پاک افغان مذاکرات

دوست ممالک پاک افغان قیادت کو اکٹھا تو بٹھا سکتے ہیں لیکن اپنے مسائل کو دونوں ممالک نے خود ہی حل کرنا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے دونوں ممالک کے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے جس سے مستقبل کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ مذاکرات سے حل طلب مسائل جوں کے توں ہیں جس کی بنا پر ایسے خیال کو تقویت ملتی ہے کہ دونوں طرف بداعتمادی کی فضا ہے۔ یہ صورتحال خطے کے امن کے لیے ہرگز مثبت پیش رفت نہیں۔ قطر کی میزبانی میں مزاکرات کے پہلے دور میں سیز فائر جاری رکھنے پر اتفاق سے امن کی کچھ امید لگی مگر ترکیہ کی میزبانی میں ہونے والے بے نتیجہ مذاکرات نے مزید توقعات کی جگہ نہیں چھوڑی اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ امن کے حوالے سے اب یقین سے کہنا ازحد مشکل ہے۔
پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان رجیم کی طرف سے دہشت گردی کی سرپرستی نامنظور ہے اِس لیے اُنھیں ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنا ہوں گے مگر اِس کے برعکس طالبان کا موقف غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کرہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں نہ تو اپنے ملک اور عوام کے مسائل کا کچھ احساس ہے اور نہ ہی وہ ہمسایہ ممالک کی بداعتمادی دور کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ وہ بظاہر کسی اور ہی ایجنڈے پر عمل پیرا لگتے ہیں جو پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں بلکہ افغانستان اور خطے کے استحکام سے متصادم ہے۔ اسی لیے طالبان کے متعلق خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مذاکرات میں مزید پیش رفت طالبان کے رویے پر منحصر ہے اگر دہشت گردی کی سرپرستی جاری رکھتے ہیں تو پاکستان کو خود کاروائی کرنے کا جواز ملے گا جس سے افغانستان مزید غیر مستحکم اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوسکتا ہے۔
پاکستان کا مطالبہ ہے کہ فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلاتفریق اور قابل تصدیق کاروائی کی جائے تاکہ اچھے ہمسایوں اور بھائی بندی پر مبنی تعلقات کو فروغ ملے اگر ایسا نہیں ہوتا تو مزید لچک دکھانا ممکن نہیں رہے گا کیونکہ چار عشروں سے زائد لاکھوں افغانوں کی میزبانی، افغانوں کو آزادی و خود مختاری دلانے اور تجارتی مراعات دینے کے باوجود طالبان کا پاکستان مخالف عناصر سے گٹھ جوڑ ناقابلِ فہم ہے۔ اسی گٹھ جوڑ نے آج دونوں ممالک کو اِس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ مذہبی و ثقافتی رشتوں کے باوجود ہتھیار اُٹھانے کی نوبت آئی جس کی زیادہ ذمہ دار افغان رجیم ہے جو نہ تو افغان عوام کی حقیقی نمائندہ ہے اور نہ ہی ملک پر مکمل رَٹ رکھتی ہے۔
افغان طالبان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا اعتماد ہر حوالے سے اُن کے لیے اہم ہے۔ یہ پاکستان ہی ہے جو افغانستان کے منجمد اربوں ڈالر واپس کرنے کا دنیا سے مطالبہ کرتا ہے پاکستان کی حدود اور بندرگاہیں افغانستان کے لیے تجارتی حوالے سے ناگزیر ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی رٹ بھی پاکستان کی مدد سے بہترہو سکتی ہے لیکن دولت کی ہوس نے اُن کی حدِ نظر اِس حد تک کم کردی ہے کہ بھارت کے سوا دنیا میں اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اسی لیے پاکستان سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کی عملداری کے حصوں اور سرحد کو متنازع بنانے کی حماقت کرنے والے افغان یہ بھول جاتے ہیں کہ جوہری پاکستان اِس وقت مسلم اُمہ کی امید ہے جسے مقاماتِ مقدسہ کے دفاع کی سعادت بھی حاصل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون کیا جاتا مگر اِس کی بجائے مسائل پیدا کیے جارہے ہیں اسی لیے ہونے والی دراندازی روکنے کے لیے پاکستان اپنے حفاظتی دستوں کو تحرک میں لانے پر مجبور ہوا ہے۔ مزید افسوسناک امریہ ہے کہ اب بھی طالبان زمینی حقائق کے ادراک سے قاصر ہیں۔
افغان رجیم بضد ہے کہ اُس کی سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہورہی اور نہ ہی اُس کی حدود میں علیحدگی پسند دہشت گردوں یا شدت پسند گروہوں کے ٹھکانے ہیں مگر پاکستان سرحد پار سے ہونے والی دراندازی کے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کرچکا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بی ایل اے جیسے علیحدگی پسندوں اور ٹی ٹی پی و داعش جیسے شدت پسندوں کو بھارت کی سرپرستی اور طالبان کی سہولت کاری حاصل ہے مگر قطر مذاکرات میں جب پاکستان نے ایسے عناصر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تو طالبان نے تقاضا کیا کہ آپ دس ارب روپے دے دیں تو ٹی ٹی پی کو پاکستانی سرحدوں سے دور منتقل کردیتے ہیں جس سے طالبان کی ٹی ٹی پی سے تعاون و ہمدردی بے نقاب ہوگئی۔ مزید چونکانے کاباعث بھارت سے ایک ارب ڈالر کی امداد لیکر دریائے چترال پر ڈیم بنا کر پاکستان کا پانی روکنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ قبل ازیں ملا امیر متقی اپنے دہلی دورے کے دوران جموں و کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملا قرار دے چکے۔ مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان طالبان سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کے خلاف بھارتی پراکسی ہیں۔
یہ صیغہ راز میں نہیں رہا کہ حالیہ پاک افغان جھڑپوں کے دوران اسلحہ و گولہ بارود کے بھارتی ماہرین افغانستان آئے جو روس اور امریکہ کا چھوڑا گیا اسلحہ دوبارہ قابلِ استعمال بنانے میں طالبان کی مددکرتے رہے سوال یہ ہے کہ جنونی بھارتی حکومت جو اسلام اور مسلمانوں کا دنیا سے نام و نشان مٹانا چاہتی ہے وہ کیوں طالبان پر مہربان ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ افغانستان کا امن و استحکام یا خوشحالی نہیں بھارت کے پیشِ نظر پاکستان سے نفرت ہے اور دو ہمسایہ اسلامی ممالک کو لڑانا بھی اسلام دشمنی ہی ہے جو طالبان سمجھ نہیں پا رہے اور بھارت کا آلہ کار بن کر پاکستان سے اُلجھ رہے ہیں حالانکہ اِس کی اُن میں سکت نہیں ہے۔ بھارت کو افغانوں سے پیار نہیں اگر ہوتا تو افغان مہاجرین کو پاکستان سے اپنی سرزمین پر منتقل کرلیتا لیکن دولت کی ہوس میں طالبان سمجھ نہیں پا رہے اور پاک افغان عوام کو لڑا کر احسان فراموشی پر اُتر آئے ہیں۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں سے دونوں ممالک کی عوام میں کدورت و نفرت کی جو خلیج طالبان حماقتوں سے پیدا ہوئی ہے اگر آج وہ اپنی سرزمین ہمسایوں کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں تو دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوجائیں۔
اسلامی ممالک میں برسرِ پیکار شدت پسند تنظیموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اگر ہوتا تو خلاف ہتھیار اُٹھا کر اسلامی ممالک کو کمزور نہ کرتیں۔ یہ شدت پسند گروہ محض مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اسلام کا نام لیتے ہیں۔ طالبان بھی ایسی ہی قسم ہیں اسی لیے پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں میں ہمرکاب ہیں قطر، سعودی عرب اور ترکیہ کی کوششوں سے بات چیت کا عمل خوش آئند اور باعثِ اطمنان سہی مگر جب تک طالبان قیات پاکستان مخالف ایجنڈا ترک نہیں کرتی تب تک دونوں ممالک میں خوشگوار اور برادرانہ تعلقات کاخواب دیکھنا مناسب نہیں ہوگا۔

