حالات اور ہیں بیان اور
عالمِ اسلام میں تحقیقی صحافت کا فقدان ہے ایسا احساس ویسے تو کئی دہائیوں سے ہے مگر سقوطِ دمشق نے اِس احساس کومزید قوی تر کردیا ہے۔ ایک مسلم ملک کے حصے بخرے کیے جارہے ہیں۔ پیش قدمی کرتی صیہونی افواج وحشیانہ بمباری میں مصروف ہے۔ اسرائیلی حملوں سے شام کی فضائیہ، بحری اور بری فوج تباہ کی جا چکی ہے لیکن ذرائع ابلاغ میں زیادہ تر حافظ الاسد اور مفرور صد ر بشار الاسد کے ظلم و فسطائیت کا تذکرہ ہورہا ہے۔ ایسا طرزِ عمل دانستہ طورپر حقائق چھپانے کے مترادف ہے۔ ایسا نہیں کہ سبھی اصل منصوبوں سے ناواقف ہیں بلکہ ایسے لوگوں بھی ہیں جنھیں شام میں کھیلے جانے والے اصل کھیل کا بخوبی علم ہے مگر چُپ سادھے ہوئے ہیں اِس کی وجہ خوف دامن گیر ہے یا ذرائع ابلاغ تک عدم رسائی، جوبھی ہے سکوت توڑ کر سچ طشت ازبام کرنے کی ضرورت ہے۔
شام کی تقسیم نوشتہ دیوار ہے سعودی عرب اور عرب لیگ کی طرف سے شامی وحدت و سلامتی کا تحفظ کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے لیکن کمزور کی بچھی بساط پر کوئی حیثیت یا اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے جیسے مطالبات عرب لیگ سمیت او آئی کی طرف سے ایک سے زائد بار کیے جا چکے مگر کسی عالمی طاقت نے ایسے مطالبات کو پذیرائی نہیں دی۔ غزہ اور بیروت پر اسرائیلی بمباری روکنے کے مطالبات بھی ہوئے لیکن اسرائیل نے اپنی مرضی کی جبکہ امریکہ جو بظاہر انسانی حقوق کا علمبردار ہے نے اسرائیل کے خلاف یو این او میں پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کرناہی اپنا اولیں فرض سمجھا ہے۔ بشارالاسد کو ملک سے فرار ہونے کا محفوظ راستہ دیکر شام میں اسرائیل کو جارحیت کے لیے جس طرح میدان ہموار کیا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں مگر تباہی کی رقم ہوتی داستانیں دیکھنے کے باوجود عالمی اور مسلم ذرائع ابلاغ پر 1970 سے جاری ظلم و ستم بیان کرنے کا مقابلہ ہے۔ آج بھی اسرائیلی وحشت و ظلم کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں سکوت ساطاری ہے۔
مجھے نہ تو حافظ الاسد سے کوئی ہمدردی ہے نہ ہی میرا مقصد بشارالاسد کے مظالم کو جواز کا پیراہن پہنا کر مسیحا ثابت کرنا ہے۔ باپ بیٹا دونوں اگر اکثریت کی پسند کا خیال رکھتے تو آج یوں رسوائیوں میں گم نہ ہوتے کیونکہ جلد بدیر ظلم و جبر کا خاتمہ ہوکر رہتا ہے۔ دانشمندی یہی ہے کہ اچھے کام کیے جائیں تاکہ برے انجام سے محفوظ رہاجا سکے مگر باپ نے جس ظلم و جبر کا آغاز کیا اُسے بیٹے نے اقتدار میں آکر مزید وسعت دی جس سے نہ صرف ملک میں باپ کے لیے موجود نفرت میں اضافہ ہوا بلکہ وہ خود بھی بدترین انجام کی پاتال میں جاگرے اور ایسے حالات میں فرار ہوئے کہ مستقبل میں واپسی کا کوئی امکان تک نہیں رہا۔
ایسے انجام سے بچا جا سکتا تھا اگر آمریت سے گریز کیا جاتا آزادی اظہار پر قدغن نہ لگائی جاتی نیز فسطائیت کا راج قائم کرنے کے بجائے ملک کو فلاحی ریاست بنایا جاتا مگر ایسا نہ کیا گیا جس کی پاداش میں آج ملک بدر ہیں۔ عوامی نفرت اُس کے والد کی ہر یادگار کو ملیا میٹ کررہی ہے۔ یہاں تک تو پھر بھی گوارا تھا کہ جو جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے دکھ کی بات یہ ہے کہ شامی وحدت و سلامتی کو لاحق خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔
