Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Chaliye Janab Mulk Poland Ki Taraf

Chaliye Janab Mulk Poland Ki Taraf

چلیے جناب ملک پولینڈ کی طرف

سفر نت نئی ملاقاتوں کا وسیلہ بنتے ہیں، مختلف رہن سہن اور معاشرت جاننے کے ساتھ ہر روز ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ اب تو ذرائع آمد و رفت اور تیز تر مواصلاتی رابطوں نے دنیا کو گلوبل ویلج بنا دیا ہے۔ اب ہر ایک کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ کی بدولت دنیا کے حالات جاننا بہت آسان ہے، مگر جو لطف سیاحت میں ہے وہ ریکارڈ شدہ مواد دیکھ کر نہیں آتا۔ حالاتِ حاضرہ سے آگاہی رکھنے والوں کی طرح دنیا میں ایسی تعداد بھی کافی ہے جو ملک ملک اور نگر نگر گھوم پھر کر قدرت کی تخلیقات دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اِس مقصد کے لیے لاکھوں کی تعدد میں سیاح زوقِ جمال کی تسکین کے لیے دنیا کے ہر خطے میں سرگرداں ہیں، حالانکہ درجنوں ممالک میں جاچکا ہوں مگر کچھ علاقے یا شہر ایسے ہیں جہاں جاکر بندہ کھو سا جاتا ہے پولینڈ کے دارلحکومت وارسا میں گھومنے کے بعد میرے کچھ ایسے ہی احساسات ہیں۔

کوپن ہیگن ائر پورٹ پر اُترنے کے بعد ہمارا مختصر سا قافلہ جائے قیام مالمو کی طرف روانہ ہوا۔ مذکورہ دونوں شہروں کے درمیان آبنائے اوریسنڈ ہے جس پر بنایا گیا تاریخی پُل ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن اور سویڈن کے شہر مالمو کو آپس میں جوڑتا ہے۔ 7845 میٹر طویل یہ یورپ کا سب سے طویل پُل ہے۔ سڑک، سرنگ اور ریل کی وجہ سے اِسے سہ قِسمی کہہ سکتے ہیں۔ 1995 میں شروع ہوکر یہ پُل 14 اگست 1999 میں مکمل ہوگیا۔ جولائی 2001 میں ڈنمارک کی ملکہ مارگریٹ ثانی اور سویڈش ہم منصب کارل گسٹاف نے افتتاح کرتے ہوئے اِسے عام آمدورفت کے لیے کھول دیا۔

دونوں ممالک کو یقین ہے کہ اِس کی مکمل لاگت 2035 تک وصول کر لیں گے۔ اِس پُل سے روزانہ ہزاروں لوگ گزرتے ہیں۔ یہ دونوں ممالک میں ایسی سفری سہولتوں کا باعث ہے جس سے کام کاج کے سلسلے میں ایک ملک سے دوسرے ملک جانے میں شہریوں کو سہولت ہوئی ہے وہ کام کاج کے بعد شب بسری کے مقام پر باآسانی آسکتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے سویڈن کا تیسرا بڑا شہر مالمو ایک پُر امن اور خوبصورت شہرہے جو قدیم و جدید کا حسین امتزاج ہے۔ اِس کی جہاز سازی کی شہرت کے باعث ہی ہم نے طے کیا کہ مالمو سے وارسا جانے کے لیے جتنا ممکن ہو بحری جہاز سے سفر کیا جائے۔

چلیے جناب ملک پولینڈ کی طرف، نصف شب سے قبل میزبان ارشاد ناظر کی ہمرکابی میں مالمو سے کوچِ سفر کیا شہر کی بندرگاہ پر موجود ایک کثیر منزلہ بحری جہاز پر سوار ہونے کے لیے ٹکٹ دکھا کر اجازت حاصل کرنے جیسے مراحل طے ہوگئے تو اپنے کمرے کا رُخ کیا، سامان قرینے سے رکھا اور سفری ذریعے کاجائزہ لینے نکل کھڑے ہوئے۔ یہ جہاز ایک چلتا پھرتا شہر تھا، گاڑیوں و بسوں کی وسیع پارکنگ کے علاوہ خریداری کے لیے دکانیں اور بکثرت تفریحی لوازمات تھے۔ میرا یہ پہلا طویل سمندری سفر تھا اِس لیے مختلف جہاز ڈوبنے کی کہانیاں ذہن میں تھیں لیکن سپیدہ سحر سے قبل جہاز نے بحفاظت پولینڈ کی سرزمین پر پہنچا دیا تو ہم نے پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کی راہ لی۔

وسطی یورپ کایہ ملک زرعی اجناس کے لیے یورپ میں اہم مقام کاحامل ہے۔ یہ دنیا میں سرسوں کی پیداوار میں دوسرے اور سیب کی پیداوار میں تیسرے نمبر پر ہے۔ آلو، گندم، چینی، تمباکو بھی اہم پیداوار ہیں۔ جرمنی، روس، بیلا روس، یوکرین، چیک اور سلواکیہ میں گھرا چار کروڑ نفوس پر مشتمل یہ ملک آبادی کے حوالہ سے یورپی یونین کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ گاڑی سڑک پر فراٹے بھرتی جارہی تھی اور اطراف میں میلوں طویل سرسوں کے کھیت تھے، یوں لگتا تھا جیسے کسی نے پیلا رنگ کر دیا ہے۔ فطرت کے یہ رنگ فرحت بخشی کے ایسے احساس اور لطف کوجنم دے رہے تھے جسے الفاظ کا پیراہن پہنانا بھی پُرلطف ہے۔

وارسا شہر کو1955 میں اُس وقت عالمگیر شہرت حاصل ہوئی جب وسطی اور مشرقی یورپ کی اشتراکی ریاستوں نے چودہ مئی 1955کو ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے کسی ایک ملک کو بیرونی جارحیت کا سامنا ہوا تو معاہدے میں شامل تمام ممالک ملکر دفاع کریں گے جسے وارسا معاہدہ کہا جاتا ہے۔

وارسا شہرکے بارے میں سستا ہونے کی کافی کہانیاں سُن رکھی تھیں جو پہنچنے پر محض زیبِ داستان اور افسانہ معلوم ہوئیں۔ یورپی یونین کا حصہ ہونے کی بنا پر یورو میں خریدوفروخت کی جا سکتی ہے مگر مقامی کرنسی زلوٹی کی بھی اہمیت ہے کیونکہ اگر آپ نے کوئی سرکاری ادائیگی کرنا ہے تو لازم ہے آپ کے پاس مقامی کرنسی ہو وگرنہ مشکل پیش آسکتی ہے۔ مزید خاص بات یہ کہ اِس حوالے سے مقامی لوگ مددگار نہیں ہوتے۔ یہاں چند ایک مصروفیات تھیں جن سے فراغت ہوئی تو دوپہرکے کھانے کا وقت ہوچکا تھا جس کی میزبانی خوش اخلاق چوہدری شمریز نے کی جن کا گجرات کے گائوں ساکہ سندوعہ سے تعلق ہے۔

ذاتی تجربے کی روشنی میں کہوں گا کہ دنیا کے ہر ملک میں گجرات کے شہری موجود ہیں جس ملک بھی گیا ہوں میرے حصے گجراتیوں کی محبت اور احترام والی مہمان نوازی آئی۔ گجرات کے لوگ مہمان نواز ہونے کے ساتھ ملنسار بھی ہوتے ہیں۔ ہمارا کھانا وارسا کے وسط میں لاہور ریسٹورنٹ پر رکھا گیا تھا۔ ایک یورپی ملک میں لاہور سے محبت دیکھ کر دل سے آواز آئی کہ واقعی لاہور لاہور ہے اور اِس کا کوئی ثانی نہیں۔ لاہور ریسٹورنٹ پر ایشیائی کے ساتھ یورپی کھانے بھی ہیں اِس بڑی ضیافت میں دوران طعام تبادلہ خیال بھی ہوتا رہا۔

پولینڈ کوئی امیر ملک نہیں اسی لیے یہاں تارکینِ وطن زیادہ کشش محسوس نہیں کرتے۔ ملازمت کے مواقع کم ہیں اور جو ہیں وہ بھی اِس بنا پر زیادہ اہم نہیں سمجھتے جاتے کہ تنخواہیں قلیل ہیں۔ اسی لیے تارکینِ وطن کی پولینڈ کے بعد اگلی منزل یورپ کے دیگر امیر ممالک فرانس، جرمنی، بیلجئم، سوئس اور اسکنڈے نیوین ہوتی ہے جہاں پُرکشش تنخواہیں ملتی ہیں۔ اِس کے باوجود پاکستانیوں، بھارتیوں، بنگلہ دیشیوں کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اِس کی شاید بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے تعلیمی اِدارے غیر ملکی طلبا کو داخلے دیتے وقت نہ صرف فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ سفارتخانے بھی ویزہ دیتے وقت غیر ضروری اعتراضات نہیں لگاتے۔ دورانِ تعلیم اور بعد میں یہ ملک رہنے اور ملازمت دینے میں کافی نرمی اور رحمدلی سے کام لیتا ہے اِسی بنا پر تو پولینڈ کو تارکینِ وطن یورپ میں داخلے کے لیے گیٹ وے کہتے ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan