غزہ کا امن اور انعام کا جنون

کیا دو ریاستی حل مشرقِ وسطیٰ کے امن کا ضامن ثابت ہوگا؟ اِس حوالے سے وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر امریکی صدر کے حماس پر دبائو سے واضح ہے کہ امن منصوبہ تسلیم کرلیا جائے گا اور مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے بالواسطہ مذاکرات میں قیدیوں کے تبادلے کا طریقہ کار بھی طے پاجائے گا۔ امن منصوبے کے نتائج کا دنیا کو ہی شدت سے انتظار نہیں بلکہ امریکی صدر بھی یقیناََ بے چین ہوں گے کیونکہ نوبل انعام تقسیم کرنے کے لیے نامزدگی کاعمل رواں ماہ چھ اکتوبر سے شروع ہوچکا ہے جو تیرہ اکتوبر مکمل ہوجائے گا جس کا حصول امن منصوبے کے نتائج پر ہے۔ مگر ایسے حالات میں جب قطر اور مصر کے اہلکار مذاکرات میں فریقین سے امن منصوبے پر عمل درآمد کے حوالے سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں پھر بھی غزہ پر اسرائیل بمباری کررہا ہے، فضائی حملے جاری ہیں۔ جنونی فوجی بھی قتلِ عام میں مصروف ہیں تاکہ سیز فائر سے قبل زیادہ سے زیادہ شہری آبادی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ وحشت و سفاکیت ہے جسے دفاع کا حق نہیں کہہ سکتے یہ تو ایک طاقتور وحشی کا کمزور پرظلم و جبر ہے اِتنے جرائم میں شریکِ کار ہونے کے باوجود ٹرمپ کی طرف سے نوبل انعام کی آرزو باعثِ تعجب ہے۔
حقِ حکمرانی سے دستبرداری حماس کے لیے مشکل مرحلہ ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں کیونکہ ایسا کرنے کے سوا اُس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں، البتہ غزہ سے اسرائیل کا مکمل طور پر فوجی انخلا ہونا کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ اُسے امریکی حمایت اور اسلحے کی فراہمی جاری ہے اِس لیے آپشن بھی لامحدود ہیں۔ سات اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے حماس کو مسلسل مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ میرا شروع سے موقف رہا ہے کہ حماس نے حملے کی حماقت کی ہے اب اِس کے نتائج غزہ کے عام مکین بھگتیں گے۔
وہی ہوا جس کا خدشہ تھا اسرائیل نے وحشیانہ حملوں سے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی سکولوں، ہسپتالوں، رہائشی عمارتوں اور امدادی مراکز کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا اور اب ناکہ بندی سے معصوم شہریوں کو بھوک و پیاس سے مار رہا ہے۔ یہ درندگی ہی دنیا کو جگانے کا باعث بنی، دنیا کے چوالیس ممالک کے رضا کار اپنی حکومتوں کی لاتعلقی کے باوجود غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ صمودفلوٹیلا کے نام سے حال ہی میں پچاس کشتیوں کے ذریعے پانچ سو رضا کار غزہ کے قریب گرفتار ہوئے۔ اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور ایران میں حماس رہنما اسمعیل ہانیہ کو نشانہ بنایا۔ امریکی اتحادی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس وفد پر حملہ کیا، خطے کا امن برباد کرنے کے لیے امریکہ نے اسرائیل کو دفاع کے نام پر کُھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ غزہ میں امن کے لیے جب بھی اقوامِ متحدہ میں قرارداد پیش کی گئی امریکہ مسلسل ویٹو کر رہا ہے۔ ٹرمپ غزہ نسل کشی کے جُرم میں شریک کار ہے اِن حالات میں امن کا نوبل انعام دنیا انصاف نہیں طاقتور کے آگے جھکنا ہوگا۔
پاکستان سمیت آٹھ اسلامی ممالک نے غزہ جنگ بندی کے لیے حماس کے مثبت ردِ عمل کا خیر مقدم کیا ہے مگر حکومتوں کی طرف سے سراہنے کے باوجود عوام کو تحفظات ہیں۔ خیر حماس کے پاس ایسا متبادل ہی نہیں کہ وہ اِس کے سوا کچھ اور سوچ سکے۔ جب ہر بار اقوامِ متحدہ میں امن کی قرارداد کو امریکہ ویٹو کر دیتا ہے اور ایک برس سے غزہ میں ادویات، کھانے پینے کی اشیا سمیت صاف پانی تک کی قلت ہے ایسے حالات میں حماس کی رضامندی ایک قسم کی مجبوری ہے۔ یہ مجبوری ہی امریکی صدر کی ناپسندیدہ شرائط کو تسلیم کرنے کا موجب ہے۔ حماس کی طرف سے اپنا اسلحہ خود مختار فلسطینی ریاست کے حوالے کرنے کا وعدہ معاملات سے الگ ہونے کی طرف اِشارہ ہے لیکن ایسے حالات میں جب دنیا کے تجزیہ کار متفق ہیں کہ ایک مکمل طور پر آزاد وخود مختار فلسطینی ریاست کا ظہور ناممکن ہے تو سوال یہ ہے کہ حماس اپنا اسلحہ کس کے حوالے کرے گی؟ اسرائیل کیسے اور کب فوجی انخلا کرے گا؟ بظاہر ایسے کئی سوالات ہیں جن کاکسی کے پاس جواب نہیں توسوال یہ ہے کہ جب غزہ کا امن بحال نہیں ہونا تو امن کا نوبل انعام کا جنون کیونکر ہے؟
79 سالہ امریکی صدر ٹرمپ کو اپنی ذہانت اور معاملہ فہمی پر ناز ہے۔ وہ ایک متکبر اور نمود ونمائش کا رسیا ایسا شخص ہے جسے اپنی ذات کے سوا کسی کی کم ہی پروا ہوتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ٹرمپ سے زیادہ سویڈن کی بائس سالہ گریٹا تھون برگ عوام میں زیادہ قابلِ اعتبار اور لائقِ احترام ہے جو مظاہرے کی پاداش میں اپنے ملک میں گرفتار ہوئی اور تمام تر نامساعد حالات کے باوجود غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کی عملی کوشش کی۔ ٹرمپ سے تو اُن کے اپنے ملک کی عوامی اکثریت بدظن ہے۔ فلسطینی تو ویسے بھی اُنھیں ناپسند کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے مسلم حکمرانوں کی حمایت سے ٹرمپ ناانصافی پر مبنی اپنا امن منصوبہ منوا لے اور امن کا نوبل انعام بھی حاصل کر لے لیکن خطے میں حقیقی امن ملنے کے آثار کم ہیں کیونکہ امن کی آڑ میں انھیں اسرائیل کو محفوظ و مستحکم بنانے کا جنون ہے۔ اسی لیے غزہ میں سیز فائر کی ہر کوشش کو ویٹو پاور سے ناکام بنا کر اسرائیل کو قتلِ عام کے مواقع دیئے۔ ستر ہزار معصوم شہریوں کی خونریزی کرانے کے بعد امن کا نوبل انعام لینا ویسے ہی بے معنی ہوجاتا ہے۔
1994 میں اوسلو امن معاہدے کے تین اہم کرداروں پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات، اسرائیل کے دو سابق وزرائے اعظم شمعون پیریز اور اسحاق رابن کو بھی امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اِن میں اسحاق رابن کو تو ایک جنونی یہودی نے قتل کر دیا مزید حیرانگی کی بات یہ کہ اِس قتل پر اسرائیل میں خوشیاں منائی گئیں۔ اِس واقعہ سے اسرائیلیوں کی سوچ آشکار ہوتی ہے کہ امن کے علمبرداروں کو وہ پسند نہیں کرتے اِسی لیے فلسطینیوں کو امن نصیب نہیں ہو رہا۔
غزہ کا قتلِ عام جدید دنیا کا ہولوکاسٹ ہے خیر ٹرمپ کی بھی مسلم دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں وہ نفرت چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتے اِس کے باوجود مسلم ممالک کی طر ف سے نام نہاد امن منصوبہ قبول کرنا سمجھ سے باہر ہے اور ہاں غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانا یا توڑنا تو اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی ذمہ داری تھی مگر یہ دونوں اِدارے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکے۔ جب سب کو معلوم ہے کہ ٹرمپ قتلِ عام کا سرپرست اور مذہبی تعصب رکھتا ہے تو امن کا نوبل انعام حاصل کرنے میں مسلم ممالک کی سہولت کاری ناقابلِ فہم ہے۔

