Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Pak Iran Rawabit Ka Farogh

Pak Iran Rawabit Ka Farogh

پاک ایران روابط کا فروغ

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے رواں ماہ کے آغازپر دو روزہ پاکستانی دورہ کیا جو خطے میں نئی ہونے والی صف بندی کی وجہ سے بہت اہمیت کاحامل ہے۔ یہ اُن کا صدر منتخب ہونے کے بعد پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ ہے جسے علاقائی اور عالمی امور پر پاک ایران بڑھتی قرابت داری کا عکاس کہا جا رہا ہے۔ اسرائیلی حملوں نے پہلی بار ایران کو یہ احساس دلایا ہے کہ پاکستان ایسا بے لوث ہمسایہ ہے جو ایران کی وحدت و سلامتی پر یقین رکھتا ہے اِس لیے اِس کی قدر کرنا ضروری ہے۔

قبل ازیں صورتحال کافی مختلف رہی مقبوضہ کشمیر سمیت کئی عالمی تنازعات پر ایران نے پاکستانی مفادات کے برعکس موقف اختیار کیا جس سے بھارت کی سہولت کاری ہوئی حالانکہ یکساں مذہبی و ثقافتی اقدار کا تقاضا پاک ایران قریبی دوستی ہے مگر پاکستان کی تمام تر پُر خلوص دوستی کے باوجود سچ یہ ہے کہ ایران کی طرف سے بداعتمادی کا عنصر ختم نہ ہوسکا اسی وجہ سے سفارتی تعلقات وقفے وقفے سے ناہمواری کا شکار رہے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف پاک بھارت جھڑپوں کے فوری بعد رواں برس 27 مئی کو ایران گئے لیکن توقعات کے مطابق پذیرائی نہ ملی پھر ایران اور اسرائیل کی جون کے وسط میں بارہ روزہ کشیدگی سے علاقائی منظر نامہ ہی بدل گیا اور عشروں سے بھارتی طرفداری کو اولیں ترجیح رکھنے والی ایرانی قیادت کو یہ سبق ملا کہ اصل دوست اور دشمن کی پہچان کی جائے۔ یہ سبق یاد کرانے میں بھارتی کردار بھی ہے جس نے اسرائیلی جارحیت کی عالمی سطح پر مذمت کرنے کی بجائے کُھل کر حمایت کی اور اقوامِ متحدہ میں بھی ایران کا ساتھ دینے سے اجتناب کیا جس سے پہلی بار بھارت سے بدظن ہو کر ایران نے پاکستان کا رُخ کیا اور شراکت داری بڑھانے کی ضرورت کو سمجھا۔

اب اچھی ہمسائیگی کے ساتھ تعلقات میں بھی کچھ خلوص محسوس ہونے لگا ہے ایک ایسا جوہری پاکستان جو روایتی دفاعی طاقت میں بھی ہر قسم کی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، سے تعلقات اُستوار کرنے کی ضرورت خطے کا ہر ملک ضرورت محسوس کرنے لگا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے خوش آئند منظرنامہ ہے کیونکہ نئے منظر نامے سے پاکستان کے لیے معاشی مواقع میں اضافہ ہوگا جس سے فائدہ اُٹھا کر دفاع کی طرح پاکستان اپنی معیشت کو بھی مضبوط اور مستحکم بنا سکتا ہے۔

اسرائیلی حملوں نے یک لخت پاک ایران قیادت کو یکجا کر دیا ہے دونوں طرف کی قیادت ایک دوسرے کی طرف جس تیزی سے بڑھنے لگی ہے سے واضح ہے کہ دونوں کو خطے کے بدلتے حالات کا ادراک ہے۔ اِس تناظر میں پیش بندی کے طور پر صفیں درست کرنا دانشمندانہ عمل ہے۔ اگر پاکستان پُرامن جوہری توانائی کا حصول ایرانی حق قرار دے کر حمایت کرتا ہے تو ایران بھی اب قدرے کُھل کر کہنے لگا ہے کہ متحد رہنے سے ہی ہماری خودمختاری قائم رہے گی۔ یہ نہ صرف دونوں طرف سے ایک مثبت پیش رفت ہے بلکہ مستقبل میں بڑھتی شراکت داری کی طرف اِشارہ ہے جس سے بداعتمادی ختم کرنے کے ساتھ مشترکہ دشمن کی چالیں سمجھنے میں مدد ملے گی۔

پاک ایران دفاعی اور معاشی روابط ناگزیر ہیں یہ بات جتنی جلدی دونوں سمجھ لیں اتناہی بہتر ہے سلک روڈ منصوبہ میں شمولیت کی خواہش اور گوادر و چاہ بہار کویکجا کرنے میں ایرانی دلچسپی سے ظاہر ہے کہ وہ بھارت سے ناخوش اور متبادل کے حصول کے لیے کوشاں ہے مگر اچھے نتائج کے لیے ضروری ہے کہ ایرانی قیادت بھارتی سرمایہ کاری اور اُس کی ایجنسیوں کو دفاعی تعاون کے نام پر دی سہولتیں محدود کرے کیونکہ حالات شاہد ہیں کہ بلوچستان میں متحرک شرپسند عناصر کو مالی تعاون و تربیت کے ساتھ ہتھیاروں کی فراہمی ایرانی راستے سے ہی بھارت کرتا ہے جس کا ثبوت کلبھوشن یادیو کی صورت میں موجود ہے۔

پاک ایران بارہ معاہدوں سے روابط کے فروغ کی تصدیق تو ہوتی ہے لیکن آزادانہ تجارت کے معاہدے اور ایک دوسرے پر انحصار بڑھانے میں امریکی پابندیاں رکاوٹ بن سکتی ہیں جس کے لیے تریاق حکمت عملیِ درکار ہے جو بظاہر ناپید ہے کیونکہ پاکستان تو اپنی ضروریات کے لیے ایران پر انحصار بڑھا رہا ہے مگر جواب میں ویسی گرم جوشی کا فقدان ہے۔ اِس تناظر میں دوطرفہ تجارت سالانہ آٹھ سے دس ارب ڈالر کرنے کے یکساں فوائد خواب لگتے ہیں کیونکہ پہلے بھی تجارتی توازن ایران کے حق میں جبکہ پاکستان کو بدترین خسارے کا سامنا ہے۔

صرف گزرے پانچ برسوں کے اعداد و شمار پر ہی طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو پاکستانی برآمدات محض ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر کے آس پاس رہیں بلکہ دو برس میں تو صفر بھی رہیں جبکہ ایران سے پاکستانی درآمدات ڈیڑھ ارب ڈالر سے کچھ ہی کم رہیں یہ حوصلہ افزا پہلو نہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ دونوں ممالک بڑے تجارتی فرق کو کم کریں جس کا حل مال کے بدلے مال کا معاہدہ ہے اِس طرح امریکی پابندیوں کے باعث بینکنگ چینلز نہ ہونے کے باوجود تجارتی سرگرمیاں بحال رہیں گی۔ ریل و دیگر زمینی راستوں سے تجارتی نقل و حمل کے اخراجات بھی کم کیے جاسکتے ہیں ٹیرف میں کمی، تجارتی رکاوٹوں کے خاتمے اور کاروباری شعبہ میں قریبی تعاون سے دوطرفہ اعتمادسازی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

پاک ایران ثقافتی، مذہبی، لسانی اور جغرافیائی رشتے عشروں پر محیط ہیں دونوں کو نو سو کلومیٹر سے زائد طویل سرحد جدا کرتی ہے جس کے ایک طرف پاکستانی بلوچستان جبکہ دوسری طرف ایرانی بلوچستان سیستان ہے یہاں نگرانی کا عمل کمزور ہونے کی وجہ سے غیر قانونی نقل و حمل عام ہے اسی بنا پر یہاں اسمگلنگ سے وابستہ گروہوں اور دہشت گرد عناصر کو محفوظ ٹھکانے حاصل ہیں۔ یہ دہشت گرد پاکستانی بلوچستان اور ایرانی سیستان کے امن کے لیے مستقل مہیب خطرہ ہیں۔

پاک ایران خفیہ معلومات کے تبادلے کے باوجود یہ خطرہ پوری شدت سے موجود ہے باڈر مینجمنٹ، تجارتی منڈیوں کے قیام اور کراسنگ پوائنٹس بنانے کے باوجود کئی پہلو ہنوز غیر دستاویزی ہیں جس سے دونوں ممالک کے تعلقات کے ساتھ آمدن بھی متاثر ہوتی ہے جسے مشترکہ نگرانی کا طریقہ کار بناکر عملدرآمد کرنے سے ختم کیاجا سکتا ہے۔ غیر قانونی نقل و حمل اور اسمگلنگ پر قابو پانے کے ساتھ دونوں طرف متحرک دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے ایک مربوط اور جامع حکمتِ عملی وقت کا تقاضا ہے۔

ایران کے پاس نہ صرف تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہیں بلکہ اضافی بجلی بھی ہے جبکہ پاکستان کو بدترین توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان کی بڑی صارف منڈی کو تیل و گیس کے ساتھ فاضل بجلی دیکر ایران اپنے معاشی مسائل پر قابو پا سکتا ہے مگر یہ سب کچھ بااعتماد شراکت داری سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان اور ایران جب ایک جیسی نظریاتی اساس رکھتے ہیں فلسطین کے حوالے سے بھی نکتہ نظر یکساں ہے مگر معاشی و تجارتی حوالے سے ویسی شراکت داری کہیں نظر نہیں آتی اِس لیے دوستی کی باتیں مصنوعی لگتی ہیں حالانکہ اشتراک، مفاہمت اور ترقی کی پالیسی پر گامزن ہو کر دونوں ممالک خطے کی معاشی طاقت بن سکتے ہیں۔ معاشی کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدہ دونوں کو بیرونی جارحیت سے محفوظ بناسکتاہے وگرنہ فروغ پذیر روابط کا کچھ خاص فائدہ اِس لیے نہیں ہوگاکہ نہ صرف دونوں کو یکساں معاشی مواقع حاصل نہیں ہوں گے بلکہ بیرونی خطرہ بھی موجود رہے گا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam