سہ فریقی مذاکرات اور پاک افغان زمہ داریاں

دہشت گردی سے صرف پاکستان ہی متاثر نہیں بلکہ یہ ناسور پورے خطے کے امن، استحکام اور ترقی کی راہ میں ایسی رکاوٹ ہے جو غربت و افلاس اور بے روزگاری کی اہم وجہ ہے۔ روزِ روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے کہ چاہے کالعدم ٹی ٹی پی جیسے شدت پسند گروہ ہوں یا پھر بی ایل اے اور اُس کا زیلی گروپ مجید بریگیڈ، قوم پرستی کا لبادہ اُڑھ کر دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ اِن کا یجنڈا قتل وغارت سے خوف وہراس پھیلانا ہے تاکہ تجارتی و معاشی سرگرمیاں نہ ہوں۔ یہ تنظیمیں افغان حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔
اب جبکہ امریکہ نے بی ایل اے اور اِس کے زیلی گروپ مجید بریگیڈ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے تو کچھ بہتری آنے کی توقع ہے۔ نیز اِن تنظیموں کو بھارت سے ہتھیار، تربیت اور مالی مدد کی صورت میں ملنے والی بیرونی کمک کاخاتمہ ہو سکتا ہے۔ کابل میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات بہت اہم ہیں پاک افغان قیادت وعدوں کے مطابق ذمہ داریاں پوری کرتی ہے تو یہ امن وترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ سہ فریقی مذاکرات میں پاک چین و افغان وزرائے خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششیں، تجارتی تعلقات کو مزید وسعت دینے کے علاوہ معاشی تعاون کے عزم کا اعادہ کیا ہے جس سے اُمید ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کی جاری مُہم کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔
چین اور پاکستان ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اِس لیے معاشی، تجارتی اور دفاعی تعاون فروغ پزیر ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بہتر اور قریبی بنانے میں بھی چین کا اہم اور فعال کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں برس مئی کے آخری عشرے سے دونوں ملکوں کے سیاسی اور اقتصادی تعلقات میں بتدریج بہتری دیکھنے میں آئی ہے اور تجارتی سرگرمیوں میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے لیکن اِس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ سلامتی کے حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی اور مجموعی تعلقات میں نمایاں بہتری کا فقدان رہا جس کی وجہ سے پاکستان کے افغانستان سے تحفظات ختم نہ ہوئے۔ اب دونوں ممالک کو چین نے موقع دیا ہے کہ سی پیک کو وسعت دینے اور دہشت گردوں کی سرکوبی میں تعاون کریں۔ طالبان قیادت اِس موقع سے فائدہ اُٹھا کر افغانستان میں طویل ہوتے غربت و افلاس کے سائے ختم، جبکہ دیگر ایسے تنازعات کو بھی حل کر سکتی ہے جو دونوں ممالک میں بداعتمادی کا باعث ہیں۔
جس طرح چین کے پاکستان کے ساتھ معاشی اور دفاعی مفادات ہیں ہمسایہ ہونے کے ناطے وہ افغانستان میں بھی امن وترقی کا خواہاں ہے۔ چین نے پاک افغان قیادت کو معاشی منظر نامہ تبدیل کرنے کا نادر موقع دیا ہے لیکن ایسا تبھی ممکن ہے جب علاقائی سلامتی کے حوالے سے افغانستان صرف وعدے نہ کرے بلکہ عملی ذمہ داریاں بھی پوری کرے۔ خطے میں امن قائم ہوگا تو ہی سی پیک جیسے معاشی منصوبوں کی افغانستان تک توسیع ہو سکتی ہے۔ طالبان قیادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علاقائی تجارت بڑھے گی تو عوامی سطح پر خوشحالی کا سفر تیز ہوگا مگر اِس کے لیے ایسے عملی اقدامات ناگزیرہیں جس سے پاکستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک کو یقین آئے کہ افغان سرزمین اب دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی، وگرنہ سہ فریقی مذاکرات سے وابستہ امن کی توقعات پوری نہیں ہوں گی اور سیاسی و تجارتی پیش رفت کا دورانیہ بھی مختصر ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے ساتھ چینی کردار سے سہ فریقی مذاکرات میں وسعت آئی ہے۔ چین چاہتا ہے کہ ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے دہشت گردوں کا صفایا ہو اور طالبان اپنی سرزمین کو پاکستان مخالف گروہوں کو استعمال نہ کرنے دیں نیز پاکستان عالمی سطح پر ایسی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنے جن سے طالبان حکومت سفارتی حوالے سے تنہا ہو۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ طالبان انتظامیہ نے چینی ہدایات قبول کرنے لگی ہے کیونکہ کابل میں اپنا سفارتخانہ بند نہ کرکے اُس نے طالبان کو عالمی سفارتی تنہائی سے بچایا۔ یہی فیصلہ روس سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا موجب بنا ہے۔
