Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. Afratafri

Afratafri

افراتفری

زمانہ جب تیور بدلتا ہے، تاریخ جب کروٹ بدلتی ہے تو ایسی ہی افراتفری ہوا کرتی ہے۔ کچھ دن اسی طرح بتانا ہوں گے، حتیٰ کہ نئی دنیا طلوع ہو۔

جہان نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالم پیر مر رہا ہے

جسے فرنگی مقامروں نے، بنا دیا ہے قمار خانہ

کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، تعجب کی کوئی بات نہیں۔ حیرت تو اس پر تھی کہ بات چیت کا آغاز ہی کیوں ہوا۔ کرائے کے قاتلوں، حتیٰ کہ کمسن بچوں کی گردنیں کاٹنے والوں سے معقولیت کی امید کیا؟

یہ افغان طالبان کی وجہ سے ہوا۔ پاکستان کا مطالبہ تو یہ تھا دہشت گرد حوالے کئے جائیں کہ انجام کو پہنچیں۔ بالکل برعکس افغان طالبان کی قیادت نے مذاکرات پہ اصرار کیا۔ اس لئے کہ امریکہ اور اشرف غنی انتظامیہ کے خلاف بیس برس کی جنگ میں وہ ان کے شریک کار تھے۔ دوسرا سبب یہ بتایا گیا کہ طالبان کو ابھی ملک پہ مکمل کنٹرول حاصل نہیں۔ حاصل ہو بھی کیسے، تین کروڑ اسی لاکھ جیتے جاگتے انسانوں میں زیادہ سے زیادہ دس فیصد پیٹ بھر سکتے ہیں، ان میں بھی زیادہ وہ جو منشیات کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ معدودے چند ہزار وہ بھی جنہیں لوٹ مار کے مواقع ملے۔

ربع صدی پہلے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملا عمر نے افیون کی کاشت پر پابندی عائد نہیں کی تھی، معاشی حالات قدرے سازگار ہوئے۔ مخالفین نے طعنہ زنی اور علماء نے اصرار کیا تو قندھار سے حکم نامہ صادر ہوا۔ کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ نائن الیون کا خونیں واقعہ رونما ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بی باون طیارے نمودار ہوئے، ڈیزی کٹر بم برسے، میزائل سے بستیاں ادھڑنے لگیں۔ تب طالبان کی قیادت کو ادراک ہوا کہ شہروں میں اب وہ پناہ نہیں پا سکتے۔ چھاپہ مار جنگ کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ باقی تاریخ ہے۔

دوحا میں کامیاب مذاکرات کے بعد، 15ملین میں سے آٹھ لاکھ ووٹ حاصل کرنے والے اشرف غنی کی کشتی ڈگمگانے لگی۔ کئی سو بلین ڈالر ضائع کرنے کے بعد دور دور تک کامیابی کے آثار تک نہ تھے۔ جنگ امریکیوں کے بس کی بات نہیں۔ پیہم اصراف پہ امریکی رائے عامہ بگڑتی گئی۔ حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو واپسی کا فیصلہ کرنا پڑا، جو بائیڈن بس اتنا ہی کر سکے کہ چند ہفتوں کے لئے انخلا ملتوی کر دیں۔ اندرون ملک نئے صدر کو شورش کا سامنا تھا۔ ری پبلکن پارٹی نے الیکشن کے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ واشنگٹن میں کانگرس کے اجلاس پر حملہ ہوا۔ عوامی نمائندوں کو میزوں کے نیچے پناہ لینا پڑی۔ کچھ فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوئے۔ یہ کسی افریقی ملک کا سا منظر تھا۔

جوبائیڈن کا سب سے بڑا مسئلہ اب یہ تھا کہ ناراض ہو جانے والے حلیفوں کو واپس لائیں۔ اوروں کا تو ذکر ہی کیا حالات ناسازگار پا کر یورپی یونین نے چین سے سرمایہ کاری کے معاہدے کئے۔ عملاً گویا اعلان کر دیا کہ امریکہ پر زیادہ انحصار اب ممکن نہیں۔ کانگرس کی طرف سے ڈالر چھاپنے کی کھلی اجازت کے باوجود، چین کا مقابلہ مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔

امریکیوں کی چھ نسلیں تمول میں پلی ہیں۔ وہ آسودہ زندگی کے عادی ہو چکے۔ بچت کی شرح گر گئی۔ پینتیس چالیس کروڑ امریکیوں کے مقابلے میں چینی آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے۔ بچت کی شرح دنیا کے اکثر ممالک سے زیادہ۔ چینی معیشت سات فیصد سالانہ کی شرح سے بگٹٹ بھاگ رہی ہے۔ امریکی معیشت زیادہ سے زیادہ دو اڑھائی فیصد کی شرح پر رینگتی ہوئی۔ اس پہ یکایک ٹوٹ پڑنے والا کورونا کا عذاب۔ اول تو یہ کہ لاابالی ڈونلڈ ٹرمپ سنگینی کا ادراک ہی نہ کر سکے۔ چند ہفتوں میں ہر روز سینکڑوں مریض مرنے لگے، تو عالمی طاقت کی آنکھ کھلی۔

