Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Bharat o Afghan Gath Jor Aur Aman

Bharat o Afghan Gath Jor Aur Aman

بھارت و افغان گٹھ جوڑ اور امن

افغانستان کی جنگوں اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی طویل تاریخ ہے۔ یہ ملک اب بھی امن کا گہوارہ نہیں کیونکہ طالبان رجیم عوامی اُمنگوں کے مطابق نہیں بلکہ یہ طاقت کے بل بوتے پرایک قابض گروہ ہے جن کے کنٹرول میں ملک کا بڑا حصہ ہے۔ یہ ابھی تک کئی وجوہات کی بنا پر دنیا کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ افغانوں کی بڑی تعداد کی طرح تمام ہمسایہ ممالک پاکستان، ایران، چین، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان بھی اُنھیں شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں مگر آثار سے لگتا ہے طالبان کو افغان عوام اور ہمسایہ ممالک کے شہبات دور کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ اب بھی اپنے نکتہ نظر کے مقید ہیں اسی بنا پر پندرہ اگست 2021 یعنی چار برس سے کابل پر قبضے اور حکمرانی کے باوجود دنیا سے الگ تھلگ ہیں۔

خواتین کے لیے یہ ملک ایسی جیل کی مانند ہے جہاں وہ حقوق کے بغیر صرف زندگی کے دن پورے کر سکتی ہیں۔ یہاں تعلیم و روزگار کے مواقع سمٹ رہے ہیں۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے باوجود یہ ملک سیاسی اور معاشی حوالے سے غیر محفوظ اور غیر مستحکم ہے اِس لیے مستقبل میں لڑائی اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا مرکز نہ بننے کے حوالے سے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ وجہ عوام میں اضطرات و بے چینی کا فروغ پانا اور ہمسایہ ممالک کے فکرمندی میں مسلسل اضافہ ہونا ہے۔ طالبان کے اندرونی اختلافات بھی عروج پر ہیں۔ اِس کی وجہ قندھاری گروپ کی آمرانہ اور متشدد روش ہے۔ بظاہر طالبان کو افغان عوام کے اضطراب و بے چینی اور ہمسایہ ممالک کی فکرمندی دور کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمسایہ ممالک سے تعلقات کشیدہ ہونے پر غربت وبے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر طالبان متشدد رویہ، لاپرواہی، دباؤ اور بلیک میلنگ جیسے حربے ترک کر دیں تو نہ صرف ہمسایہ ممالک کی فکرمندی ختم ہو سکتی ہے بلکہ امن کو لاحق خطرات بھی ختم ہو سکتے ہیں۔

رواں ہفتے دو ایسے واقعات پیش آئے جن سے طالبان بارے دنیا کی فکرمندی میں اضافہ ہوگا جن سے پاکستانی تحفظات کی بھی تائید ہوئی ہے کہ طالبان امن کے داعی نہیں بلکہ اُن کی حکومت میں افغانستان دہشت گرد گروہوں کا مرکز بن چکا ہے۔ امریکہ میں وائٹ ہاؤس کے قریب ایک افغان شہری کا نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں پر حملہ کرنا اور 26 نومبر کی شب افغان سرزمین سے تاجکستان کے اندر ڈرون سے چینی شہریوں کو نشانہ بنانا سنگین واقعات ہیں۔

سچ یہ ہے کہ ایسی تخریبی کاروائیاں دنیا کے ساتھ خود افغانستان کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ اِن سے متاثرہ ممالک کاتشویش میں مبتلا ہونا فطری ہے۔ تاجکستان نے ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے افغان رجیم سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاستی سرحد پر استحکام اور سلامتی یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کریں، جبکہ صدر ٹرمپ نے حملہ آور مشتبہ افغانی کو درندہ قرار دیتے ہوئے افغان شہریوں کی امیگریشن درخواستوں پر فوری پابندی عائد کردی ہے۔ علاوہ ازیں امریکی انتظامیہ نے صدر جوبائیڈن کے دورِ حکومت میں امریکہ آنے والے افغانوں کی دوبارہ جانچ کا عندیہ دیا ہے۔ افغانستان ایک بار پھر لڑائی کا مرکز بننے کے ساتھ سیاسی عدمِ استحکام کے نرغے میں ہے جس کا ایک ہی حل ہے کہ طالبان ہمسایہ ممالک کے خدشات و تحفظات دور کریں اور ایسے فیصلے کریں جن سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔ ہمسایہ ممالک اور دنیا کا اعتماد حاصل کرنا بہانے بازی نہیں امن کے لیے سنجیدہ اقدامات سے مشروط ہے۔

پاک افغان سرحدی بندش نے افغانستان کو بدترین معاشی، تجارتی اور انتظامی بحران سے دوچار کردیا ہے جس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ اِس فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان طالبان داخلی طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اگر وہ دہشت گردوں کی سرپرستی ترک کر دیں تونہ صرف پاک افغان غیر ہموار تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں بلکہ اُن کے لیے دنیا تک تجارتی رسائی بھی آسان ہو سکتی ہے لیکن قرآئن سے ظاہر ہے کہ طالبان ضد و ہٹ دھرمی کی روش چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔

اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2025 میں 23 لاکھ سے زائد افغانوں کی واپسی سے ملک شدید مشکلات میں ہے۔ غربت، ناقص سہولیات اور بے روزگاری نے افغانستان پر غیر معمولی دباؤ ڈالا ہے۔ محدود رسائی، پابندیوں اور تحفظ کے خطرات سے خواتین بُری طرح متاثر ہیں۔ مگر کیا طالبان کو بڑھتے داخلی خطرات کا احساس ہے اُن کے طرزِ عمل سے تو ایسا کوئی اِشارہ نہیں ملتا کیونکہ دیوالیہ معیشت کے ساتھ بھارتی سرمایہ کاروں کو رعایتوں نے امن اور معاشی مستقبل کے حوالے سے کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ جب واضح ہے کہ قابض طالبان کی ہٹ دھرمی افغانوں کو شدید داخلی بحران میں دھکیل سکتی ہے تو پاکستان جیسے مہربان ملک سے دوری کو کج فہمی اور کوتاہ نظری کا لقب ہی دیا جا سکتا ہے۔

ٹی ٹی پی، ٹی ٹی اے، بی ایل اے، داعش سمیت ایسے دہشت گرد اور شدت پسند گروہ دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہیں اِن کا خاتمہ خطے کے ساتھ دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے یہ گروہ کسی نرمی یا رعایت کے مستحق نہیں۔ اِن کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں مگر اِس کے باوجود اُن پر مہربان ہیں۔ بظاہر انھیں امن کوششوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تاجکستان سے لیکر امریکہ تک افغانوں کا دہشت گردی میں ملوث ہونا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کے طالبان سے تحفظات درست ہیں اور اگر خطے کے ساتھ دنیا کو دہشت گردی اور شدت پسندی سے پاک کرنا ہے تو افغان دہشت گرد اور شدت پسند گروہوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی ناگزیر ہے، لیکن دہشت گرد اور شدت پسند گروہوں کی سرپرستی سے طالبان بظاہر ہمسایہ ممالک کو خوف اور دباؤ میں رکھنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا لگتے ہیں، لہذا ضروری ہے کہ امن کے لیے سب ایک ہوں اور طالبان کو مجبور کیا جائے کہ خطے کے ممالک اور دنیا کے تحفظات دور کریں تاکہ دیرپا امن کا خواب پورا ہو اور خطے میں معاشی و تجارتی سرگرمیاں فروغ پائیں۔

بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ایک حقیقت ہے۔ دونوں کا یجنڈا دہشت گردی ہے جس پر پاکستان کا فکر مند ہونا اِس بنا پر فطری ہے کہ طویل عرصہ سے فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کا نشانہ ہے۔ بھارت کے جارحانہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اگر افغان طالبان بھروسہ مند نہیں تو بھارت بھی دنیا کے اعتماد و اعتبار سے محرومی کے دہانے پر ہے۔ اگر پاکستان، ایران، چین اور وسط ایشیائی ممالک متفقہ لاعحہ عمل اپنا کر بھارت و افغان گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات دنیا پر واضح کریں تو اقوامِ عالم کا مثبت ردِ عمل آسکتا ہے اِس طرح افغانستان کو دوبارہ لڑائی کا مرکز بننے سے روکنے کے ساتھ سیاسی عدمِ استحکام سے بھی بچایاجا سکتا ہے۔ بھارت افغان گٹھ جوڑ خطے کے ساتھ دنیا کے امن کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے جس کا جتنا جلد ادراک کر لیا جائے دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz