کوئی بادشاہ نہیں

ملک گیر جاری مظاہروں نے ثابت کر دیا ہے کہ دنیا کے لیے بادشاہ کی طرح احکامات صادر کرنے والے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے امریکی عوام ناخوش ہے، حالانکہ رواں برس بیس جنوری کو جب انھوں نے صدارتی منصب سنبھال کر کام شروع کیا تو مقبولیت کے حوالہ سے طاقتور ترین صدر قرار پائے لیکن دس ماہ کی حکومت میں کئی ایسے غیر مقبول فیصلے کیے جو مقبولیت کم کرنے کا باعث بنے ہیں۔
ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کی توقع بھی پوری نہیں ہوئی نہ ہی کچھ ایسا کیا ہے جو حاصل مقبولیت قائم رکھے یا مزید اضافے کا سبب بنے۔ انھوں نے اقتدار کے دس ماہ کے دوران ثابت کر دیا ہے کہ مشاورت پر یقین نہیں رکھتے اور خودسر و خود پسند شخص کی طرح مسائل حل کرتے ہیں۔ منتخب صدر ہونے کے باوجود سوچ آمرانہ ہے وہ اپنے دعوؤں کے برعکس ایسا کچھ نیا نہیں کرنا چاہتے جو دنیا میں امن کے قیام میں مدد گار ہو۔ اِسی ڈگر نے آج اِس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ امن کے نوبل انعام کے حریص کی کسی بات کو بھی سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔
دنیا کے اکثر ممالک اُنھیں خوش کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں مگر کیونکہ امریکی عوام کو ایسی کوئی مجبوری درپیش نہیں کہ وہ بے جا تشکر کرتے پھریں اسی لیے امریکہ کے طول و عرض میں مخالفانہ مظاہرے جاری ہیں جن میں لاکھوں افراد کی شرکت ثابت کرتی ہے کہ ٹرمپ مقبولیت کھوتے جارہے ہیں اور شاید دوسری مدت صدارت میں امریکی تاریخ کے غیر مقبول ترین صدر ہونے کا اعزاز حاصل کرکے رُخصت ہوں۔
رائٹرز اور اپسوس کے تازہ سروے نے ٹرمپ پالیسیوں بارے عوامی رائے اجاگر کی ہے۔ اِس چھ روزہ سروے میں 80 فیصد ڈیموکریٹس اور41 فیصد ریپبلکنز نے فلسطینی ریاست کے حق میں رائے دی جبکہ مجموعی طور پر59 فیصد امریکییوں کی آزاد فلسطینی ریاست کو حمایت حاصل رہی۔ مزید یہ کہ غزہ پر ٹرمپ کا موقف عوامی رائے سے ہم آہنگ قرار نہیں پایا۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری سے تعمیرات مکمل طور تباہ کردیں۔ اِس وحشیانہ ردِ عمل کو صدر کی طرف سے اسرائیل کا حق دفاع قرار دینا بھی امریکیوں کو پسند نہیں جس کے نتیجے میں ملک بھر میں اضطرابی کیفیت ہے جس کے پیش نظر کہہ سکتے ہیں کہ اگر ملک گیر یہ مظاہرے کسی سیاسی تحریک میں تبدیل ہوتے ہیں تو امریکی سیاست کا رُخ تبدیل ہو سکتا ہے۔
امریکہ جس تاریخی ہلچل سے گزر رہا ہے اِس کی وجہ عوامی پسند کے منافی ایسی پالیسیاں ہیں جو عوام کو کوئی بادشاہ نہیں جیسا نعرہ لگانے پر مجبور کرتی ہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ ٹرمپ حاصل اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کا احترام نہیں کرتے بلکہ توقع رکھتے ہیں کہ ادارے اور عوام اُن کے احمقانہ فیصلے تسلیم کریں۔ اُن کے خیال میں وہ کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتے۔ اختلافِ رائے برداشت کرنے سے گریز کرتے اور تعمیری تنقید کا بھی بُرا مناتے ہیں۔ ایسے ہی رویے نے عوام کو سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ صدر کو بادشاہ کی طرح لامحدود اختیارات دینے سے جمہوری توازن غیر ہموار ہو سکتا ہے۔ اُن کے خیال میں عدلیہ پر دباؤ نہ صرف انصاف کا حصول مشکل بنا رہا ہے بلکہ آزاد اِداروں پر دباؤ اختیارات کی مرکزیت کا موجب ہونے کے ساتھ اظہارِ رائے کی آزادی سلب کرسکتا ہے۔
درآمدات پر محصولات، تارکین کے متعلق قوانین میں تبدیلیاں ایسے فیصلے ہیں جن سے مہنگائی بڑھی ہے اور ملک مختلف شعبوں کے لیے درکار ماہرین کی قلت کا شکار ہونے لگا ہے۔ ماحولیاتی معاہدوں سے علیحدگی نے امریکی غیر سنجیدگی بے نقاب کی ہے جس سے ماحولیاتی کارکن شدید غم و غصے میں ہیں۔ زیادہ کام کو مزدوروں کے حقوق سے اہم تصور کرنا اور اقلیتوں کے متعلق ٹرمپ کا جارحارنہ رویہ امریکی معاشرت میں تقسیم کوبڑھاوا دے رہا ہے اسی لیے احتجاجی مظاہر ے کسی ایک طبقے تک محدود نہیں بلکہ تمام طبقات کو کچھ اِس طرح بیدار کردیا ہے جس کی ماضی میں کم ہی نظیر ملتی ہے۔
امریکی عوام نہ صرف جمہوریت بارے میں حساس ہیں بلکہ تارکینِ وطن کے متعلق بھی فراخ دل ہیں۔ نسلی امتیاز کو ملکی سلامتی سے ہم آہنگ خیال نہیں کرتے لیکن ٹرمپ کا خیال ہے کہ صدر منتخب کرنے کے بعد عوام کی ذمہ داری ختم ہوچکی لہذا وہ اب ہر قسم کے فیصلوں میں آزاد ہیں۔ عوام کے خیال میں یہ سوچ درست نہیں عوامی بے چینی نے ثابت کردیا ہے کہ صدر منتخب کرنے کے بعد بھی عوام معاشرتی اقدار کے تحفظ سے الگ نہیں اور آزاد معاشرت کے لیے پُرعزم ہیں۔
احتجاجی مظاہروں میں اگر انسانی حقوق کی تنظیمیں فعال ہیں تو اساتذہ، ماحولیاتی کارکن، طلبہ اور مزدور بھی اولیں صفوں میں نمایاں ہیں۔ ملک کا دانشور طبقہ اضطراب کا شکار اور صحافی بھی غیر مطمئن ہیں جس کا عکس اُن کی تحریروں سے جھلکتا ہے۔ امریکہ کے بڑے شہروں نیویارک، واشنگٹن، کیلیفورنیا سے لیکر بوسٹن تک لگے بینروں میں جو یکساں نُکتہ ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بادشاہ نہیں اور نہ ہی جمہوریت برائے فروخت ہے لیکن صدر ٹرمپ ایسے مظاہروں کو دشمن عناصر کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ اُن کے حامیوں کے خیال میں غیر ملکی اثرات کا نتیجہ ہے یہ رویہ یا طرزِ عمل غیرسنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ عوامی ردِ عمل کی وجہ حاکمانہ طرزِ عمل اور اختلافِ رائے کی گُنجائش ختم کرنا ہے۔ اسی بناپر ماہرین کے خیال میں مظاہروں کو زیادہ دیر نظر انداز کرنے سے ایک طاقتور سیاسی تحریک کا ظہور ممکن ہے مگر ٹرمپ اور اُن کے رفقا کی طرف سے ایسا کوئی اِشارہ نہیں ملتا کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
چند ماہ قبل تک صدر ٹرمپ کے حامی خاصے پُرجوش تھے لیکن مظاہروں کی حالیہ لہر نے اُن کے جوش اور جذبات کو ٹھنڈا کر دیا ہے اور وہ بھی اب حکومتی خوبیوں اور خامیوں پربات کرنے اور سُننے لگے ہیں۔ صدر کی پالیسیوں کے خلاف شدید عوامی ردِ عمل ثابت کرتا ہے کہ صدارتی انتخاب کے بعد بھی عوام امورِ مملکت پر نظر رکھتے ہیں۔ عوامی بیداری کی حالیہ لہر اسی کی عکاس ہے کہ عوام کے خیال میں جمہوریت کی مضبوطی ہی قومی سلامتی کی کلید ہے۔ عوام کو آزادی سلب کرنے کا عمل پسند نہیں جو بھی ایسا کرے گا وہ عوامی محاسبے کا شکار ہوگا۔ اپنے حقوق اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے مظاہرین حکومتی دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ خودسر اور خود پسند صدر ہونے کے باوجود عوام اب بھی ماضی کی طرح کا جمہوری اصولوں پر قائم ایسا امریکی معاشرہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں جواقتدار کی مرکزیت سے دور ہو اور جس میں اختیارات کی ایسی تقسیم ہو جو وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے اور اظہارِ رائے پر کسی قسم کی قدغن نہ لگائے۔