آج شام عملی طورپر تین حصوں میں تقسیم ہے جبکہ بڑے علاقے پر اسرائیل نے نہ صرف بزور قبضہ کر لیا ہے بلکہ مزید پیش قدمی جاری ہے لیکن جارحیت روکنے اور ملکی سرحدوں کا تحفظ کرنے پر کسی کی توجہ نہیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایسے حالات باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنائے گئے ہیں۔ اپوزیشن نے اقتدارکے لالچ میں بیرونی آقائوں کی اطاعت کی اور ملک کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنے میں معاون بنی جبکہ صدارت کے منصب پر براجمان نے عوامی رائے جاننے سے اجتناب کیا۔
اُس کی حرکتوں سے آبادی اِس حد تک بدظن ہوتی چلی گئی کہ بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ہر قیمت چکانے پر آمادہ ہوئی عوامی جذبات کا ادراک کرتے ہوئے بیرونی طاقتیں حرکت میں آئیں اور آزادی دلانے کی آڑ میں اپوزیشن سے ہاتھ ملایا مگر یہ ایسی آزادی ہے جس سے ملک خاک و خون میں لت پت کھنڈرات بنتا جارہا ہے لیکن عالمی ذرائع ابلاغ اسد خاندان کو ظالم ثابت کرنے میں مصروف ہے جبکہ مسلم ذرائع ابلاغ بھی حقیقت بیانی کے بجائے سنی سنائی باتوں کی تشہیر کا ذریعہ بن چکا ہے۔
خلافتِ عثمانیہ کے آخری ایام میں بھی عربوں میں قوم پرستی کا بیج بویا گیا اور آزادی دلانے میں اعانت کرنے کے عوض اقتدار دلانے کے وعدے کیے گئے جب عربوں میں بغاوت پھیلنے لگی تو آزادی دلانے کی آڑ میں صیہونی ریاست کا مقصد حاصل کر لیا گیا اور عظیم اسلامی سلطنت کو کئی حصوں میں بانٹ کر کچھ اِس طرح نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ عرب آلہ کاروں کو اقتدار میں لانے کے لیے ایسی ریاستیں بنائی گئیں جواپنے دفاع کرنے سے بھی قاصر تھیں۔ وہ طریقہ کار پھر دہرایا گیا ہے۔ کئی حصوں میں تقسیم شام کا اقتدار سنبھالنے والی ہیئت التحریر بھی بیرونی جارحیت روکنے کی سکت نہیں رکھتی۔
بشارالاسد ایک ظالم اور آمر ہی سہی لیکن اُسے اقتدار سے نکالنے کا شام کو بہت نقصان ہوا ہے۔ شام کے دفاعی اثاثے تباہ اور عسکری نفوس کا وجود تک نہیں رہا جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسرائیل اپنی سرحدیں وسیع کررہا ہے مگر عالمی ذرائع تو ایک طرف مسلم ذرائع ابلاغ کی بھی ساری توجہ اسد خاندان کی فسطائیت اُجاگر کرنے پر ہے کوئی بھی شام کے خلاف ہونے والی سازشوں کو سمجھ کرپردہ چاک نہیں کر رہا۔
روس نے بظاہر معزول صدر بشارالاسد کو سیاسی پناہ دے دی ہے مگر ایسا امکان کلی طورپر رَد نہیں کیا جا سکتا کہ دولت مند صیہونی کمپنیوں کی طرف سے ملک کی خراب معیشت کو بہتر بنانے میں مددوتعاون کی پیشکش پر حامی بشارالاسد کو اقتدار سے الگ ہونے پر رضامند کیا ہو۔ لبنان کی حزب اللہ اور غزہ کی حماس لاغر ہو چکیں اسرائیلی فوجیں دمشق سے محض پندرہ کلومیٹر کی دوری پر ہیں، اِس کے باوجود اقتدار میں آنے والی اپوزیشن کی توجہ ملک کے دفاع سے زیادہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے پر ہے۔
ہیئت التحریرنے سرحدیں پامال کرتے خون آشام درندوں سے آنکھیں موند رکھی ہیں عالمی ذرائع ابلاغ پر تو خیر اغیار کاغلبہ سہی ستم ظریفی تویہ ہے کہ نقل کے رجحان کو ہی مسلم ابلاغی ذرائع بھی حقیقی صحافت سمجھ بیٹھے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو حقیقی خطرات کواُجاگر کرنے پر توجہ دیتے سوال یہ ہے کہ غزہ سمیت فلسطین، بیروت اورشام کی تباہی کے بعد آخرکار ہمارے ذرائع ابلاغ کو بیدار کرنے لیے اور کتنے زخموں کی ضرورت ہے؟