جوہری ہتھیاروں کے نئے تجربات کا اعلان

اِس وقت دنیا میں معاشی، تجارتی کے ساتھ نئے دفاعی اتحاد بن رہے ہیں۔ تباہ کُن ہتھیاروں کے ذخائر اور جدید ترین لڑاکا طیاروں کے باوجود ریاستیں قومی سلامتی کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ امن پسندی کی دعویدار کچھ طاقتوں کے پاس جوہری ہتھیاروں کا اِتنا ذخیرہ ہے جس سے پوری دنیا کو کئی بار تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس کے باوجود تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ایجاد پر کام ہو رہا ہے، حالانکہ آواز کی رفتار سے تیز میزائل اور لڑاکا جہاز بن چکے لیکن دفاعی فکرمندی موجود ہے۔ دولت کے لیے امریکہ جیسے ممالک کا ہتھیاروں کی برآمد بڑھانا امن کے لیے نقصان دہ ہے۔
سرد جنگ کے بعد چار عشرے تک یہ خیال دنیا کے ازہان میں راسخ رہا کہ جتنے جوہری ہتھیار بنائے جا چکے وہ دفاع کے لیے کافی ہیں، اِس لیے ایک تو مزید ممالک کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جائے گا اور جو ممالک جوہری طاقت حاصل کر چکے ہیں وہ مزید تجربات نہیں کریں گے۔ اِس پر کچھ عرصہ عمل بھی ہوا روس اور امریکہ کے درمیان اِس حوالے سے معاہدہ طے پانے پر یہ پیغام لیا گیا کہ بڑی طاقتیں امن کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور وہ دنیا میں جوہری ہتھیار محدود کرنا چاہتی ہیں تاکہ دنیا کو جوہری ہتھیاروں کاڈھیر نہ بنایا جائے۔
یہ امن کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت تھی مگر یہ اطمنان اُس وقت غارت ہوگیا جب بھارت نے دوسری بار جوہری تجربات کرنا شروع کر دیے۔ اِن تجربات نے دنیا کو چونکا دیا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی طاقتیں بھارت کی سرزنش کرتیں لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ بظاہر ناپسندیدگی کے باوجود یہ کہہ کر سفارتی حوصلہ افزائی کی گئی کہ بھارت جیسے بڑے ملک کو اپنی ضروریات کے مطابق دفاعی تیاریوں کا حق حاصل ہے جس سے شہ پاکر بھارتی قیادت حملہ کرنے اور پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دینے لگی۔ مزید حیران کُن پہلو یہ کہ عالمی طاقتوں نے پاکستان کو جوابی جوہری تجربات سے منع کرنا شروع کر دیا۔ اگر بھارت کے جوہری تجربات پر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا اور معاشی و تجارتی پابندیاں لگادی جاتیں تو ممکن ہے پاکستان انتہائی اقدام سے گریز کرتا لیکن بھارت کے جارحانہ رویے نے جواب دینے پر مجبور کردیا۔
دنیا کے مسائل حل کرنے ہیں تو وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہتھیاروں کی بجائے تعلیم اور صحت کے لیے وسائل وقف کرنا ہوں گے، معدنیات ہتھیانے کی سوچ ترک کرنا ہوگی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا۔ قدیم اور جدید دور کی سوچ میں کوئی زیادہ فرق نہیں، ماضی میں طاقتور ریاستیں کمزور ریاستوں کو تاراج کرتیں اور وسائل لوٹ لیتیں آج طاقتور ممالک معاہدوں کے زریعے غریب ممالک کی معدنیات ہڑپ کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں کمزور ممالک کو دھمکا کر ہتھیار خریدنے پر مجبور کیا جانے لگا ہے جس سے اسلحہ کی پیدوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اسلحے کی دوڑ تیز ہورہی ہے۔
اِس وقت امریکہ غیر ضروری تنازعات میں الجھنے سے اب معاشی طور پر روبہ زوال ہے اِس کی وجہ عراق، لیبیا، افغانستان اور ایران جیسے ممالک کو نشانہ بنانے کے دوران معیشت کو ثانوی درجہ دینا ہے لیکن چین نے معیشت و دفاع پر یکساں توجہ دی اسی بناپر آج طاقت میں امریکہ کا ہم پلہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ اب تو امریکہ اور چین میں دنیا سے معدنیات چھیننے کابھی مقابلہ جاری ہے۔ امریکہ نے چینی معاشی ترقی کاتوڑ اسلحہ بیچنے میں تلاش کرلیا ہے۔ سعودی عرب، بھارت، اسرائیل، عرب امارات، قطر اور ترکیہ کی شکل میں اُسے اچھے خریدار حاصل ہیں اِس کے باوجود چینی معیشت مات دینے کے قریب ہے۔ بار بار کا شٹ ڈاؤن امریکی نظام کو کھوکھلا کررہا ہے۔ ابھی حال ہی میں 43 روزہ شٹ ڈاؤن کا خاتمہ ہوا ہے لیکن ایسے خطرات کا مستقبل میں بھی امکان موجود ہے جس امریکہ کے روشن مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے۔
امریکی سربراہی میں قائم چار رُکنی بھارت، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈ کی فعالیت کم ہوچکی ہے مگر امریکہ بھارت سے دس سالہ دفاعی معاہدے کے تحت اسلحہ فروخت کرتا رہے گا۔ حال ہی میں سعودیہ کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیکر بھی اسلحے کا بڑا سودا کیا ہے۔ قطر اور عرب امارات سے بھی اسلحہ فراہمی کے اربوں ڈالر کے معاہدے کر رکھے ہیں لیکن یہ بھاری بھرکم معاہدے کیا اِن ممالک کی سلامتی کو یقینی نہیں بنا سکتے کیونکہ اب عددی برتری اور ہتھیاروں کے ذخائر کے ساتھ جنگیں جیتنا مشکل ہوگیا ہے۔
جدید ہتھیاروں کے ساتھ مہارت اور بہتر جنگی حکمتِ عملی بھی ضروری ہے وگرنہ وہی ہونا ہے جو بھارت کے ساتھ مئی کی فضائی اور زمینی جھڑپوں میں ہوچکا۔ اِس دوران بھارت کو ایسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس سے نہ صرف عالمی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ عسکری مورال بھی متاثر ہوا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اسلحے کے بڑے خریدار تمام تر تیاریوں کے باوجود اسرائیلی رحم و کرم پر ہیں۔ دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد امریکہ نے قطر سے دفاعی معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دونوں میں سے کسی ایک پر حملہ دونوں پر شمار ہوگا جبکہ چینی اسلحہ جسے امریکی ہتھیاروں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا تھا اُسے بہتر استعمال سے پاکستان آج دنیا کا نہ صرف پسندیدہ ہے بلکہ چینی ہتھیاروں کی مانگ میں اضافے کا باعث بنا ہے کیونکہ پاکستان نے مہارت اور بہتر جنگی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا۔
اب ہتھیاروں اور نفری سے جیت کے خواب دیکھنا ٹھیک نہیں تو دنیا کیوں اسلحے کی دوڑ چھوڑ کر تنازعات کے حل پر توجہ نہیں دیتی تاکہ جنگوں کی نوبت ہی نہ آئے مگر ایسا تبھی ممکن ہے جب عالمی طاقتیں ہتھیار بیچ کر دولت بٹورنے کے عمل سے کنارہ کش ہوں۔ ایسا ہوتا نظر نہیں آتا اب تو شمالی کوریا اور اسرائیل بھی اعلانیہ جوہری بم رکھنے کے دعویدار ہیں۔ یہ دنیا کے مزید غیر محفوظ ہونے کی طرف اِشارہ ہوتا ہے۔ اسرائیل تو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی پاسداری بھی نہیں کرتا جس کی وجہ امریکی تھپکی ہے اس طرح کے ممالک کا جوہری طاقت رکھنا امن کے لیے مُضر ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ تمام تر ترقی کے باوجود روایتی اور جوہری ہتھیاروں کی شکل میں دنیا بارود کا ڈھیر بن چکی ہے تو بے جا نہ ہوگا جس کی ذمہ داری بڑی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر یہ طاقتیں انصاف کا دُوہرا معیار چھوڑ دیں اور ہتھیاروں کی دوڑ کی حوصلہ شکنی کریں تو اسلحے کی خرید پر ہونے والے اخراجات انسانی خوشحالی پر صرف ہوں۔ غریب ممالک اپنی معدنیات کو غربت اوربے روزگاری پر قابو پانے کے لیے استعمال کریں تعلیم اور صحت کے مسائل پر قابو پائیں لیکن ایسے حالات میں جب دنیا کو امن کی ضرورت ہے عالمی طاقتوں نے طاقت کے بل بوتے پر معدنیات ہتھیانے کے معاہدے کرنا شروع کردیے ہیں اور امریکی صدرٹرمپ نے جوہری ہتھیاروں کے نئے تجربات کا اعلان کردیا ہے جس سے مزید ممالک ایسی روش پر چل سکتے ہیں۔ اِس طرح حقیقی مسائل توشاید حل نہ ہوں البتہ دنیا مزید غیر محفوظ ہوجائے گی۔

