پاک ترکیہ دوستی اور حقائق

ملک کی جذباتی اکثریت جذباتی اندھا اعتماد کرتی ہے لیکن اب سُستی بھی ہمارے مزاج کا حصہ بننے لگی ہے۔ یہ سُستی کا ہی نتیجہ ہے کہ منصوبہ بندی سے گریز کرتے ہیں اور ہر وقت شارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں۔ لگتا ہے حکومتی تشکیل میں بھی ایسے جذباتی اور سُست افراد کو ترجیح دی جاتی ہے جو شیخ چلی کی طرح تصورات میں گم رہتے ہیں اور خودکو ملک کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔
کاش دعوے کرنا اور خواب دکھانا چھوڑ کر عملی طور پر تباہ حال معیشت کی بحالی کے لیے کام کیا جائے مگر لگتا ہے عدم منصوبہ بندی اور دوست ممالک کی چالاکیوں کی وجہ سے پاکستان غیر ملکی سامان کی منڈی بنتاجارہا ہے۔ یہ دوست ممالک اپنا سامان تو پاکستان کو فروخت کرتے ہیں لیکن جواب میں پاکستان سے خریداری نہیں کرتے، مبادا پاکستان کا بھلا ہو۔ امریکہ ایسا ملک ہے جس سے تجارت میں پاکستان کا فائدہ ہے وگرنہ چین ہو یا ترکیہ، دونوں سے تجارت میں پاکستان خسارے میں ہے۔
پاکستان کا حکمران طبقہ چین کے بعد آجکل ترکیہ پر بھی فریفتہ ہے۔ یہ طبقہ طیب اردوان کو مسلم امہ کا رہنما سمجھتا ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ حکمرانوں کی پالیسیاں اپنے ملک کے مفاد کے تابع ہوتی ہیں جہاں مفاد نہ ہو یہ حکمران قدم آگے نہیں بڑھاتے۔ غزہ کی صورتحال دیکھ لیں سارا شہر تباہ کرنے کے ساتھ بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں اور خواتین کی بھاری تعداد کو رزقِ خاک بنا دیا گیا مگر مسلم اُمہ کے رہنما نے اسرائیل سے تعلقات ختم نہیں کیے تجارت بھی جاری رکھی اور ایسے حالات بنائے جن کی وجہ سے دفاعی حوالے سے شام کے اہم علاقے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل آسانی سے قبضہ کر سکے۔
یہ آئے روز جذباتی بیان بازی تو کرتے ہیں لیکن عالمِ اسلام کو مسائل سے نکالنے کا کوئی ایسا قابل عمل منصوبہ نہیں بننے دیتے جس سے درپیش مسائل حل کرنے میں مدد ملے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ یک طرفہ اُلفت چھوڑ کر ملکی مفاد کا تحفظ یقینی بنائے۔ پاکستان میں قائم ترکیہ کے تعلیمی اِدارے بھاری منافع سمیٹ رہے ہیں، اُس نے ڈراموں کی آڑ میں الگ ثقافتی یلغار کر رکھی ہے، کاروباری شخصیات کو ویزہ سہولتوں کی آڑ میں پاکستانی سرمایہ ترکیہ منتقل ہورہا ہے، اتنی بڑی وارداتوں کے باوجود دوستی کے نعرے سمجھ سے بالا ترہیں۔
پاک ترکیہ تجارتی حجم 1.4 ارب ڈالر کے قریب ہے جس میں پاکستانی برآمدات کاحصہ محض 441 ملین جبکہ ترکیہ کی پاکستان کو برآمدات 917 ملین ڈالر ہیں۔ ترکیہ کی دوگُنا سے زائد برآمدات ظاہر کرتی ہیں کہ تجارتی توازن اُس کے حق جبکہ پاکستان خسارے میں ہے۔ اِس خسارے کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں مگر سب سے بڑی وجہ ترکیہ حکومت کا پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر اٹھارہ فیصد لوکل پروٹیکشن ڈیوٹی لگانا ہے۔ اِس طرح مجموعی ڈیوٹی کی شرح چوبیس فیصد تک جاپہنچنے سے پاکستانی برآمدات کی حوصلہ شکنی ہوئی وہی ڈینم کپڑا جس کی ترکیہ کو برآمدمیں اضافہ دیکھنے میں آرہا تھا اضافی ڈیوٹی سے بڑھتی تجارت یکدم محدود ہوتی گئی۔
ترکیہ نے یہ فیصلہ مقامی ڈینم صنعت کے مفاد میں کیا تھا اِس حوالے سے پاکستان نے کئی بار ترکیہ حکومت کی توجہ مبذول کرائی یہاں تک کہ آزاد تجارتی معاہدے کی پیشکش بھی کی لیکن ترکیہ سے اضافی ڈیوٹی ختم نہ کرائی جا سکی میاں شہباز شریف کی گزشتہ حکومت میں کافی سنجیدہ کوشش کی وزیرِ تجارت نوید قمر نے ایک ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط بھی کیے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ترکیہ نے اپنی مقامی مارکیٹ میں پاکستانی ڈینم مصنوعات کو ڈیوٹی فری رسائی دینے سے صاف انکار کردیا۔ اب تو صورتحال ہے کہ پاکستانی ڈینم کپڑے کی ترکیہ کو برآمد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، اِس کے باوجود پاکستانی حکمرانوں کی ترکیہ سے جذباتی وابستگی کم نہیں ہو سکی بلکہ برقرار ہے۔
امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے عائد کی جانے والی دفاعی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان نے متبادل پر انحصار بڑھا دیا ہے۔ اِس حوالے سے چین اور ترکیہ اُس کی ترجیحی ہیں۔ بھارت کو مصروف رکھنے کے لیے مضبوط پاکستان، چین کی ضرورت ہے، اِس لیے نہ صرف دفاعی سازو سامان فراہم کررہا ہے بلکہ اِس میدان میں پاکستان کو خود کفیل بنانے کے لیے بھی کوشاں ہے۔ خلائی تعاون کے ساتھ چینی تعاون سے پاکستان کی طیارہ سازی اور میزائل سازی کی صنعت ترقی کررہی ہے لیکن ترکیہ صرف تیار سامان فروخت کرتا ہے۔
پاکستان نے ترکیہ سے دفاعی سازو سامان کی خریداری کے تین ارب ڈالرکے معاہدے کر رکھے ہیں جس میں سے 1.5 ارب ڈالر کے تیس فوجی ہیلی کاپٹر اور جاسوس ڈرونز خریدے جائیں گے جبکہ جنگی طیاروں ایف سولہ کی استعداد بڑھانے پر پچھتر ملین جبکہ ساڑھے تین سو ملین ڈالر آگسٹا آبدوز کو جدید بنانے پر خرچ ہوں گے۔ دوصد کے لگ بھگ پاکستانی انجینئرز کا ترکیہ ماہرین سے مہارت حاصل کرتا ہے کہ پاکستان بہت جلد ترکیہ کے نیشنل فائٹر جیٹ پروگرام میں شامل ہونے والا ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو ترکیہ سے طیاروں کی خریداری کے خطیر رقوم کے بڑے معاہدے متوقع ہیں۔
کوئی ابہام نہیں کہ امریکہ، روس اور چین کے بعد ترکیہ کی دفاعی صنعت تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور اُس کے جدید آلات کی دنیا میں مانگ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دفاعی آلات کی تیاری میں مصروف ترک کمپنیوں کی تعداد اڑھائی ہزار سے تجاوز کرچکی ہے مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کو دفاعی سامان فروخت کرنے کے ساتھ ترکیہ ٹیکنالوجی منتقل کرنے سے کیوں ہچکچاتا ہے؟ جب وہ پاکستانی افواج کے ساتھ مشقوں میں حصہ لیتا اور مہارت و تجربات کے تبادلے کی بات کرتا ہے تو پاکستان سے ٹینک، تھنڈر طیارے خریدنے کیوں گریزاں ہے؟
ترکیہ چاہتا ہے ساٹھ فیصد تک پہنچنے والے افراطِ زر کا خاتمہ ہو لیکن کیا اِس کے لیے پاکستانی معیشت کی قربانی ناگزیرہے؟ اگر وہ اگلے چند برس کے دوران دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کی تگ و دو میں ہے توکیا یہ پاکستان جیسے ملک کا استحصال کیے بغیر نا ممکن ہے؟ طیب اروان کے حالیہ دورے کے دوران سیاحت، دفاع، آئی ٹی، انفراسٹرکچر اور تعلیم جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے چوبیس معاہدوں اور مفاہمتوں پر دستخط ہوئے باہمی تجارت پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا، حالانکہ حالات کا تقاضا ہے کہ تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے سے زیادہ ترکیہ سے مال کے بدلے مال کی تجارت کرنے پر بات کی جائے۔
ترکیہ کے صدرکا دوروزہ دورے کے دوران اسلام آباد میں صدر، وزیرِ اعظم اور عسکری قیادت نے پُر تپاک خیر مقدم کیا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ترکیہ بھی تجارتی توازن کی خواہش اور کوشش کرتا ہے یا ماضی کی طرح اپنے تجارتی سامان کی منڈی جان کر محض رسمی گفتگو سے مطمئن رکھے گا۔