ایس سی او اور پاک بھارت روابط کا امکان
جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں سیاسی استحکام ہمیشہ خواب رہا ہے جس کی وجہ اندرونی اسباب کے ساتھ بیرونی مداخلت ہے تاکہ یکساں معاشی ترقی کا راستہ روکا جا سکے۔ بھارتی قیادت عالمی قوتوں کی آلہ کارہے ایسی خواہش رکھنے والی عالمی قوتیں اپنے مقاصد میں بڑی حدتک کامیاب ہیں۔ نہ صرف علاقائی تعاون تنظیم (سارک) اِس وقت مکمل طور پر غیر فعال ہے کیونکہ تنظیم کے ممبر ممالک کا ایک دہائی سے کوئی اجلاس نہیں ہو سکا بلکہ شراکت داری اور باہمی تجارت کا حجم بھی تشویشناک حدتک کم ہوچکا ہے۔
اگر عالمی طاقتیں اپنے مفادات تک محدود رہنے کے بجائے امن اور انصاف کو بھی ترجیح بناتیں تو یہ بدقسمت خطہ معاشی ترقی کے حوالے سے بدحال نہ ہوتا۔ نیز غربت و بے روزگاری کی سطح بھی کم ہوتی مگر عالمی دھڑے بندی نے علاقائی ممالک میں تعاون کی راہیں محدود کررکھی ہیں اور بات چیت کا عمل بھی تعطل کا شکار ہے۔ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایوں پاکستان اور بھارت میں 2019 سے سفارتی تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہیں اور تجارتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر۔
پاکستان تو پھر بھی بات چیت کا عمل شروع کرنے کی آرزو کرتا ہے لیکن بھارتی طرزِ عمل حوصلہ افزا نہیں مسئلہ کشمیر کے کسی بھی منصفانہ حل سے بچنے کے لیے بات چیت سے گریزاں ہے اگر متعصب اور جنونی مودی حکومت اگست 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو منسوخ نہ کرتی جس کے تحت کشمیر کو کسی حدتک جزوی خود مختاری حاصل تھی تو آج جیسے حالات ہر گز نہ ہوتے، مگر عالمی طاقتوں کی بے جا ناز برداری نے بھارت کو ہٹ دھرمی کا راستہ دکھایا اب تو اکثر تجزیہ کار متفق ہیں کہ سارک کی طرح پاک بھارت سرد مہری سے شنگھائی تعاون تنظیم کو بھی مقاصد حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہو سکتا ہے۔
رواں ماہ پندرہ اور سولہ اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوگا۔ چین اور روس اِس تنظیم کے بانی ممالک ہیں جس نے مختصر وقت میں ممبر ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے نہ صرف باہمی تعاون میں حیران کُن اضافہ ہوا بلکہ تجارت اور شراکت داری بڑھنے سے ماضی کی تلخیاں بھی کم ہوئیں جسے معاشی ماہرین حوصلہ افزا قرار دہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت نے اِس تنظیم کی جون 2017 میں مکمل رُکنیت حاصل کی تو ایسی امیدیں وابستہ کی جانے لگیں کہ شاید بات چیت سے دونوں جوہری ہمسائے اپنے اختلاف و تنازعات حل کرلیں مگر ایسا نہیں ہو سکا اسلام آباد ایس سی او سربراہ کانفرنس سے بھی پاک بھارت روابط بڑھنے کے امکانات کم ہیں۔
چین اور روس کی شمولیت اور سربراہی سے شنگھائی تعاون تنظیم عالمی سطح پر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ چین دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت ہے تو روس کی دفاعی قوت بھی مسلمہ ہے جو یوکرین میں نیٹو جیسے دنیا کے سب سے بڑے دفاعی اتحاد سے تنہا برسرِ پیکارہے۔ چین اور روس دونوں ہی دنیا میں مزید نئے دوستوں کی تلاش میں ہیں۔ اِس میں شنگھائی تعاون تنظیم اُن کی معاون ہے۔
