جب زوال آتا ہے تو

جب زوال آتا ہے تو کامیابیاں بے اثر ہوجاتی ہیں۔ مودی کو آج کل ایسی ہی صورتحال درپیش ہے جسے وہ اپنی دانست میں کامیابی کہتے ہیں عوام اسی سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ 23 اگست کو نیشنل اسپیس ڈے کے موقع پر اعلان کیا کہ بھارت جلد ہی اپنا خلائی اسٹیشن تیار کرکے دنیا کو حیران کردے گا۔ اِس اعلان کا دنیا نے تو کوئی اثر نہیں لیا البتہ بھارتی عوام حیرت زدہ ہے کہ ایسے حالات میں جب بھارتی برآمدات کے لیے دنیا میں مواقع محدود ہوتے جارہے ہیں ملکی روپیہ اور اسٹاک ایکسچینج کو گراوٹ کا سامنا ہے تو مودی کو یہ کیا سوجھی کہ ملکی آمدن میں اضافے کی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے خلا پر نظریں جما لی ہیں۔ اِیسے منصوبوں کی ناقد صرف حزب مخالف ہی نہیں بلکہ مودی کے رفقا بھی ہیں جن میں اپنے سیاسی مستقبل کے حوالہ سے سراسمیگی ہے اور وہ اپنا سیاسی مستقبل بچانے کی فکر میں ہیں مگر لگتا ہے کہ مودی کو ڈوبتی ناؤ کا احساس نہیں وہ بددستور اپنے تصورات میں گم ہیں۔
اقتدار کی تیسری مدت مودی کے لیے کانٹوں کی سیج بن چکی ہے۔ اُن کی مقبولیت کا وہ پردہ چاک ہونے لگا ہے جسے نفرت، تعصب اور مذہبی ماردھاڑ سے بنایا تھا۔ مودی نے طویل ترین اقتدار میں رہنے والے وزرائے اعظم میں نام تو لکھوا لیا مگر ملکی اِداروں کی ساکھ اِس حد تک تباہ کر دی ہے کہ تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن پر ہیراپھیری کرنے کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے حالانکہ ماضی میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ سیاستدانوں نے انتخابی نتائج پر اُنگلی اُٹھائی ہو۔ مودی حکومت کی ووٹ چوری کی سیاست کے خلاف ووٹر ادھیکاریاترا کو عوام میں بھرپور مقبولیت مل رہی ہے۔ اپنے اقتدار کے لیے مذہبی، لسانی تقسیم کو بڑھا کر ملکی یکجہتی کو پارہ پارہ توکیا ہی تھا تیسرے دورِ اقتدار میں حماقتوں سے ملکی معیشت کے لیے ایسی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں جن کے اثرات سے شاید ہی ملک سنبھل سکے۔
آپریشن سندور ایسی ناکامی ہے جس نے بھارتی طاقت اور رسوخ کے محل کو زمین بوس کر دیا ہے لیکن مودی اب بھی جھوٹ بول کر کامیابی ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں حالانکہ زوال آتا ہے تو کامیابیاں بے اثر ہوجاتی ہیں۔ دنیا اور ٹرمپ آئے روز بھارتی شکست کی تصدیق کررہے ہیں اسی لیے مودی کے جھوٹ سے کوئی متاثر نہیں ہورہا۔ نمستے ٹرمپ سے شروع ہونے والی اُلفت اور دوستی آج دفع ہو مودی تک آگئی ہے۔ مودی کی ناقص خارجہ پالیسی تاریخ میں پہلی بارملک کو ایسے موڑ پر لے آئی ہے کہ خطے کا ہر ملک بھارت کے خلاف ہے۔ نفرت کی ایسی لہر ماضی میں کم ہی دیکھی گئی آپریشن سندور نے نڈر مودی کو سرنڈر مودی ثابت کر دیا ہے اور وہ زوال کی ایسی دلدل میں مسلسل دھنستا جارہا ہے جہاں سے بچنے کی اُمید کم ہے۔
بڑی آبادی، بڑی معیشت اور بڑی مارکیٹ کی وجہ سے بھارت ہمیشہ عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ ملک میں بڑھتے ارب پتیوں کی تعداد ایک الگ خوبی ہے جس سے دنیا متاثر رہی مگر مودی کی احمقانہ پالیسیوں نے عالمی توجہ کے مرکز بھارت کو عالمی دباؤ اور سفارتی تنہائی دھکیل دیا۔ دور کیوں جائیں مالدیپ کے موجودہ صدر محمد معیزو بھارتی فوجیوں کو نکالنے کے نعرے کی بدولت ہی منتخب ہوئے۔ نیپال میں بھارت سے نفرت اِس قدر عروج پر ہے کہ اُس نے نیا جغرافیائی نقشہ ترتیب دے لیا ہے جس میں شامل کئی علاقے ایسے ہیں جو بھارت کا حصہ ہیں۔
بنگلہ دیش جو بھارت کا قریبی اتحادی تھا وہاں سیاسی حالات نے وہ کروٹ لی ہے کہ شیخ حسینہ جیسی بھارتی طرفدار کو جلاوطنی کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش اب بھارت کی بجائے چین اور پاکستان سے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ بھوٹان جیسے ملک کو بھارت سے پانی سمیت کئی شکوے ہیں جبکہ سری لنکا تو تیزی سے چین کی طرف گامزن ہے۔ خطے میں بھارتی سامان کی بائیکاٹ مُہم جاری ہے۔ چین کا تذکرہ اِس لیے نہیں کیا کہ اُس کی بھارت سے مخاصمت پہلے ہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تاریخ میں ایسی بے توقیری منفرد مثال ہے ایسے حالات کیوں ہوئے ظاہر ہے مودی کی حاکمانہ سوچ اور متکبر رویہ ہی اہم وجہ ہے۔
جنگی پالیسیوں سے مودی نے زوال پذیر مقبولیت کو سہارہ دینے کی کوشش کی تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے مگر ناکام رہے۔ اڑی، پلوامہ، پٹھان کوٹ اور اب پہلگام دہشت گردانہ حملے کو جواز بناکر پاکستان کے خلاف ملک میں جذباتی فضا بنائی گئی اور بھارتی عوام کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان تو بس چند لمحوں کی مار ہے مگر رواں برس ماہ مئی میں جب جارحانہ کاروائیوں کا آغاز کیا گیا تو ابتدا میں پاکستان نے کافی امن پسندی کا مظاہرہ کیا جسے کمزوری سمجھ لیا گیا پھر نو اور دس مئی کی درمیانی شب پاکستان کی مسلح افواج نے وہ حیران کُن ردِ عمل دیا کہ بھارت کیا دنیا بھی ششدر رہ گئی۔
نہ صرف بھارت کے جدید ترین لڑاکا طیارے مار گرائے بلکہ اہم ترین فوجی اڈوں سمیت جدید ترین دفاعی نظام ایس 400 کو بھی مٹی کا ڈھیر بنا کرثابت کر دیا کہ مودی کی بڑھکوں میں کوئی حقیقت نہیں اور پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس کامیابی سے دنیا کی توجہ حاصل ہوئی آج پاکستان کو خطے سمیت دنیا بھر میں ہر جگہ خوش آمدید کہا جارہا ہے جبکہ دفاعی کمزوریاں افشا ہونے پر علاقائی طاقت ہونے کا دعویدار بھارت الگ تھلگ ہوچکا ہے۔
اسی لیے جب حزبِ مخالف کہتی ہے کہ مودی ملک کو لے ڈوبے ہیں تو حالات تائید کرتے ہیں۔ ووٹ چور، گڈی چور جیسے نعرے ملک کے طول و عرض میں گونج رہے ہیں۔ بی جے پی کی جھوٹی مقبولیت کا پردہ ہرگز چاک نہ ہوتا اگر مودی جیسے گھامڑ کے پاس قیادت نہ ہوتی۔ بہار کے صوبائی انتخابات میں بھی مودی کے حامیوں کی شکست کے آثار ہیں۔ سچ یہ ہے کہ مودی کے مظالم اور نااہلی سے بی جے پی میں بھی تبدیلی کی لہریں ہلکورے لینے لگی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی اقتدار کی تیسری مدت مکمل بھی کرتے ہیں یا ملکی وقار ختم کرنے کے ساتھ جماعت کی مقبولیت بھی ختم کربیٹھتے ہیں۔
چین کی وجہ سے امریکہ کے لیے بھارت کسی نعمت سے کم نہیں امریکہ کی یہ ضرورت ہی کواڑ کا حصہ بنانے کے ساتھ بھارت سے جوہری معاہدے کی بنیاد بنی میزائل کلب کی رُکنیت دینے میں بھی اسی ضرورت کا کلیدی کردار ہے مگر جب زوال آتا ہے تو ایسے ایسے سبب بنتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ مودی کے زوال نے نعمت اور ضرورت کو بھی بے اثر کر دیا ہے اور پچاس فیصد محصولات عائد ہونے سے بھارتی معیشت شدید دباؤ میں ہے۔
اِس دباؤ سے نکلنے کے لیے پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے چین کے قریب ہونے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی کے آثار ناپید ہیں۔ مودی کے دوست امبانی کے ریلائنس پر اسٹیٹ بینک نے اربوں کے فراڈ پر مقدمہ بنا دیا ہے۔ یہ شخص ہی دراصل مودی پر سرمایہ کاری کرتا ہے۔ دراصل جب زوال آتا ہے تو مہارت، چالیں اور صلاحتیں کارگر ثابت نہیں ہوتیں یہی کچھ مودی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اب تو بھارتی سیاست کے نبض شناس بھی کہنے لگے ہیں کہ مودی شاید ہی اقتدار کی تیسری مدت پوری کر سکے۔