یہ اس جمہوریت کا ثمر بھی تھا، انکل سام کو جس پہ ناز ہے۔ مقابلے میں چینی معاشرہ ڈسپلن میں ڈھلا ہے۔ ایک مشین کی طرح وہ حرکت میں آتا ہے، جس کے سارے کل پرزے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ بہت تیزی سے چین نے کورونا پر قابو پا لیا۔ ایک روٹھی، جھگڑالو، دیہاتی عورت کی طرح، ڈونلڈ ٹرمپ چین پر طعنہ زنی کرتے رہے۔ جواب میں بیجنگ نے آنکھ اٹھا کر دیکھا اور کاروبار زندگی میں مگن ہو گیا۔ وہ اب قرار پا چکا تھا۔

ریاست ہائے متحدہ کو متحد اور منظم ہونے میں ابھی بہت دن درکار ہیں۔ سینکڑوں نہیں تو درجنوں جنگیں امریکیوں نے لڑی ہیں۔ فیروز مند خال ہی ہوئے۔ اس پہ عظمت کا خبط۔ پینٹاگان کا جنگی بجٹ ساڑھے سات سو بلین ڈالر کو پہنچ چکا۔ مقابلے کی معیشت ہونے کے باوجود چین والے اپنی افواج پر صرف پونے دو سو ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ابھی کل تک وہ مفلس تھے؛ چنانچہ سخت جان وہ بہت ہیں۔ ان کی قومی توانائی باہمی تصادم، بادہ نوشی اور جوئے خانوں میں ضائع نہیں ہوتی۔

ایک پارٹی ہے ایک ہی لیڈر اور منزل مقصود واضح۔ توہین کے پورے سو برس بتانے کے بعد، شہنشاہیت، برطانوی اور جاپانی غلبے سے نجات کے بعد، پچھلی صدی کے اوائل میں وہ سنبھلے۔ پوری دنیا میں شاید ایک ہی شخص تھا، جس کی خیرہ کن قوت متخیلہ وہ منظر دیکھ سکی، جو آج سب دیکھ رہے ہیں:

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے

یہ اقبالؔ تھا، بیسویں صدی کا علمی مجدد۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ جس کی قندیل روشن سے روشن تر ہوتی جاتی ہے۔ پاکستان، ایران، افغانستان، وسطی ایشیا اور اب کشمیر جس کی مشعل سے اکتساب نور کرتا ہے۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہر عالمی قوت کی ایک عمر ہوتی ہے۔ انگریز کو کچھ نہ کچھ ادراک تھا۔ لہٰذا وہ سلیقے سے سمٹے۔ امریکہ بہادر تاب نہ لاسکا کہ نخوت میں طرز احساس وحشیانہ ہوتا ہے۔ اب بھی عالم انسانیت کی سرداری پر وہ تلا ہے۔ پہلے جاپان، بھارت اور آسٹریلیا سے مل کر چوکڑا بنایا، پچھلے دنوں اسی آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ ایک اور اتحاد تشکیل دیا:

ارادے باندھتا ہوں، سوچتا، توڑ دیتا ہوں

کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے

چین چڑھتا چلا آتا ہے۔ روکنے کی ہر کوشش ناکام۔ غصہ بیچارے افغانیوں پہ نکلا یا پاکستان پہ۔ افغانستان کے نو بلین ڈالر روک لئے۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ پاکستان اب ریاست ہائے متحدہ کا محتاج نہیں۔ اسلحہ وہ خود بناتا یا چین، روس، اٹلی سے خریداری کرتا ہے۔ بس چلے تو پاکستان امریکہ کے پرخچے اڑا دے۔ مگر بس چلے بھی:

حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں

خواب بننے نہیں پاتا کہ بگڑ جاتا ہے

افغانستان البتہ عذاب میں ہے۔ امریکی انتداب شہروں تک محدود تھا۔ دیہات میں افیون کاشت ہوتی رہی، ہیروئن بنتی اور دنیا بھر میں پہنچتی رہی۔ اس پر طالبان کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ یہ ان کی آمدن کے بڑے ذرائع میں سے ایک ذریعہ تھا۔ دوسرا تاجروں سے وصول ہونے والا ٹیکس۔ منظر اب بھی وہی ہے۔ کابل سے حکم جاری ہوتا ہے لیکن دور دراز کے دیہات میں عمل کون کرائے۔ ایک آدھ نہیں سینکڑوں فیکٹریاں ہیں جو افیون کو ہیروئن میں ڈھالتی رہتی ہیں۔ اب ایک زیادہ تندنشہ کرسٹل میتھ (Crystal meth)بھی بنانے لگی ہیں۔ افغانستان سے پاکستان اور ایران پہنچتا ہے اور اقصائے عالم میں پھیل جاتا ہے۔ نفسیاتی امراض کا مارا آدمی فرار چاہتا ہے:

غم حیات سے گھبرا کے بندگان خدا

چلے ہیں جانب مۂ خانہ خودکشی کے لئے

دو وجوہ سے افغان طالبان لاچار ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کروڑوں بھوکوں کا پیٹ بھرنا ہے۔ دوسرے یہ کہ طالبان ان ذہنی مریضوں کی گردن پکڑیں تو وہ القاعدہ، داعش اور بھارت سے جا ملیں گے:

تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے

شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے

زمانہ جب تیور بدلتا ہے، تاریخ جب کروٹ بدلتی ہے تو ایسی ہی افراتفری ہوا کرتی ہے۔ کچھ دن اسی طرح بتانا ہوں گے، حتیٰ کہ نئی دنیا طلوع ہو۔

جہان نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالم پیر مر رہا ہے

جسے فرنگی مقامروں نے، بنا دیا ہے قمار خانہ

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar