دوحہ کانفرنس اور فیصلے

دوحہ پر ہونے والا 9 ستمبر کا بہیمانہ اور بلا اشتعال حملہ ہر حوالے سے قابلِ مذمت ہے۔ اِس کا واحد مقصد مشرقِ وسطیٰ میں جاری امن کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے تاکہ اسرائیل کو جارحیت کے جواز حاصل رہیں۔ حملے کے اثرات و مضمرات کا جائزہ لینے اور آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے قطر کی میزبانی میں پندرہ ستمبر کو اسلامی دنیا کی سربراہی کانفرنس ہوئی جو شرکت کے حوالے سے تو بھرپور اور جامع رہی جس میں حملے کے اثرات و مضمرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا مگر کانفرنس سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں وجہ فیصلوں کا فقدان رہا حالانکہ اچھا موقع تھا کہ قطر سب کو اعتماد میں لیکر اسرائیل کے معاشی و اقتصادی بائیکاٹ پر راضی کرلیتا مگر ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔
خود قطر ابھی تک اسرائیل کو گیس کی فراہمی کا سلسلہ معطل نہیں کر پا رہا۔ علاوہ ازیں یو اے ای کا اسرائیل کے خلاف کسی فوجی کاروائی میں ساتھ دینے اور تعلقات پر نظرثانی کرنے سے انکار مزید تباہ کُن ہے۔ فی کس آمدن کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر شمار ہونے والا قطر جیسا امیر ملک فیصلوں میں اِتنا کمزور اور بے بس ہوگا حیرت ہے اسی لیے واقفانِ حال کا کہنا ہے قطر جوابی کاروائی کی بجائے دوحہ حملے جیسے واقعات آئندہ نہ دُہرائے جانے کی گارنٹی چاہتا ہے۔ امریکہ نے ایسی یقین دہانی کرائی تو ہے مگر قطری قیادت کے شکوک و شبہات برقرار ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ خطے میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی اور جدید ترین ہتھیاروں کے باوجود قطری آزادی و خود مختاری کی پامالی ہوگئی مگر امریکی گارنٹر کی طرف سے کچھ نہ کرنا ملی بھگت ظاہر ہوتی ہے، اسی بنا پر قطر مزید اعتماد کرتے ہوئے ہچکچا تو رہا ہے لیکن غیر معمولی فیصلہ کرنے کی ہمت بھی نہیں کرپارہا۔
عین ایسے وقت جب قطر پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے اسلامی ممالک غور و خوض میں مصروف تھے امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اپنی غیر متزلزل حمایت کا یقین دلانے کے لیے اسرائیلی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ یہ اشارہ ہے کہ عربوں کے غم و غصے کو امریکی وقتی اُبال سمجھتے ہیں کیونکہ عرب بادشاہتوں کا سرپراست امریکہ ہے اور وہ جانتا ہے کہ سرپرستی سے دست کش ہونے کی صورت میں یہ بادشاہتیں اپنا وجود کھو بیٹھیں گی۔ اسی لیے عرب بادشاہ ایسا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں جو اقتدار سے محرومی کا باعث بنے۔ ایسی سوچ نے ہی عرب شاہوں کو غیر معمولی فیصلوں سے روک رکھا ہے اور وہ اقتدار کے لیے آزادی و خود مختاری کی خلاف ورزیاں تک برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
اگر آزادی و خود مختاری کا تحفظ کرنا ہے تو عرب ممالک کو غیر معمولی دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے جس طرح رواں برس پاکستان نے حملے کے جواب میں چند گھنٹوں میں بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ جون میں اسرائیلی حملے کے وقت ایسے حالات میں جب فضائیہ نہ ہونے کے برابر تھی اِس کے باوجود ایران نے بھرپور جوابی کاروائی کی۔ پاکستان اور ایران کے بروقت اور منہ توڑ فیصلوں کا ہی اثر تھا کہ جارح ممالک جنگ بندی پر مجبور ہوئے۔ قطر نے بھی جوابی کاروائی کا عندیہ ظاہر کر رکھا ہے مگر حملے کو آٹھ روز گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک اسرائیل کو بددستور گیس کی فراہمی جاری ہے۔ یہ کمزوری اور بزدلی کی انتہا ہے جب تک عرب ممالک عوامی پسند و ناپسند کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھیں گے عالمی طاقتیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتی رہیں گی۔ دنیا کے زرائع ابلاغ پر اسرائیل نواز طاقتوں کا کنٹرول ضرور ہے قطر کے پاس تو الجزیرہ جیسا اہم زریعہ موجود ہے جس کی ایک ساکھ ہے۔ دنیا اُسے سنتی اور اعتماد کرتی ہے اِس کے باوجود وہ کیوں اپنا موقف درست طریقے سے پیش نہیں کرپارہا کہ دنیا کی ہمدردیاں حاصل کر سکے؟
