تھائی لینڈ اور کمبوڈیا جنگ میں چینی کردار

طاقت کا اظہار ہمیشہ انسان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے کیونکہ یہ انسانی جبلت میں شامل ہے جونہ صرف دنیا میں سیاسی و جغرافیائی تبدیلیوں کا ایک اہم محرک ہے بلکہ بدامنی کی ایک اہم وجہ بھی، بدقسمتی سے فتوحات کے بعد عالمی طاقتوں نے انخلا کے دوران اقوام کو آزادیاں دیتے وقت کچھ ایسی مکاری سے کام لیا کہ دنیا بدامنی کا مرکز بنتی جارہی ہے اور طاقت کے اظہار کی انسانی جبلت تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ سامنے آئی ہے۔
تمام تر ترقی اور امن کے دعوؤں کے باوجود آج بھی طاقت کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں اسی لیے دفاعی حوالے سے کمزور ممالک کو آزادی و خودمختاری برقرار رکھنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ اپنے مفادات کے لیے عالمی طاقتیں ٹکراؤ اور کشیدگی بڑھانے میں دلچسپی لیتی ہیں اِس کا مقصد اسلحہ فروخت کرنا ہوتا ہے۔ ویسے تو جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک تھائی لینڈ اور کمبوڈیا سیاسی، معاشی اور دفاعی حوالے سے دنیا کی کوئی بڑی طاقتیں نہیں اِس کے باوجود چین اور امریکی رقابت میں جنگ کا میدان بننے کے دہانے پر ہیں۔
بظاہر تھائی لینڈ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کمبوڈیا سے چار گُنا بڑا ملک ہے جس کی فضائیہ امریکی ساختہ ایف سولہ سے لیس ہے جواُس کی برتری ثابت کرتی ہے جبکہ کمبوڈیا کی فضائیہ جدید لڑاکا طیاروں سے محروم ہے۔ مندروں پر ملکیت کے حوالے سے رواں ہفتے دونوں ممالک میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔ تھائی لینڈ نے فضائیہ کو تحرک میں لاکر کمبوڈیا کے اہم دفاعی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ وہ مندوروں کے حوالے سے کسی قسم کی لچک پر آمادہ نہیں اور مزاکرات کی بجائے طاقت کا اظہار کر رہا ہے جس سے مسئلہ مزید پچیدہ ہو سکتا ہے۔ 2008 میں بھی دونوں ممالک میں جھڑپیں ہوئیں جو تین برس سے زائد عرصہ تک جاری رہ کربے نتیجہ ختم ہوئیں اب بھی جنگ اور امن کے امکانات برابر ہیں مگر مندروں کا مسئلہ حل نہ ہونے تک حقیقی امن خواب ہی رہے گا اِس حوالے سے چینی ثالثی ہی اہم اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔
تھائی لینڈ گو امریکہ کے زیادہ قریب ہے مگر چین، جاپان اور عرب امارات کا بھی اہم تجارتی شراکت دار ہے۔ ایک چین پالیسی کا حامی ہونے کے باوجود کئی حوالوں سے تائیوان پر بھی انحصار کرتا ہے، نیز امریکی ہتھیاروں نے اُسے نیا اعتماد بخشا ہے۔ امریکہ جسے ہتھیاروں کے خریدار ممالک سے استعمال کے حوالا سے ہمیشہ شکایات رہتی ہیں حیران کُن طور پر اُسے کمبوڈیا کے خلاف ایف سولہ استعمال کرنے پر تھائی لینڈ سے تعرض نہیں اسی بنا پر قیاس ہے کہ امریکہ تصادم روکنے میں سنجیدہ نہیں اِس کی وجہ ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر فروخت کی اُمید ہوسکتی ہے۔
بظاہر کمبوڈیا کو چین کے قریب اور ہم خیال تصور کیا جاتا ہے لہذا تصادم اور امن کا دارومدار چینی رویے پر ہوگا۔ یہاں اگر امریکہ کشیدگی اور تصادم کو ہوا دیکر ہتھیاروں کی فروخت کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو نہ صرف خطے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ نمو پائے گی بلکہ چین بھی کمبوڈیا کی پشت پناہی کے لیے آگے آسکتا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف معاشی ناہمواری کے ساتھ خطے میں غرب و افلاس بڑھے گی بلکہ بے روزگاری میں اضافہ اور ہجرت کی نئی راہداری وجود میں آسکتی ہے۔
کمبوڈیا اپنی ناہموار معیشت کی وجہ سے بڑی اور طویل لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بڑھتا تجارتی خسارہ اُسے جنگ سے روکتا ہے۔ 2023 میں اُس کی کُل برآمدات 21.68 ارب ڈالر جبکہ درآمدات 24.41 ارب ڈالر رہیں 2.73 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے پر کیسے قابو پانا ہے؟ یہ حکومت کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ ایسے حالات میں تھائی لینڈ سے بڑھتی کشیدگی اور تصادم ترقی کا عمل سبوتاژ کر سکتا ہے لہذا خراب معاشی، تجارتی دفاعی حالات کی وجہ سے اُسے مزید ایک اور طویل تصادم سے بچنا چاہیے مگر حکومتی ترجیحات سے ایسا اِشارہ نہیں ہوتا کہ وہ مندروں کی ملکیت کے حوالے سے کسی قسم کی لچک دکھا پائے گی بلکہ ہر اچھے و بُرے اقدام کے لیے تیاری سے کسی بڑے تصادم کے امکانات کی طرف اِشارہ ہوتا ہے۔
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا دونوں مذہبی حوالے سے بدھ مت کے پیروکار ہیں مزید قدر مشترک یہ کہ دونوں پر ہی فرانس کا قبضہ رہا ہے۔ مندر تنازع کی جڑیں عشروں پُرانی ہیں۔ انخلا کے وقت فرانس مزید ایسے حالات بنا کر گیا جس سے یہ تنازع گرزتے وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کرے۔ رواں ہفتے 24 جولائی کو ہونے والے تازہ تصادم میں دس سے زائد افراد کی ہلاکتیں ہوئیں جن میں فوجیوں کے ساتھ عام شہری شامل ہیں۔ اِس بارے تھائی حکومت کا کہنا ہے کہ کمبوڈیا کی فوج نے اُس کی عمل داری کے چار علاقوں پر میزائل و راکٹ برسائے جو ہلاکتوں کاباعث بنے جبکہ کمبوڈیا تھائی لینڈ پر فضائی حملوں کا الزام عائد کرتا ہے البتہ نقصانات کی تفصیلات دنیا کو دینے کی بجائے کیوں محض حملوں کی تصدیق پر اکتفا کر رہا ہے؟
سمجھ سے بالاترہے دونوں ہی حملے میں پہل کرنے اور ایک دوسرے پر کشیدگی بڑھانے کا الزام لگاتے ہیں ایسے میں کسی غیر جانبدار اور دونوں کے لیے قابلِ قبول ملک کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ہتھیاروں کی فراہمی تنازعات کو مزید گھمبیر بناتی ہے۔ امریکہ کو تو ویسے بھی ہتھیار فروخت کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے مگر امریکی رقابت میں چین یہاں تھائی لینڈکے خلاف اگر کمبوڈیاکی پشت پناہی کرتا ہے تو ایک طویل اور تباہ کُن تصادم کے امکانات بڑھیں گے۔ چینی ثالثی خطے میں امن کے قیام میں مددگار ہو سکتی ہے وجہ دونوں متحارب فریقین کا اُس پر اعتماد ہونا ہے، اسی لیے امریکہ کی بجائے چین کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں رواں برس مئی میں ہی کشیدگی نکتہ عروج کو چھونے لگی تھی جو اب سفارتی تعلقات تک وسیع ہو چکی ہے۔ کمبوڈیا سے تھائی لینڈ کا اپنے سفیر کو واپس بلا لینا بات چیت کے عمل میں عدم دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ جواب میں کمبوڈیا نے تھائی لینڈ سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلانے کے ساتھ تھائی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیدیا ہے۔ ایسے اقدامات لڑائی بڑھاتے ہیں کیونکہ سفارتی روابط محدود ہونے سے بات چیت کا امکان کم ہوتا ہے حالانکہ دونوں بات چیت سے مسائل حل کرنے کا عندیہ دیتے ہیں مگر عملی طور پر پہل کرنے سے گریزاں ہیں اور طاقت کے اظہار پر تکیہ کرتے ہیں۔
چین نے حالیہ جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک میں بات چیت پر زور دیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب متحارب فریق سفارتی زرائع تک محدود کرچکے تو بات چیت کا عمل کیسے شروع ہوگا؟ اِس صورت میں چین کا تعمیری کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ اگر چین نے امریکی مداخلت کو روکنا ہے تو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں کشیدگی کم ہو۔
اگر چین دلچسپی نہیں لیتا اور اقوامِ متحدہ بھی خاموش رہتی ہے تو بدامنی کی شکار غیرمحفوظ دنیا کی بدقسمتی ہوگی۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے ایسے علاقے میں لڑائی ہورہی ہے جسے دنیا ٹرائی اینگل کا لقب دیتی ہے۔ یہاں لاؤس، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی سرحدیں ملتی ہیں یہ علاقہ عالمی سطح پر منشیات کی پیداوار کے حوالے سے خاصا بدنام ہے۔ یہاں بدامنی ہوتی ہے تو منشیات فروشی کو فروغ ملے گا جس کی گونا گوں مسائل کی شکار دنیا متحمل نہیں ہو سکتی۔

