پگڑی کے لیے اپنی لختِ جگر کا خون

حضرت انسان بھی عجیب چیز ہے دانت درد پر بھی بے چین ہوجانے والا اپنے جیسوں کی جان لینے کے بھی جواز پیش کرتا ہے۔ یہ انسان ظلم کرتے ہوئے درندوں کو بھی مات کر دیتا ہے۔ بلوچستان میں ایک نہتی لڑکی اور لڑکے کے ساتھ جو ہوا ہے وہ کم از کم بھی غیرت و انصاف کا قتل ہے۔ اِس واقعہ میں ملوث تمام کرداروں کوسزا دینے سے ہی آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے مگر ماہ بانو اور احسان اللہ کے خون سے ہاتھ رنگنے والے شاید تمام کردار سزا سے بچ جائیں کیونکہ ماں باپ اور بہن بھائیوں سمیت ورثا کی طرف سے مدعی بننے کا امکان کم ہے۔
کاش ایسے واقعات کی ریاست خود مدعی بن کر مجرموں کو سزا دلائے۔ عید سے قبل یہ وقوعہ ہوا جس کی مکمل ریکارڈنگ موجود ہے مگر افسوس کسی ذمہ دار نے نوٹس تک نہ لیا۔ سوشل میڈیا نے حکمرانوں اور منصفوں کو بیدار کیا تب جاکر کچھ گرفتاریاں ہوئیں۔ زرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ایسی اندھیرنگری کے باوجود قانون موجود ہونے اور تمام علاقوں میں ریاستی رَٹ ہونے کے دعوے پر یقین کیا سکتا ہے؟
یہ انسان بھی عجیب ہے ایک طرف اگر اپنے جیسے انسانوں کی تخلیق میں حصہ دار ہے تو پگڑی، اَنا اور نام نہاد عزت پر خونی رشتے بھی قربان کر دیتا ہے۔ باپ کے سائے میں تو بیٹیاں خود کو محفوظ اور بھائی کے ساتھ بہنیں خود کو طاقتور خیال کرتی ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ باپ اور بھائی کی موجودگی میں کوئی اُن پر ہاتھ اُٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا اور ماں جیسا نرم اور شفیق رشتہ تو اپنی تخلیق کو ہر پریشانی اور دکھ سے بچانے کے لیے جان تک لڑا دینے والا تصور کیاجاتا ہے مگر بلوچستان میں مقتول جوڑے کے لیے تو تمام رشتے پتھر ثابت ہوئے۔
باپ اور بھائی نے پگڑی اور ناموس کے لیے ایک نہتی کو درجن سے زائد نامحرم درندوں کے آگے کھڑا کر دیا کہ بھون ڈالو اِسے اپنی گولیوں سے۔ جان لے لو اِس معصوم کی۔ اِس کے خون سے مرجھاتی عزت کو سیراب کرلو۔ بھائی خود بھی فائرنگ میں پیش پیش رہا آج پورا ملک تھوک رہا ایسے درندوں پر جنھوں نے پگڑی کے لیے اپنی لختِ جگر کا خون کر دیا۔ فرسودہ رسوم و رواج کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اسلام تو شفقت، رحمدلی اور عفو درگزر کی تلقین کرتا ہے۔ جانور کی بھی بے مقصد جان لینے سے منع کرتا ہے چہ جائے کہ قبائلی رسوم اور مذہب کے نام پر خون بہاکر رشتے قربان کردیے جائیں اسلام میں پسند کی شادی جرم نہیں بلکہ ناپسندہ شخص سے جبری شادی جرم ہے۔
سرفراز بگٹی جیسے کچھ لوگ قتل کا جواز پیش کررہے ہیں کہ لڑکی شادی شدہ تھی جس کے غیر مرد سے تعلقات تھے۔ ایسے لگتا ہے ایک سردار نے قتل کرایا تو دوسرا سردار بچانے کے لیے میدان میں آگیا ہے حالانکہ قتل کا فیصلہ کرنے والا سردار شیرباز عزت دار تو کیا انسان تک کہلوانے کا حقدار نہیں۔ کسی ایک بے گناہ کو مارنا اسلام میں ساری انسانیت کا قتل ہے یہاں نہتے جوڑے کو ویرانے میں لیجا کر خونی رشتوں کی موجودگی میں مار دیا گیا لیکن خاموشی کی چادر میں چھید تک نہ ہو سکا۔
ایک اور تلخ سچ یہ ہے کہ بلوچستان حکومت کو اِس واقعہ کا فوری علم ہوگیا تھا لیکن چُپ رہی ملوث قاتلوں کی گرفتاریاں سوشل میڈیا پر لے دے ہونے پر کی گئیں۔ اِس چالاکی کا مقصد انصاف دینا نہیں بلکہ واقعہ کی پردہ پوشی لگتا ہے ویسے بھی جب کسی نے بطور گواہ شہادت دینے کی ہمت ہی نہیں کرنی تو قاتلوں کو سزا خاک ہونی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ معصوم جوڑے کے خون کو رزقِ خاک بنانے والوں کی پگڑیاں سلامت رہیں گی اور وہ ایسے فیصلے کرنے کے لیے آئندہ بھی انسانی جانوں کے لیے جبر و قہر ڈھاتے رہیں گے۔
احسان اللہ زرک اور ماہ بانو کو جرگہ سردار نے دونوں کو جان بخشی کا قول دینے کے باوجود قتل کرایا شاید سردار ہر صورت احسان اللہ زرک کو مجرم ثابت کرنا چاہتا تھا مگر جب شواہد نہ ہونے کی بنا پر مقامی عالمِ دین نے تائید سے صاف انکار کر دیا تو اسی لیے پھر مقتولہ لڑکی سے مطالبہ کیا گیا کہ لڑکے پر ورغلانے اور بلیک میل کا الزام لگا کراپنی جان بچا لے لیکن جب وہ بھی بہتان لگانے سے انکار کردیتی ہے تو آخرکار سابقہ شوہر کے ساتھ رہنے کی صورت میں لڑکی کو زندہ رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر مقتولہ رضامند نہ ہوئی جس پر قتل کرنے کافیصلہ سنا دیا گیا۔
کوئی مرد اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر محرم کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لے تو بھی اسلام فیصلے کے لیے چار شہادتوں کو تو ضروری قرار دیتا ہے لیکن قتل جیسے انتہائی اقدام کی اجازت نہیں دیتا۔ کیا کسی بیٹی نے اپنے باپ یا بہن نے اپنے بھائی کو کبھی غیرت کے نام پر قتل کیا ہے؟ اور کیا غیرت صرف مردوں کے لیے وقف ہے دراصل یہ عورت کو بے بس رکھنے کا حربہ ہے شاید اسی لیے مقتولہ نے قاتل ہیجڑوں سے معافی طلب نہیں کی رحم کی بھیک نہیں مانگی منت سماجت اور گڑگڑانے سے گریز کیا کہ اپنے خاندان کے لوگ ہی جب سفاکی میں غیروں کے ہمرکاب ہوں تو موت کوگلے لگانے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ اِن حالات میں صرف گولی سے مارنے کا حق دینا ہی بنتا ہے حالانکہ قاتلوں سے قرآن سے کوئی ایک ایسی آیت پڑھ کر سنانے کا مطالبہ جائز تھا جس میں کسی کو ناحق قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔
1825 یعنی دو سو برس قبل بلوچستان کے علاقے کوہلو میں لعل ہان نامی ایک نوجوان نے داستانِ محبت رقم کی جس نے طوفانی بارش سے بچنے کے لیے ایک گھر میں پناہ لی جہاں ایک نوبیاہتا دلہن سمو کے سوا کوئی نہیں ہوتا جو اپنے خیمے کو بچانے کی جدوجہد میں دوپٹے سے محروم ہوتی ہے تو یہ منظر دیکھ کر لعل ہان کو عشق ہو جاتا ہے وہ جذباتی شاعری میں بے دھڑک خود کو سموبیلی یعنی سموکا دوست کہتا ہے پھر بھی قبائلی معاشرے کی غیرت محفوظ رہتی ہے بلکہ لعل ہان کو حضرت مست توکلی کہہ کر قبر کو مرجع اخلائق کہا جاتا ہے۔
آج بھی بلوچ معاشرے میں ہزاروں لڑکیوں کے نام سمی ہیں۔ چودہ سوبرس قبل مکہ میں کاروباری طور پر خود مختار شرم و حیا کی پیکر ایک خاتون اپنا سامانِ تجارت دیکر ایک مہربان، ایماندار اور سچے نوجوان کو ملک شام روانہ کرتی ہے اور پھر حسن اخلاق، ایمان داری اور سچائی سے متاثر ہو کر اپنے غلام کے زریعے نکاح کا پیغام بھجوا دیتی ہیں یہی اصل اسلام ہے۔ اسلام میں نکاح کی ترغیب دی جاتی اور زنا سے روکا جاتا ہے جو بلوچستان میں عنقا ہے۔
اسلام میں پسند کی شادی عورت کا حق ہے بغاوت نہیں ماہ بانو کے بھی تو آخری الفاظ یہی تھے کہ نکاح کیا ہے زنا نہیں۔ اپنے اور بیگانے 19 مردوں نے ایک نہتے جوڑے کو مار کر اسلام یا بلوچ معاشرے کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ ایسی کالک لگالی ہے جسے چند گرفتاریوں سے دھویا نہیں جا سکتا البتہ تمام ملوث لوگوں کو عبرت کا نشان بنا کر مستقبل میں ایسے قاتل فیصلوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔

