جارحانہ اور ہنگامہ خیز صدارت

دو روز قبل بیس جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے 47ویں صدر کی حثیت سے حلف اُٹھا لیا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ ٹرمپ کی نئی صدارتی مدت خاصی ہنگامہ خیز اور جارحانہ ہوگی۔ کچھ کا خیال ہے کہ رپبلکن کے پاس اقتدار ہو یا ڈیموکریٹس کی حکمرانی، داخلی و عالمی حوالے سے امریکی سوچ یا رویے میں زیادہ تبدیلی نہیں آتی، دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ پہلی مدتِ صدارت کے دوران ٹرمپ کو مقتدرہ کا آزادانہ کام کرنے سے روکنا ہے یہاں تک کہ پہلی بار جوہری حوالے سے امریکی صدر کے اختیارات پر قدغن لگائی گئی مگر ٹرمپ کی جارحانہ طبعیت کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ پہلی صدارت کے دوران جو نہیں کرپائے وہ سب کچھ موجودہ صدارتی مدت کے دوران کرنے کی کوشش کریں گے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدرہ کو شکست دیکر منتخب ہوئے ہیں۔ اِس لیے بعید نہیں کہ وہ مان کر چلنے کی بجائے منوا کر چلنے کی کوشش کریں۔
انھوں نے حلف اُٹھانے سے قبل مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا اور قیدیوں کی عدم رہائی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی کا اثرہی تھا کہ اُن کے حلف سے ایک روز قبل ہی 19 جنوری اتوارکے روز حماس اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا۔ فریقین میں قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی جاری ہے اگلے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے ساتھ انتظامی امور جیسے معاملات بھی طے پانے کاامکان ہے۔ دراصل مشرقِ وسطیٰ میں روس اور ایران کی گرفت کمزور ہوچکی ہے اسی لیے امن معاہدہ امریکہ نے ضروری سمجھا تاکہ خطے کا منظرنامہ اپنی مرضی کے مطابق تشکیل دے سکے وگرنہ تو جب تک صورتحال موافق نہ سمجھی تب تک امن کی کوششوں سے گریز کیا گیا۔
حلف برداری سے قبل ٹرمپ عندیہ دے چکے کہ وہ درآمدات پر ڈیوٹی بڑھائیں گے۔ اِس حوالے سے صدر شی جن پھنگ نے ٹرمپ سے بات چیت بھی کی تاکہ مستقبل میں متوقع تجارتی جنگ کے خدشات کم ہوں، مگر ٹرمپ ہر صورت عالمی معاشی و تجارتی منظرنامہ امریکہ کے لیے سازگار بنانا چاہتے ہیں اور اِس کے لیے وہ ہر حدتک جا سکتے ہیں۔ امریکہ جسے معاشی نمو برقرار رکھنے کے لیے تعلیم، صحت، زراعت اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے لیکن ٹرمپ غیر قانونی تارکینِ سے کسی قسم کی نرمی پر تیار نہیں اور بڑے آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے، مقصد ڈالر کی ملک سے باہر ترسیل روکنا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں امریکہ میں آباد غیر قانونی تارکینِ وطن کو گرفتار اور ملک سے بے دخل کرنا اُن کا انتخابی وعدے تھا۔ حلف اُٹھاتے ہی جنوبی سرحد پر قومی ایمرجنسی لگانا، مریخ پر امریکی جھنڈا لہرانے کا منصوبہ، کرپٹ مقتدرہ سے چھٹکارے اور آزادی اظہار کی بحالی جیسے اعلانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کا رویہ پہلے کی نسبت موجودہ دورصدارت میں زیادہ درشت اور بے لچک ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ لاکھ طاقتور سہی مگر عالمی منظرنامہ کچھ زیادہ سازگار نہیں جب فرانس کے جیسے طاقتور ملک کے وزیرِ اعظم اپنے ملک سمیت یورپ سے مطالبہ کر چکے کہ ٹرمپ کے خلاف کچھ نہ کیا تو یورپ تباہ ہو سکتا ہے۔ ڈنمارک، ہنگری، جرمنی اور اٹلی جیسے ممالک میں بھی پریشانی کی لہر ہے۔ ایسے کئی مسائل ہیں جنھیں ٹرمپ اگر حل نہیں کرتے تو امریکہ نیٹو میں شامل اتحادیوں سے دور ہو سکتا ہے۔ شنید ہے کہ نئی مدت کے اولیں سو روز کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ ایران کے حوالے سفارشات مرتب کرنے پر ہے۔
ایسی اطلاعات بھی ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل کے لیے پریشانی کا باعث ہیں کہ عملی طور پر تجربات نہ کرنے کے باوجود ایران جوہری طاقت بن چکا ہے۔ ایران کو مزید جوہری پیش رفت سے روکنے کے لیے امریکہ چاہتا ہے جمہوریت کے فروغ کے لیے ایران میں متحرک عناصر سے کام لے اور جمہوریت نواز اور لبرل عناصر کی مالی ضروریات ضبط اثاثوں کے زریعے پوری کرتے ہوئے مضبوط کیا جائے۔ علاوہ ازیں امریکہ چاہے گا کہ اتحادی اور عالمی شراکت دار ایک مشترکہ اور متفقہ موقف اپنائیں تاکہ ایرانی قیادت کو جوہری پروگرام کے حوالے سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے، بصورتِ دیگر ایک اتحاد کی صورت میں ایران کی دفاعی تنصیبات کے خلاف کاروائی کا آغاز ہو اگر ٹرمپ کے ہمرکاب اُنھیں قائل کر لیتے ہیں تو ہر انتہائی اقدام کی تو قع کی جا سکتی ہے۔
ٹرمپ جنگوں کے خلاف ہیں اِس حوالے سے وہ ایک سے زائد بار اظہار کر چکے مگر جس قسم کی کابینہ تشکیل دے رہے ہیں اُس سے خارجہ پالیسی پر انتہاپسندوں کا غلبہ ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ درست ہے کہ افغانستان سے جلد انخلا میں ایسے ہی لوگوں کا کلیدی کردار تھا لیکن خدشہ ہے کہ یہی لوگ ٹرمپ مخالف لوگوں کے خلاف کاروائیاں کرنے سمیت عالمی تنازعات پر الگ موقف کی طرف جا سکتے ہیں۔ بظاہر یہ مداخلت کے قائل نہیں لیکن معاشی و دفاعی مضبوطی کا ایجنڈا رکھنے کے ساتھ کسی عملی کاروائی کی طرف جا بھی سکتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ سے فرصت مل چکی اب روس اور یوکرین تنازع ختم کرانے کی کوشش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر ڈالر کی بقا اِس میں ہے کہ روس کو شکست ہو اب دیکھنا یہ ہے کہ روس کو شکست دیے بغیر کیا ٹرمپ اور اُن کے ساتھی ڈالر کی بقاکی جنگ جیت پائیں گے؟ قرین قیاس یہی ہے کہ ٹرمپ اور اُن کے ساتھیوں کی کوشش ہوگی کہ روس کو برکس ممالک کے ساتھ مل کر نئی کرنسی لانے سے روک جائے وگرنہ یوکرین کے میدان میں ایسی شکست سے دوچار کیا جائے کہ وہ پھر کبھی دوبارہ سنبھل نہ سکے۔
امریکی طاقت کی بحالی ٹرمپ کے پیشِ نظرہے جسے موجودہ حالات میں کئی چیلنج درپیش ہیں جس کے لیے پُرامن بقائے باہمی کی پالیسی اور آزادانہ تجارتی سرگرمیاں ناگزیر ہیں مگر ٹرمپ نے ایسا کرنے کی بجائے بیک وقت کئی محاز کھول دیے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان روابط وتجارت کے لیے استعمال ہونے والے بڑے بحری راستے پانامہ نہر پر اختیار امریکہ کے پاس ہو وہ محصولات ختم نہ کرنے کی صورت میں بزور قبضے کا اِرادہ ظاہر کر چکے کیونکہ اِس راستے سے بحری تجارت آسان و تیز ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ نہر ساڑھے بائیس سو کلومیٹر بحری سفر کو ساڑھے نو سو کلومیٹر لانے کا باعث ہے جو نصف سے بھی کم بنتا ہے۔ قبل ازیں بھی اِس نہری راستے کا اختیار امریکہ کے پاس تھا لیکن 1999 میں ایک معاہدے کے تحت یہ کنٹرول پانامہ کو منتقل کر دیا گیا۔ یہ بحری راستہ دفاعی نکتہ نظر سے بھی بہت اہم ہے اسی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے امریکہ چاہتا ہے اِس راستے پر اجارہ داری پھر بحال ہو مگر یہ کوشش لاطینی ممالک میں بے چینی کوجنم دینے اور امریکہ مخالف لہر کو قوی تر بنا سکتی ہے۔
ہر کام طاقت اور دھونس سے ممکن نہیں طاقت اور دھونس کے بے جا مظاہرے سے عالمی امن کے قیام میں مدد نہیں مل سکتی مگر شاید ٹرمپ کو اِس کا ادراک نہیں انھوں نے پہلے صدارتی دور میں دفاعی حوالے سے اہم ڈنمارک کے ملکیتی جزیرے گرین لینڈ کو خریدنے کی بات کی۔ اب دوبارہ اسی جزیرے کو خریدنے وگرنہ بزور قبضہ کرنے کی تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ سارا سال برف سے ڈھکے رہنے والے بحر اوقیانوس اور بحر منجمد شمالی کے درمیان واقع اِس جزیرے گرین لینڈ کو حاصل کرنے کے لیے نئی امریکی انتظامیہ میں ہیجان کی کیفیت عیاں ہے۔ اِس کے لیے وہ یورپی یونین اور نیٹو جیسے دفاعی اتحاد کا حصہ ڈنمارک کو ناراض کرنے پر بھی تیار ہے۔ خیر ٹرمپ تو کینیڈا سرحد کو بھی مصنوعی قرار دیتے چاہتے ہیں کہ کینیڈا ضم ہوکر امریکہ کی 51ویں ریاست بن جائے۔ ایسے اقدامات ٹرمپ کے موجودہ دورِ صدارت کو جارحانہ اور ہنگامہ خیز ثابت ہونے کی طرف اِشارہ کرتے ہیں ظاہر ہے جس سے عالمی تقسیم کو وسیع کرنے کے ساتھ امن کونقصان ہو سکتا ہے۔