Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Aman Muahide Ke Asraat

Aman Muahide Ke Asraat

امن معاہدے کے اثرات

امن معاہدے پر دستخط کی تقریب کے چند گھنٹوں بعد ہی اسرائیلی حملوں کے تسلسل کی بحالی سے یہ تو واضح ہوگیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں مکمل امن کے لیے انصاف ناگزیر ہے۔ جہاں تک ٹرمپ منصوبے کی بات ہے اُس میں جتنی توجہ اسرائیل کو محفوظ اور مستحکم بنانے پر دی گئی ہے اُتنی انصاف پر نہیں دی گئی۔ اسی بناپر معاہدہ ٹھونسنے کا تاثرہے۔ ایک فریق حماس کو مجبور کیا گیا ہے کہ معاہدہ قبول کرو یا پھر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ یہ رویہ فریقین کی طرف سے امن معاہدہ قبول کرنے کے باوجود ناکامی کے خدشات میں اضافہ کرتا ہے۔ دستخط کی تقریب کے فوری بعد حملوں میں شہریوں کو مارنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ایسے واقعات معاہدے کی ناکامی کے امکانات میں اضافہ کرتے ہیں جس کا حل یہی ہے کہ طاقت کے بے محابا اظہار پر قدغن لگائی جائے مگر صدر ٹرمپ نے صرف اسرائیلی دفاع اور مفاد و استحکام کو ترجیح دی ہے۔ امدادی اشیا کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کو برقرار رکھنا اسرائیلی سرشت کو بے نقاب کرتا ہے جس کے پیشِ نظر امن معاہدے کی پاسداری بعیدازقیاس معلوم ہوتی ہے۔

دنیا میں امن کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے جزوی حد تک کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن وہ انصاف نہیں کر سکے۔ کسی مسلمان ملک کو نقصان ہو رہا ہو تو غیرجانبداری اختیار کرتے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ اُن کا مقصد امن قائم کرنا نہیں بلکہ اُمتِ مسلمہ کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ روس اور یوکرین جنگ بندی ہونی چاہیے کیونکہ طاقت کے بل بوتے پر کسی کو کسی کی آذادی و خودمختاری پامال کرنے کا کوئی حق نہیں مگر سوال یہ ہے کہ روس و یوکرین جنگ کی طرح کی بے چینی کسی اور جنگ کے بارے میں کیوں نہیں دکھائی جاتی؟

افسوس کہ جب کسی مسلمان ملک کو جنگ و جارحیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہو تو امریکہ امن کے قیام میں دانستہ تاخیر کرتا ہے۔ یمن اور ایران کی طرف سے اسرائیل کو میزائلوں سے نشانہ بنانے کے دوران امریکہ کا کردار ثالث کانہیں جانبدارانہ رہا ہے۔ نہ صرف یمن پر امریکہ نے حملے کیے بلکہ اسرائیل کو محفوظ رکھنے کے لیے ایران کے جوہری پروگرام کی تباہی میں بھی حصہ لیا۔ غزہ جنگ بندی سے اقوامِ متحدہ اِس بنا پر کچھ کرنے سے قاصر رہی کہ ہر قرارداد کو امریکہ ویٹو سے بے اثر کرتا رہا۔ اسی وجہ سے کوئی نتیجہ خیز کردار ادا کرنے کی بجائے اقوامِ متحدہ بے بس اور تماشائی بنی رہی۔ غزہ میں دو برس تک نسل کشی کا گھناؤنا کھیل کھیلا گیا ناکہ بندی سے شہریوں کو بھوک و پیاس سے مارا گیا لیکن صدر ٹرمپ خاموش رہے۔ اب جبکہ اُن کا امن معاہدے قبول کیا جا چکا ہے اِس کے باوجود اسرائیلی حملوں پر امریکی خاموشی معنی خیز ہے۔ یہ طرزِ عمل چہیتا ہونے کا اِشارہ اور ٹرمپ کی امن میں دلچسپی کے دعوؤں کو مشکوک بناتا ہے۔

ایک پُرامن اور تنازعات سے پاک دنیا انسانی بقا و خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے اِس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں امن اور انصاف میں دلچسپی لیں مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہو رہا۔ اسی بنا پر دنیا ایک بار پھر کثیر قطبی نظام کی طرف جا رہی ہے جس سے تین عشروں سے قائم واحد عالمی طاقت کے تاثر کو دھچکا لگا ہے۔ دراصل زیادہ ترجنگوں میں یا تو امریکی جانبداری عیاں ہوئی یا پھر امریکہ نے ایک فریق کی سرپرستی کرنے کی کوشش کی، لیکن چین عدم جارحیت پر عمل پیرا رہا جس سے امریکی معیشت زوال اور چینی رسوخ و معیشت کوفروغ ملا۔ حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ امریکہ انصاف سے کام لیتا اور تنازعات حل کرنے میں غیر جانبداری اختیار کرتا مگر ایسا نہیں ہو سکا بلکہ تنازعات بڑھانے میں دلچسپی لی گئی اور اپنے مفاد کے حصول کے لیے فریق بن کر کام کیا گیا جس سے اسلحے کی دوڑ شروع ہوئی اور مزید ممالک جوہری حصول کی تگ و دو کرنے لگے۔

مشرقِ وسطیٰ کے اکثر مسائل امریکہ کے پیدا کردہ ہیں حالانکہ اِس خطے میں اُسے غلبہ حاصل ہے لیکن عراق، شام، فلسطین، لبنان پر اسرائیل مسلسل حملے کر رہا ہے۔ مصر اور اُردن سے لڑائی میں کئی علاقے ہتھیا چکا ہے اب حال ہی میں قطر پر اسرائیلی حملے سے اِس تاثر کو تقویت ملی کہ امریکہ کی توجہ مسائل حل کرنے سے زیادہ خوف کی فضا بنانے پر ہے۔ ظاہر ہے خوف کی فضا میں پائیدار امن کی منزل حاصل نہیں ہوتی مگر لگتا ہے امریکہ کو اِس کا ادراک نہیں اسی بنا پر یو این کو غیر موثر اور تنازعات کاحل اپنی پسند کے مطابق کرنے کی روش پر گامزن ہے جس سے دنیا مزید غیر محفوظ ہورہی ہے۔ امن منصوبے سے غزہ کو امن تو شاید نصیب نہ ہو مگر امریکہ کو عرب ممالک نے خطے میں مداخلت کا حق ضرور دیدیا ہے۔

غزہ میں دو برس کے دوران اسرائیل نے فضائی اور زمینی حملوں کے دوران ستر ہزار مائیں، بچے، بوڑھے اور جوان موت کے منہ میں دھکیل دیے۔ عمارات تباہ کردیں لاکھوں افراد لاپتہ ہیں لیکن امریکہ اور چند مغربی ممالک کا موقف ہے کہ ایسی وحشیانہ کاروائیاں اسرائیل کا دفاعی حق ہیں۔ مزید ناانصافی یہ کہ امن منصوبہ قبول کرنے پر سفاک نیتن یاہو کی تحسین کی جارہی ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب میں صدرٹرمپ نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم نے اسرائیل کو ضرورت کے تمام ہتھیار دیے جنھیں اُس نے کمال مہارت سے استعمال کیا۔ یہ سوچ یا رویہ امن و انصاف کے اصولوں سے متصادم ہے۔ انصاف تو یہ تھا کہ غزہ میں نسل کشی کا اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا لیکن یہاں اسرائیل کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔ بدترین ناانصافی کے باوجود نہ صرف امریکہ اور اسرائیل مزید عالمی تنہائی سے بچ گئے ہیں بلکہ امن منصوبہ تسلیم کرانے کی وجہ سے دنیا سے دادحاصل کرنے کے ساتھ سیاسی، دفاعی اور سفارتی برتری بھی منوالی ہے جس سے مستقبل کی صف بندی کا اندازہ ہوتا ہے۔

بڑے اسلامی ممالک کو ساتھ بٹھا کر ٹرمپ نے ناانصافی کرنے کے باوجود جو کامیابی حاصل کی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اب مشرقِ وسطیٰ کا ایک طاقتور فریق بن گیا ہے جس کی وجہ سے اُسے طویل عرصے کے لیے خطے سے نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔ نیز ایک بار پھر سارا خطہ دفاعی حوالے سے امریکہ پر انحصار کرے گا۔ حماس یا کسی اور آزادی پسند تحریک کا کردار ختم یا کم تر ہوگا کیونکہ جب امدادی اشیا پر اسرائیلی کنٹرول رہے گا تو ہتھیاروں وغیرہ کی فراہمی بلکل ہی ناممکن ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں امن منصوبہ کی آڑ میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کا منصوبہ آسانی سے پایہ تکمیل کو پہنچایا جا سکے گا۔ ایران اور سعودی عرب میں تعلقات بحال کراکر چین نے ثالثی سے عربوں میں جو مقتدر حثیت حاصل کر لی تھی اُسے غزہ امن معاہدے نے غیر موثر کر دیا ہے۔ اب روس ہو یا چین یا کوئی اور طاقتور ملک، اُس کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی سرزمین ایک طویل عرصہ ناہمواررہے گی یہی امن معاہدے کا اہم ثمر ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan