شام میں اپوزیشن کی غیر متوقع پیش رفت
باغیوں کی دمشق کی طرف پیش قدمی سے قبل ہی صدر بشار الاسد نے اقتدار سے الگ ہوکر روس میں پناہ لے لی ہے۔ اسی وجہ سے کسی خاص مزاحمت کے بغیر ہی پورے ملک سے بعث پارٹی کی سیکولر حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہ پارٹی کہنے کوتو بظاہر ایک سیاسی جماعت تھی لیکن اِس پر عسکری اِدارے کا اِس حد تک کنٹرول تھا کہ فوجی افسروں پر بعث پارٹی کے ممبر بننے پر بھی کوئی قدغن نہ تھی۔
1970 میں حافظ الاسد بھی ایسے حالات میں عسکری انقلاب کے ذریعے ملک کے صدر بنے جب وہ شامی فضائیہ کے چیف کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے تھے۔ اُن کی صدارت میں انتخابات بھی ہوتے رہے لیکن سیاسی جماعتوں کا کردار برائے نام ہی تھا۔ ملک پر اصل گرفت بعث پارٹی کی صورت میں فوج کی تھی۔ یہ نظام غیر جمہوری ہونے کے باوجود اسرائیلی خطرے کی وجہ سے ابتدا میں تو خوب پسند کیا گیا۔ یہ پسندیدگی چار دہائیوں تک محیط رہی لیکن اظہارِ رائے پر لگائی جانے والی بے جا پابندیوں سے لوگ بدظن ہوتے گئے۔
اسد خاندان نے عوام میں بڑھتی نفرت کے باوجود اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی 2000ء میں حافظ الاسد کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا تو آغاز میں کسی حد تک نرمی سے کام لیا لیکن جلد ہی عوامی تنقید سے اُکتا گئے اور اظہارِ رائے پر والد سے بھی زیادہ پابندیاں لگاتے گئے۔ اسد خاندان عقیدے کے اعتبار سے علوی ہیں اِس فرقے کی ملکی آبادی میں تعداد بیس فیصد سے کم ہے لیکن ملک کی اسی فیصد آبادی کا مسلک شافعی سنی ہے۔ اسی لیے وزیرِ اعظم کا تقرر کرتے ہوئے اکثریتی مسلک سے انتخاب کیا جاتا رہا تاکہ بے چینی جنم نہ لے مگر عملی طور پر ایسا نہ ہوا لیکن کیا اپوزیشن کے آنے سے اکثریت مطمئن ہوگئی ہے؟ اِس سوال کا درست جواب حاصل کرنے کے لیے بھی کچھ انتظار بہتر ہوگا۔ موجودہ حالات میں بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی اور ملک بدری کو اقتدار کی تبدیلی کہیں یا انقلاب کا نام دیں حقیقت یہ ہے کہ شام کے موجودہ حالات سے گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
ہیت التحریر شام کے سربراہ کا نام ابومحمد الجولانی ہے۔ اِن کا خاندان حکومتی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر شام سے نقل مکانی کر چکا۔ الجولانی کا گروہ ماضی میں کچھ عرصہ القائدہ سے بھی منسلک رہا اور عراق میں امریکہ کے خلاف لڑائی میں حصہ بھی لیا۔ اِس دوران الجولانی گرفتار ہوکر پانچ برس تک جیل رہے۔ پھر یہ گروہ 2017 میں القائدہ سے الگ ہوگیا اور اپنی تمام تر توجہ شام میں اقتدار کی تبدیلی پر مرکوز کر لی اور امریکی اہداف کے حصول میں معاون بن گئے۔
ایک بات جو بہت ہی حیران کُن ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی شدت پسند گروہ تشکیل پاتا ہے اُس کی توجہ مسلم مملکتوں کو تاراج کرنے پر کیوں ہوتی ہے؟ اِس سوال کا جواب مسلم رہنمائوں کو ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ اگر درست جواب حاصل ہوگیا تو ممکن ہے مستقبل میں مزید مسلم ممالک تباہی سے بچ جائیں۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اسماعیل ہانیہ اور حسن نصراللہ کا مسلک الگ الگ تھا لیکن اسرائیل نے کسی قسم کی تفریق کیے بغیر مسلمان جان کر مار دیا۔
اسد خاندان روس اور ایران کا بااعتماد دوست رہا ہے۔ روس کا جو واحد نیول بیس بیرونِ ملک ہے وہ بحیرہ روم کے ساحل پر شام میں طرطوس کی بندرگاہ پر ہے جبکہ لبنان کی حزب اللہ کو ایران ہتھیار وغیرہ براستہ شام ہی پہنچاتا رہا ہے مگر روس اِس وقت یوکرین جنگ میں مصروف ہے جبکہ ایران معاشی و جوہری حوالے سے مسائل کا شکار ہے اسی بناپر دونوں ہی اپنے اتحادی کو کمک نہیں پہنچا سکے اور بشار الاسد کے چوبیس سالہ اقتدار کا سورج پُراسرار حالات میں غروب ہوگیا جس کے بعد خطے میں اسرائیل کو للکارنے والا کوئی ملک نہیں رہا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہونے مقابلہ کا خطرہ ختم ہوتے ہی شام سے 1974 میں طے شدہ جنگ بندی معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے حملے تیز کر دیئے ہیں اور شام کے خلاف فضائی کے ساتھ زمینی کارروائی بھی شروع کردی ہے۔ اُس نے دفاعی اعتبار سے اہم ترین گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا ہے جس سے اِس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ موجودہ حالات بنانے میں پسِ پردہ کوششیں ہوئی ہیں تاکہ کسی خون خرابے کے بغیر ہی نہ صرف بشار الاسد اقتدار سے الگ ہو جائیں بلکہ عسکری طاقت بھی تتربتر ہوجائے وگرنہ ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ چودہ برس سے اپوزیشن کا راستہ روکنے والی طاقتور سرکاری فوج بیرونی حملے کا مقابلہ کیے بغیر ہی ہتھیارڈال کربھاگ جائے۔
شام میں اپوزیشن کی پیش رفت کئی حوالوں سے غیر متوقع ہے گزشتہ ہفتے جب شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر قبضے ہوا جو دفاعی حوالے سے شامی حکومت کا اہم ترین شہر ہے کیونکہ یہاں فوج کا آرٹلری سنٹر ہے۔ 2016 میں جب اِس شہر پر اپوزیشن نے قبضہ کیا تو چند ہی ہفتوں میں حکومت نے روس اور ایران کے عسکری تعاون سے واگزار کرا لیا لیکن حالیہ قبضے کے دوران حکومت نے شہر واگزار کرانے میں دلچسپی لینے اور صفیں درست کرنے کی بجائے ایسی خاموشی اختیار کر لی جس سے شکست تسلیم کرنے کاتاثر ملا۔
امریکہ اور اسرائیل دونوں اسد خاندان کے مخالف ہیں۔ امریکی ناپسندیدگی کی وجہ روس کی طرف جھکائو رکھنا ہے جبکہ اسرائیلی خفگی لبنان میں تشکیل پانے والی حزب اللہ کی حمایت کرنا ہے۔ عرب بہار کے نتیجے میں جب عوامی بیداری ہوئی اور لوگ بادشاہت کی بجائے جمہوریت کی خواہش کرنے لگے تو روس اور ایران نے شامی حکومت کی بہت مدد کی جس کی بدولت بشار الاسد کا اقتدار برقرار رہا مگر اب ملک چھوڑنے اور بیرونی حملوں کے باوجود روس محض اِتنا کر سکا کہ شامی مسئلہ پر غور کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا ہے۔
شاید اِس کی وجہ بھی یہ ہے کہ اسرائیل نے شامی بحریہ کے مرکز کو نشانہ بنایا ہے اہم ترین محلِ وقوع کی وجہ سے شام پر امریکہ اور اسرائیل کی نظر توعرصے سے تھی اب جاکر اپوزیشن کے تعاون سے انھوں نے تو مقصد حاصل کرلیا ہے اور اہم ترین اتحادی کھونے سے روس اور ایران کو بدترین ہزیمت ہوئی ہے مگر ایک سوال بہت غور طلب ہے کہ الجولانی جس پر امریکہ نے دس لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کر رکھا ہے اُسے اقتدار دلانے میں دلچسپی اور شامی ٹھکانوں پر امریکی بمباری سمجھ سے بالاتر ہے۔
اسرائیلی اور امریکی فضایہ دونوں نے شام کے دفاعی مراکز پر تابڑ توڑ حملے شروع کررکھے ہیں۔ اِس دوران اپوزیشن بھی استعمال ہوئی مگر بشار الاسدکی طرف سے اقتدار سے علیحدگی کے بعد مزید حملوں کا کوئی جواز نہیں رہا ایک ہی وجہ سمجھ ہوسکتی ہے کہ شام کی رہی سہی دفاعی قوت ختم کرنا مقصود ہے تاکہ مستقبل میں اِس ملک سے اسرائیل کے خلاف کسی نوعیت کی کارروائی کا کوئی امکان تک نہ رہے۔