ظہران ممدانی کی جیت

ظہران ممدانی کی جیت ایسے ہی ہے جیسے پتھریلی چٹانوں سے نرم و نازک پودے کا اُگنا یا جوہڑ سے کنول جیسے خوبصورت پھول کا کھلنا۔ انھوں نے دنیاوی طاقتوں کو پچھاڑا ہے جو ایک منفرد اور اہم واقعہ ہے، البتہ تمام حربے ناکام ہونے پر شہرکے نسل پرست اور دولت مند پریشان ہیں کیونکہ یہودیوں کے گڑھ میں مسلمان میئر کی جیت بدلتے منظر نامے کی طرف اشارہ ہے۔ یوں تو رائے عامہ کے جائزوں سے واضح ہوگیا تھا کہ نیویارک کے لیے نسل و مذہب کی بجائے اہلیت و صلاحیت مقدم ہے، نیز شہری دائیں بازو کی سیاست کو ناپسند کرتے ہیں اِس کے باوجود شہرکے ارب پتیوں نے ہمت نہ ہاری اور تاریخ کا دھارا دولت سے بدلنے کی کوشش کی، ممدانی کو شکست دینے کے لیے لاکھوں ڈالر کے عطیات دیے گئے مگر کامیابی کو ناکامی میں نہ بدل سکے اور ممدانی 49.6 ووٹ لیکر نیویارک کے میئر منتخب ہوگئے جبکہ اُن کے مدِ مقابل آزاد امیدوار اینڈریو کومو صرف 41.7 فیصد ووٹ لے سکے۔ ریپبلکن امیدوار کرٹس سلواکے حاصل کردہ ووٹوں کاتذکرہ کیا کرنا وہ شرمناک شکست سے دوچار ہوئے۔
نیوریارک میئر کے انتخابات کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہیں، اول یہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، دوم یہاں تارکینِ وطن کی بڑی تعداد ہے، سوم اِس شہر میں ارب پتی انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہیں، چہارم تعلیم و روزگار کے وسیع مواقع ہونے کے باوجود رہائشی سہولتوں کی کمی ہے، پنجم یہ شہر ملک کے سیاسی منظر نامے کا تعین کرتا ہے۔ اسی تناظر میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کی طرح عام خیال یہ تھا کہ اُن کا حمایت یافتہ امیدوار باآسانی میئر منتخب ہوجائے گا مگر ممدانی کے عوامی منشور نے رائے عامہ کی توجہ حاصل کرلی اور پھر اسرائیل کے سفاک وزیرِ اعظم نیتن یاہوکی گرفتاری کے عندیے نے انھیں مقبولِ عام بنا دیا جب رائے عامہ کے جائزوں میں ممدانی کو تمام امیدواروں سے مقبول ظاہر کی جانے لگا تو طاقت کے مراکز میں جیسے بھونچال سا آگیا۔
شہر کے ارب پتی بھاری عطیات کے ساتھ آگے بڑھے تاکہ سابق گورنر اینڈریو کومو کے لیے عوامی حمایت حاصل کی جا سکے لیکن بات بننے کی بجائے بگڑتی چلی گئی اور ممدانی کا درمیانے طبقے کے مسائل حل کرنے کا بیانیہ حاوی ہوتا چلا گیا۔ ممدانی نے جب کہا کہ شہر میں دفاتر اور گھروں کے کرائے منجمد کردوں گا، شہریوں کو مفت سفری سہولتیں دینے کے ساتھ چائلڈ کیئر کے دائرہ کارکو بھی وسعت دی جائے گی تو ممدانی کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی مگر سابق گورنر اینڈریو کومواور ریپبلکن امیدوار کرٹس سلوانے ایسا کوئی وعدہ نہ کیا وہ اپنی تصوراتی دنیا میں گم رہے یہ لاعلمی تھی، لاپرواہی یا ذہنی پس ماندگی؟ شکست کا ایک زوردار تھپٹر کی صورت بنی۔
صدر ٹرمپ نے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے محصولات بڑھائے اور نئی منڈیاں حاصل کیں لیکن محصولات سے ملک میں مہنگائی کے عفریت کو نئی طاقت ملی۔ اِس عفریت سے آجکل ہر امریکی پریشان ہے۔ ایک ایسا شہر جہاں غیر ملکیوں کی بڑی تعداد ہے جو رہائش اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل سے دوچار ہیں انھوں نے تبدیلی لانے اور ممدانی کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے کیونکہ ممدانی نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ امیر طبقے پر ٹیکس بڑھانے اور غریب اور متوسط طبقات کے لیے مراعات کا اعلان کیا تو عام شہری متوجہ ہوتے گئے۔ شہر کے امرا و روسا کی رقوم ایشیائی نسل کے امیدوار کی کامیابی روک نہ سکیں۔ اقلیتی النسل کی حمایت سے نہ صرف 1969 کے بعد انتخابات میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ رہا بلکہ نیویارک جسے تارکینِ وطن کا شہر کہا جاتا ہے سے صدر ٹرمپ اور ایلون مسک کی مخالفت بھی بے اثر رہی۔
ظہران ممدانی کی جیت نے امریکہ میں نئی تاریخ رقم کی ہے۔ بلاشبہ اِس جیت سے ٹرمپ کا سر نیچا ہوا ہے۔ ممدانی نے نیویارک کے پہلے مسلم میئر کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ اِس 34 سالہ شخص نے عزم و ہمت اور جہد مسلسل سے ناممکن کو ممکن بناد یا ہے۔ لندن کے میئر محمد صادق سے ناخوش ٹرمپ کو اپنے ہی ملک کے سب سے بڑے شہر نے وہ صدمہ دیا ہے جس سے نہ صرف دائیں اور بائیں بازو کی کشاکش میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ ڈیموکریٹس کی مقبولیت میں اضافہ میں اضافہ ہوگا۔ یہ ایک ایسا غیر معمولی واقعہ ہے کہ دنیا کے دوبڑے شہروں نے مسلمانوں کے امن، محبت، رواداری اور بھائی چارے پر اعتماد کیا ہے۔ اب میئر لندن کی طرح میئر نیویارک کو بھی شاید صدر ٹرمپ ہدفِ تنقید بناتے پھریں لیکن سرمایہ، اہمیت اور عالمی شہرت کے حامل شہر سے کامیابی حاصل کرنا، ایلون مسک کے سوشل میڈیا اور تبصروں کو ناکام بنانا ممدانی کا وہ کارنامہ ہے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ ایشیائی نژاد غیر پیدائشی امریکی شہری 34 سالہ ممدانی نے نیوریارک شہر میں وہ کامیابی حاصل کی ہے جسے صرف پبلکن ہی نہیں روسا بھی کبھی بھول نہ پائیں گے یہ عوامی طاقت کی دولت اور اختیار دونوں کو شکست ہے۔
تاریخی اور عوامی کامیابی کے بعد کیا ظہران ممدانی اپنے اقتدار کی مدت سکون اور کامیابی سے گزارپائیں گے؟ اِس حوالے سے ہاں میں جواب دینا غلط ہوگا بلکہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ قدم قدم پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اُن کے مخالفین سیاسی قوت کے ساتھ انتہائی دولت مند ہیں، جدید زرائع ابلاغ کے مالک ہیں۔ صدر ٹرمپ پہلے ہی وفاقی حکومت سے نیویارک کو ملنے والی اربوں ڈالرز کی فنڈنگ روکنے کا عندیہ دے چکے۔ فی الوقت ممدانی کو کامیاب ہونے سے روکا نہیں جاسکا صدر ٹرمپ نے پالیسی یوٹرن لیتے ہوئے نئے میئر کے ساتھ تعاون کا اعلان کیا ہے لیکن اِس کامیابی کو وہ آسانی سے قبول کرنے پر وہ آمادہ نظر نہیں آتے کیونکہ نیویارک کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ اِس شہر میں امریکہ کی سب سے بڑی پولیس نفری ہے اِس کاسالانہ بجٹ 115ارب ڈالر ہے، اسی شہر میں اقوامِ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہ شہر سٹاک مارکیٹ سمیت دولت کے ارتکاز کا عالمی مرکز ہے اِس لیے ڈیموکریٹس کی دیگر کامیابیوں سے زیادہ اہم میئر کی یہ کامیابی ہے۔
ایسے حالات میں جب دنیا میں دائیں بازوکے نظریات رکھنے والی شخصیات اور جماعتیں تقویت پکڑ رہی ہیں نیویارک جیسے عالمی اہمیت کے شہر سے ایک متوسط طبقے کے روشن خیال امیدوار کا اقلیتی ووٹروں کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرنا خاصا غیر معمولی ہے۔ اُن کی حمایت میں سیاہ فام، ہسپانوی اور ایشیائی ووٹر یکجا دکھائی دیے جس سے اینڈریو کومواور کرٹس سلوا کی حمایت محدود ہوئی۔
ماہرین کے خیال میں یہ نتیجہ نیویارک کی بدلتی سیاسی اور سماجی ساخت کا عکاس اور نسلی بنیاد پر ووٹروں کے رجحانات کی بے چینی کو ظاہر کرتی ہے۔ نیویارک کے انتخابات میں سفید فام اکثریت نے آزاد امیدوار اینڈریو کومو کو ترجیح دی لیکن رپبلکن امیدوار کرٹس سلوا کو تمام نسلوں سے حمایت کمزور ہونا ٹرمپ کی پالیسیوں پر عدمِ اعتماد ہے۔ ظہران ممدانی نے ایک منفرد تاریخ رقم تو کر دی ہے لیکن شہرکے امیروں کی اکثریت ممدانی کی کامیابی کے بعد بھی اُن کے سوشلسٹ خیالات سے کتنی خائف ہے؟ یہ جاننے کے لیے کچھ انتظار کرنا مناسب ہوگا۔