جنگ و جدل کا ماحول بنانے، عالمی تنازعات حل کرنے میں عدم دلچسپی اور امریکہ کے غیر منصفانہ رویے سے چین و روس کو نئے دوست تلاش میں آسانی ہے جس کی ایک مثال پاک روس تعلقات ہیں۔ چند دہائی قبل دونوں کا شمار ایک دوسرے کے بدترین حریف ممالک میں ہوتا تھا لیکن ایس سی او نے اِس حد تک قریب کردیا ہے کہ باہمی تجارت کو ڈالر سے الگ کرنے میں کامیاب اور مال کے بدلے مال جیسا تجارتی معاہدہ کر چکے ہیں، لیکن بھارت کا سرد مہری پر مبنی رویہ باہمی تعاون کی راہ کو غیر ہموار کر سکتا ہے حالانکہ جنوب مشرقی ایشیا ایک ایسا خطہ ہے جو نہ صرف گنجان آباد ہے بلکہ ترقی کرنے کے قدرتی مواقع سے بھی بھرپور ہے جس سے فائدہ اُٹھانا نہایت آسان ہے کسی ایک ملک کی خواہش پرسب کچھ قربان کردینا دانشمندی نہیں۔
گزرے دس برس کے دوران بھارت نے ہر ممکن کوشش کی کہ نہ صرف پاکستان کے ساتھ بات چیت کے عمل کی حوصلہ افزائی نہ ہو بلکہ تجارت و تعاون کی راہیں بھی مسدود کی جائیں۔ 2017 میں جب قازق صدر نور سلطان نذربائیوف نے پاکستان اور بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر بناتے ہوئے خوش آمدید کہا تو امن پسند قوتوں کے لیے یہ بہت پُر مسرت لمحہ تھا کیونکہ تنظیم کی استعداد سے پاک بھارت کو اختلافات پُرامن طور پر ختم کرنے اور ترقی کے وسیع مواقع ملنے کا مکان پیدا ہوگیا تھا۔ ممبر ممالک میں معدنی اور توانائی جیسے وسائل کے وسیع مواقع ہیں لیکن اب توقعات پر اندیشے حاوی ہوتے دکھائی دیتے ہیں اگر پاک بھارت کشیدگی ختم نہیں ہوتی تو سارک کے بعد ایس سی او کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ جب بھارت نے پاکستان سے ہر سطح پر بات چیت کا روزن بند کر رکھا ہوتو ظاہرہے ایسے حالات میں تعاون کے حوالے سے پیش رفت ہوناممکن نہیں۔
رواں ماہ اسلام آباد میں ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرنے کا باعث بنے گا؟ اِس حوالے سے تجزیہ کار مایوسی کا شکار ہیں۔ دس برس کے عرصے میں سشما سوراج کے بعد جے شنکر دوسرے وزیرِ خارجہ ہیں جو پاکستان آرہے ہیں۔ اِس دورے کا بھی شاید بھارت نے مجبوراََ فیصلہ کیا ہے مبادا پاکستان کو اپنا بیانیہ پروان چڑھانے کا موقع ملے مگر دورہ پاکستان سے قبل ہی دو طرفہ تعلقات کے حوالہ سے بات چیت کے امکان کو مسترد کر دیاگیا ہے۔
سبرامینم جے شنکر کا یہ بیان بھارت کی روایتی پالیسی ہے جس کا مقصد پاکستان کو غیر اہم ثابت کرنا ہے لیکن کیا چین اور روس تنظیم کو غیر فعال کرنے کی کوششوں کو نظر انداز کر دیں گے؟ ایسا ممکن نہیں بلکہ اگر بھارت طرزِعمل تبدیل نہیں کرتا تو چین کے بعد روس سے بھی اُس کے تعلقات متاثر ہونے کا امکان پیدا ہوجائے گا لہٰذا بہتر یہی ہے کہ بھارت تنازعات حل کرنے کے لیے مثبت اور تعمیری بات چیت شروع کرنے میں دلچسپی لے۔
بھارتی قیادت کو ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ آج وہ امریکہ کے جس منظورِ نظر کے منصب پر فائزہے اِس پر پاکستان کئی دہائیوں تک فائز رہ چکا مگر امریکہ نے ہمیشہ اپنی ضرورت کے مطابق تعلقات رکھے جونہی ضرورت پوری ہوئی تعلقات میں بھی سردمہری آتی رہی۔ جب ہمسائے تبدیل نہیں کیے جا سکتے اورنہ ہی جوہری قوت کو ڈرایا جا سکتا ہے تو پھر تنازعات کو حل کرنے کے لیے بامقصد مذاکرات سے کیوں پہلو تہی کی جا رہی ہے؟
کشمیر اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ایک متنازع علاقہ ہے جس کے لیے دونوں ممالک متعددجنگیں بھی لڑ چکے لیکن مسئلہ ہنوز حل طلب ہے شنگھائی تعاون تنظیم نے پاکستان اور بھارت کو اپنے مسائل بات چیت سے حل کرنے کا موقع دیا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ موقع سے فائدہ اُٹھایا جائے اگربھارت بات چیت کے عمل میں دلچسپی نہیں لیتا تو یہ ایس سی او کے اغراض و مقاصد کی نفی کرنے کے مترادف ہوگا۔