چین کا فیصلہ اُس کے اپنے مفادات کے لیے بھی بہتر ثابت ہوا ہے اُس کی کمپنیاں خطرات سے محفوظ، افغانستان سے معدنیات نکالنے میں مصروف ہیں۔ اب بھی چینی دباؤ کے نتیجے میں ہی افغان سرزمین پر طالبان کی طرف سے دہشت گردوں پر سختی ہورہی ہے چاہے سی پیک منصوبوں کے استحکام کے لیے چین نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے مگر پاکستان کی طرح افغانستان کا معاشی مستقبل بھی دہشت گردی کے خاتمہ سے منسلک ہے کیونکہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے سمیت جیسے شدت پسند اور قوم پرست گروہ جو آجکل پاکستان کے امن کے لیے بڑا خطرہ ہیں وہ مستقبل میں افغانستان کے لیے بھی بدامنی درد سر بن سکتے ہیں کیونکہ دہشت گرد کسی کے مستقل دوست نہیں ہوتے بلکہ مالی طور پر مضبوط اور عددی اعتبار سے طاقتور ہو کر سرپرستوں سے بھی ٹکرا سکتے ہیں۔ لہذا طالبان اگر پورے ملک پر اپنی رَٹ چاہتے ہیں تو امن کے حوالہ سے دہشت گردوں کی سرکوبی کے حوالہ سے اپنی یقین دہانیاں پوری کرناہوں گی وگرنہ سہ فریقی مذاکرات مقاصد کے حوالہ سے لاحاصل ثابت ہوں گے۔
ایسے حالات میں جب کئی ممالک کے معدنی ذخائر خاتمے کے قریب ہیں پاکستان سے زیادہ تر معدنیات نکالنے کا عمل شروع بھی نہیں ہو سکا ماہرین کے اندازوں کے مطابق اِن معدنیات کا تخمینہ ٹریلین ڈالرز میں ہے جن سے پاکستان معاشی استحکام کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔ جس طرح چین، روس سمیت دیگر ممالک کو افغانستان اپنی معدنیات بیچ کر آمدن حاصل کر رہا ہے پاکستان بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو معدنیات ملکی ترقی کی کلید بن سکتی ہیں۔
خوش قسمتی سے چین اور امریکہ کی کئی بڑی اور معروف کمپنیاں شراکت داری پر آمادہ و تیار ہیں۔ بڑی رکاوٹ بدامنی ہے جسے ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اب جبکہ چینی دباؤ کی وجہ سے مجبور ہوکر طالبان اپنا رویہ مثبت بنانے کی یقین دہانی کرارہے ہیں تو دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی سمیت بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کے خلاف فوری طور پر فیصلہ کُن کاروائی کا آغاز کردینا چاہیے۔ اِس حوالے سے کسی سے نرمی یا رحمدلی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں دہشت گردوں کے خلاف چین اور امریکہ سے حاصل ہونے والا تعاون تبھی فائدہ مند ہوسکتا ہے اگر بروقت فیصلے کرنے میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔
پاکستان معاہدے کرتے ہوئے اپنا مفاد مقدم رکھے اور توازن کی پالیسی جاری رکھے اور جب کبھی امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی نوبت آئے تو چین کو ترجیح دی جائے کیونکہ بھارت کے خلاف دفاع مضبوط بنانے اور افغان طالبان کو راہ راست پر لانے میں اُس کا کلیدی کردار ہے جبکہ امریکہ نے ایف سولہ دیتے ہوئے مشروط کر دیا تھا کہ بھارت پر حملے میں استعمال نہیں کیا جا سکتا نیزا فغانستان سے انخلا کے بعد بھی پاکستان کو یکسر نظرانداز کر دیا تھا مگر چین نے معاشی طور پر دیوالہ ہونے سے بچانے کے ساتھ دفاعی ٹیئکنالوجی کی منتقلی میں بھی کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔ سہ فریقی مذاکرات میں بھی پاکستان کے مفاد کا تحفظ کیا ہے اب بھارت بھی چین کے قریب ہونے کی کوشش کررہا ہے جس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