قطر پر حملہ ریاستی دہشت گردی ہے جس پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہوگا۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی پر اُس کی رُکنیت معطل کرانے کی کوششیں وقت کی ضرورت ہیں۔ غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے بدترین نسل کشی کے خلاف اب بھی اگر مسلم ممالک اجتماعی اقدامات نہیں کرتے تو تاریخ اُنھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ دوحہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل سے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ تو کیا گیا ہے مگر اسرائیل جیسا غاصب ملک ایسا کیوں کرے گا؟ جب عدم تعمیل کی صورت میں کسی قسم کی تادیبی کاروائی کا کوئی خدشہ نہیں پاکستان نے قطر سے یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل کو کٹہرے میں لانے نیز اُسے، توسیع پسندانہ عزائم سے روکنے کے لیے اسلامی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دی ہے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب عرب ممالک میں اتحاد و اتفاق ہو۔
عربوں کی درُگت بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے سارا وزن امریکی پلڑے میں ڈال رکھا ہے۔ اُن کی دولت امریکہ اور مغربی ممالک کے پاس ہے۔ اسلحہ ہو یا فضایہ، سب امریکی و مغربی ساختہ ہے اسی لیے جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو دولت، اسلحہ اور فضائیہ سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ محض 11571 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط قطر کا دفاعی بجٹ پاکستان سے زیادہ ہے لیکن اپنے دفاع کے پھر بھی قابل نہیں۔ اگر عرب ممالک امریکہ یا مغربی ممالک پر انحصار کرنے کی بجائے متبادل کا آپشن بھی رکھیں تو حالات یکسر مختلف ہوں۔
ترکیہ نیٹو کا رُکن ہونے کے باوجود روسی ہتھیار بھی خریدتا ہے۔ خوش قسمتی سے چین و روس کو نئے اتحادیوں کی تلاش ہے اِس دستیاب موقع سے فائدہ اُٹھانا ہی دانشمندی ہے اِس کے لیے پاکستان کی صورت میں زریعہ موجود ہے جس کے تجربات اور فضائیہ سے بھی عرب فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ضرورت کے وقت اسلحہ اور فضائیہ کو خود استعمال کرسکیں گے۔ پاکستان اور ترکیہ کے پاس اپنے عرب بھائیوں کی تربیت کرنے کی بھی صلاحیت ہے یہ تبھی ممکن ہے جب امریکہ اور مغربی ممالک پر انحصار کم اور متبادل ہو۔ اسلامی سربراہی کانفرس کے فیصلوں سے توبظاہر ایساتاثر ملتا ہے جیسے امریکہ سے پوچھ کر کیے گئے ہوں۔
قطر حملے پر پاکستان، ترکیہ، ملائشیا اور ایران جیسے ممالک نے تو جاندار موقف اختیار کیا مگر عربوں کا موقف غیر واضح اور مُبہم ہے صرف مذمت سے حملے یا میزائل رُکتے تو ساری دنیا کی طرف سے مذمت کے باوجود غزہ میں بدترین نسل کشی نہ ہورہی ہوتی۔ عزت اور انصاف کے لیے بھی طاقت ضروری ہے۔ آزربائیجان، پاکستان اور ایران یہ ثابت کرچکے پھر بھی عرب ممالک سمجھ نہیں پارہے۔ ٹھیک ہے مشترکہ اعلامیے میں مسلم ممالک نے قطر کے ثالثی عمل پر حملے کو عالمی امن کوششوں پر حملہ قرار دیا ہے مگر اسرائیل کو یو این او میں بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا۔ سلامتی کونسل تو اسرائیل کا نام لیے بغیر قطر پر حملے کی مذمت کرتی ہے۔ امیر ترین عرب ممالک کے باوجود اسرائیل غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے اِس کے باوجود نتیجہ خیز فیصلے نہیں ہو رہے۔ پاکستان و ترکیہ کی دفاعی خود کفالت سے فائدہ اُٹھا کر عرب دفاعی حوالے سے خود مختار ہوں وگرنہ یاد رکھیں باری باری سبھی عرب ممالک اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بنیں گے۔

