِ عملی کی تفصیل بتائی۔ گفتگو تمام ہو چکی تو کمال انکسار سے پاکستانی بریگیڈیئر نے یہ کہا: اجازت ہو تو عرض کروں کہ ایک مختلف حکمتِ عملی بھی ممکن تھی... جیسے جیسے جہاندیدہ آدمی کی گفتگو آگے بڑھی، حیرتوں کے در کھلتے چلے گئے۔ خیال آرائی اور شاعری نہیں، ملٹری سائنس کے ا صولوں کی رو سے ایک مکمل نقشہء جنگ۔ درخواست کی گئی کہ مصری فوج کی رہنمائی کے لیے اس نادر آدمی کی خدمات کچھ دن کو مستعار دے دی جائیں۔ بریگیڈیئر نے معذرت کرلی۔ وہ اپنے ہی مزاج کا آدمی تھا۔
1965ء میں چیف آف آرمی سٹاف کشمیر کے محاذ پر تشریف لائے۔ مذاقاً کہا: کیا باقی سب مورچے بھی تمہارے مورچے ایسے پختہ اور پائیدار ہیں؟ کپتان کا جواب یہ تھا: اگر ایک بھی مورچہ کمتر ہو تو اس وردی کا میں حق دار نہیں۔
پھر کچھ اورواقعات گیلانی صاحب کو سنائے۔ ان میں سے ایک یہ تھا:150کلومیٹر پرے مقبوضہ کشمیر میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے لیے اسے بھیجا گیا۔ ایک تاریک شب میں، چند سپاہیوں کے ہمراہ، اس نے بھارتی رجمنٹ پر حملہ کیا اور پرخچے اڑا کے رکھ دیے۔ پھر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بحفاظت لوٹ آیا۔ ایک خراش تک کسی کو آئی نہ تھی۔ ایک گھنے اورگہرے جنگل میں، جہاں کارروائی سے قبل، وہ چھپے تھے، ایک خاتون نے انہیں دیکھ لیا۔ مشورہ یہ تھا کہ قتل کر دی جائے۔ کپتان نے انکار کر دیا۔"کسی بے گناہ پہ ہاتھ ڈالنا مسلمان کا شیوہ نہیں " اس نے کہا " سپاہی کی اخلاقیات مستحکم ہونی چاہئیے"... آخری وقت تک، جب یہ اخبار نویس ان سے ملا، وہ یہ جملہ دہراتے رہے "ہم قاتل اور جلاد نہیں۔ ہم سپاہی ہیں، زندگی کی حفاظت ہمارااولین مقدس فریضہ ہے۔"
1971ء میں، مشرقی پاکستان میں وہ جمال پور کے محاذ پر پہنچے تو سب سے پہلے گرفتار بنگالی نوجوانوں کی رہائی کا حکم صادر کیا۔ بڑے بوڑھوں کو مدعوکیا۔ سہمے ہوئے لوگوں کے خدشات دور کیے۔ پیمان کیاکہ کسی بے گناہ پہ آنچ نہ آئے گی۔ نتیجہ یہ تھا کہ جنگ کا زمانہ آیاتو ہزاروں بنگالی جوانوں نے 80کلومیٹر تک، خندقوں کی آٹھ گہری قطاریں کھود ڈالیں۔ پختہ مورچوں اور فضائی تحفظ والی ایک ڈویژن بھارتی فوج ایک انچ بھی ان کی رجمنٹ سے چھین نہ سکی، جس کے مورچے ناپختہ تھے۔ جنگ کے بعد اور اس میں حیران کن واقعات پیش آئے، بھارتی جنرلوں نے اس کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ دشمن کی سپاہ میں ان کی شجاعت کے قصے گونج ر ہے تھے۔ ہتھیار ڈالنے کی تنبیہ کرنے والے بھارتی افسر کو انہوں نے کاغذ میں لپٹی ایک گولی بھیجی۔"باتیں نہیں، مرد مقابلہ کیا کرتے ہیں " دشمن کے مقابل جا کھڑے ہوتے اورسگریٹ پیا کرتے "آپ کو کبھی خوف محسوس نہ ہوا؟ " سترہ برس کے بعد ان سے پوچھا "کیوں نہیں، میں بھی گوشت پوست کا بنا ہوں۔ خوف پہ قابو پانا ہوتا ہے۔ یہی سپاہ گری ہے، یہی جہاد" اسّی کلومیٹر کی خندقوں پر امریکی اخبار کرسچین سائنس مانیٹر نے لکھا تھا "The greatest defence ever built in human history"
سبکدوشی کے بعد فوجی افسر ملنے آتے اور کوئی ذکرچھیڑتا تو انکسار سے بریگیڈئیر صاحب سر جھکالیتے۔ 1965ء میں ستارہء جرا ت ملا۔ 1971ء میں بعض نے پہلی بار ایک زندہ افسر کے لیے نشانِ حیدر تجویز ہوا۔ وہ تو دوسری بار ستارہ جرات کے آرزومند بھی نہ تھے۔ انکار کیا لیکن مسترد ہو گیا۔ زخم ان کے دل پہ بہت گہرا تھا۔ فوج کے صدر دفتر کو لکھا: میں نے اپنی جنگ دھات کے ا س ٹکڑے کی خاطر نہیں لڑی تھی، میری موت کے بعد جو دیوار پہ لٹکایا جائے گا۔ برسوں بعد A stolen victoryکے عنوان سے جو مشاہدات رقم کیے، 1971ء کی جنگ پہ شاید اہم ترین دستاویز ہے، مکمل طور پر مستند بھی۔
اعلیٰ ادب سے بریگیڈئیر کو اْنس تھا۔ منتخب انگریزی ادب کی شاید ہی کوئی کتاب ان کی نظر سے گزری نہ ہو۔ لکھتے تو موتی پروتے۔ میں حیران تھا کہ اس آخری معرکتہ الآرا کتاب کے لیے، جو وہ لکھ رہے تھے، میری مدد کی انہیں کیا ضرورت؟
لس بیلہ میں تعینات تھے کہ 1977ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ راولپنڈی کے نام خط میں احتجاج کیا۔ 1977ء کا مارشل لا نافذ ہوا تو اہم ترین شخصیات کے علاوہ، پہلے دن ہی دور دراز کے اس فوجی افسر سے بھی رابطہ کیا گیا۔ وہ بہت ناخوش تھے، فوراً ہی استعفیٰ دے ڈالا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے ساتھ ان کی ملاقات کا پس منظر یہی تھا۔ سر سے پاؤں تک وہ ایک سپاہی تھے۔ کاش کہ عسکری قیادت نے بھی یہ سبق پڑھا ہوتا۔
سینیٹ انتخابات میں اخلاقی افلاس سے اس جواں مردسپاہی کی یاد قلب و جاں میں چمک اٹھی۔ کاش کہ ہماری سیاست اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایسے کچھ امانت دار موجود ہوتے۔ ادبار سے ہم بچ نکلتے، ضرور بچ نکلتے۔