امن معاہدہ اور ٹرمپ راہداری

جنوبی قفقاز کے ممالک آزربائیجان اور آرمینیا کے درمیان امریکی صدر کی میزبانی میں امن معاہدہ طے پاگیا ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے۔ یہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں اور میزبانی میں ہوا ہے۔ اِس لیے توقع ہے کہ دونوں طرف سے پاسداری ہوگی مگر اِس معاہدے کی جزیات اور شرائط بارے ابہام ہے جس کی وجہ سے کچھ حلقے بدگمانی کا شکار ہیں اور معاہدے کو خطے کی حساسیت کے مطابق قرار نہیں دیتے بلکہ دستاویز کو جلدبازی میں اُٹھایا گیا قدم کہتے ہیں۔ یہ معاہدہ پائیدار امن کی جانب پیش رفت ثابت ہوگا یا نہیں؟ اِس بارے عالمی ردِ عمل اور خیالات کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں خطے کے اہم ممالک روس اور ایران بھی معاہدے پر ناخوش ہیں۔
آزربائیجان کے صدر الہام علیوف اور آرمینیا کے وزیرِ اعظم نکول پشینیان نے ٹرمپ کے دائیں بائیں بیٹھ کر معاہدے پر دستخط کیے مگر امن معاہدے کے پوشیدہ پہلو کیا ہیں؟ اِس حوالے سے دنیا میں تجسس ہے پاکستان، ترکیہ اور اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے اگر خیر مقدم کیا ہے تو ایران نے تحفظات ظاہر کرنے میں تاخیر نہیں کی۔ روسی ناخوشی بھی عیاں ہے عین ممکن ہے روس اور ایران ایسی کوششیں کریں کہ امریکہ خطے سے باہر رہے۔ ایسی کسی کوششوں کے نتیجے میں ایک نئی کشمکش کا آغاز ہوسکتا ہے۔
آٹھ اگست جمعہ کے روز وائٹ ہاؤس میں امریکی ثالثی میں طے پانے والے امن معاہدے سے توقع ظاہر کی گئی کہ جنوبی قفقاز کے دونوں ممالک کے درمیان عشروں پر محیط ایک خونریز تنازع ختم ہوگیا ہے۔ معاہدے کو آزربائیجان اور آرمینیا نے تاریخی پیش رفت قرار دیا جبکہ ٹرمپ نے امن قائم کرنے کی ایک اور کامیابی سے تعبیر کیا اور کہا کہ دونوں ممالک ہر طرح کی جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں جس سے باہمی تجارت، سیر و سیاحت کے ساتھ سفارتی تعلقات کوفروغ ملے گا کیونکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کا عہد کیا ہے۔
معاہدے کے بعد امریکہ نے آزربائیجان پر فوجی تعاون کے حوالے سے عائد پابندیاں ختم کرتے ہوئے امریکی کمپنیاں کو توانائی، بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی اجازت دے دی۔ ٹرمپ نے دونوں ممالک کو سرحدی سلامتی، اقتصادی تعاون، ٹیکنالوجی میں شراکت داری اور ترجیح تجارت کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اِس معاہدے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ جنوبی قفقاز میں ٹرمپ کے نام پر ایک امن اور خوشحالی راہداری بنائی جائے گی جس کی ملکیت امریکہ کے پاس ہوگی یہی اِس معاہدے کا اہم ترین پہلو اور مرکزی نکتہ ہے۔
آزربائیجان کے صدر الہام علیوف پُرامید ہیں کہ امن معاہدہ امریکہ سے دو طرفہ تعلقات کے ایک نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہوگا جبکہ آرمینیا کے وزیرِ اعظم نکول پشینیان نے قیامِ امن کے لیے ایک ایسا عظیم معاہدہ قرار دیا جس کے خطے اور دنیا پر مثبت اثرات ہوں گے۔ آرمینیا کے وزیرِ اعظم نے آزربائیجان کے صدر کی طرف سے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی تائید کر دی۔ ٹرمپ اِس اعزاز کے لیے نارویجن وزیرِ خارجہ ینس ستولتن برگ سے بات بھی کرچکے۔ یاد رہے کہ نوبل انعام ہر سال ناروے کی نوبل کمیٹی عطا کرتی ہے جس کا اعلان اکتوبر میں کیا جاتا ہے اور چار امریکی صدور یہ اعزاز پہلے حاصل کر چکے۔ اسرائیل، پاکستان، کمبوڈیا سمیت جنوبی قفقازکے دو ممالک صدر ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرچکے۔ ٹرمپ کا اپنا بھی یہ خیال ہے کہ وہ ہی اِس انعام کے اصل حقدار ہیں۔
آزربائیجان اور آرمینیا تنازع استعمار کی سازش ہے جب یہ ممالک روسی فیڈریش کا حصہ تھے تو روس نے نگورنوکاراباخ کو آزربائیجان کا حصہ بناکر بعد میں آرمینیائی اکثریت کی خواہش پر آرمینیا سے جوڑ دیا اور پھر آزربائیجان کاحصہ بنا دیا یوں ایک بڑی کشمکش نے جنم لیا۔ 1980میں آرمینیا نے فوجی یلغار سے یہ علاقہ قبضے میں لے لیا حالانکہ یہ آزربائیجان کا تسلیم شدہ حصہ ہے۔ سوویت یونین سے آزادی کے بعد 1994 میں نگورنو کاراباخ تنازع پر ایک بڑی خونریز جنگ لڑی گئی بعد میں بھی سرحدی جھڑپیں معمول رہیں۔ 2023 میں آزربائیجان نے ایک بڑی فوجی مُہم سے یہ علاقہ آرمینیا سے چھین لیا اِس جنگ کو ایک سو برس کے دوران کسی مسلم ملک کی محازِ جنگ پر پہلی فتح قرار دیا جاتا ہے مگر اِسے کفر و اسلام کی جنگ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر آزربائیجان کو ڈرونز اور دیگر ہتھیار فراہم کرنے میں ترکیہ جبکہ سفارتی حوالے سے مقدمہ لڑنے میں پاکستان پیش پیش تھا تو ایران اور اسرائیل دونوں آرمینیا کے حمایتی رہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کردیا ہے کہ وہ نفع کے لیے ہر حد تک جا سکتے ہیں۔ اب بھی الاسکا میں روسی صدر پوتن سے ملاقات سے قبل پیشقدمی سے دنیا کو چونکایا ہے۔ امن معاہدے سے امریکہ کو یہ باور کرانے کا موقع ملا ہے کہ وہ عالمی تنازعات حل کرانے کی موثر صلاحیت رکھتا ہے۔ امن معاہدے میں شامل ہونا روسی خواہش تھی مگر حیران کُن طور پر آزربائیجان اور آرمینیا نے ایسی کسی خواہش کو اہمیت نہیں دی اور امریکی ثالثی پر اکتفا کرتے ہوئے ٹرمپ راہداری کے مالکانہ حقوق بھی امریکہ کو دیدیے۔ معاہدے نے روس اور ایران کی سرحدوں کے قریب امریکی موجودگی کا جواز ملا ہے اب امریکہ نہ صرف امن اور خوشحالی راہداری کی صورت میں اپنا سیاسی اور سفارتی کردار بڑھانے، روس اور ایران پر مستقل نظر و دباؤ رکھنے سمیت چینی راہداری منصوبوں کو بھی ناکام بنانے کی پوزیشن میں آگیا ہے بلکہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلقات کو فروغ دینے اور دفاعی معاہدوں کا حصہ بنانے میں بھی سہولت حاصل ہوگی۔
آزربائیجان اور آرمینیا دونوں آبادی، رقبے اور فوجی طاقت کے لحاظ سے کوئی بڑے ممالک نہیں آزربائیجان کا رقبہ چھیاسی ہزار چھ سو مربع کلو میٹر اور آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔ یہ یوریشیا کے جنوبی قفقاز میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان اِس ملک کی مشرق میں بیحرہ قزون، شمال میں روس، مغرب میں آرمینیا اورترکیہ، شمال مغرب میں جارجیا اور جنوب میں ایران سے سرحدیں ملتی ہیں۔ چاروں طرف سے خشکی میں گھرے آرمینیا کا رقبہ 29743 مربع کلومیٹر جبکہ آبادی تیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اِس کے مغرب میں ترکیہ، شمال میں جارجیا مشرق میں آزربائیجان اور جنوب میں ایران ہے۔
مذکورہ ممالک کے رقبے اور آبادی سے زیادہ اہم اِن کا محل وقوع ہے دونوں ماضی میں روسی فیڈریشن کا حصہ رہے ہیں۔ دونوں کی سرحدیں ایران سے متصل ہیں۔ اسی بنا پر امریکی مہربانی اور نوازشات خالی از علت معلوم نہیں ہوتیں۔ ایک ہی معاہدے سے امریکہ نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔ اب خطے کے معدنی وسائل امریکی دسترس میں آجائیں گے۔ یہ ایسی پیش رفت ہے جس کے نتیجے میں امریکہ ایشیا اور یورپ کے سنگم پر موجود رہ کر روس اور ایران کو مستقل طور پر سفارتی، سیاسی اور فوجی نقصان سے دوچار کرسکتا ہے اور امن و خوشحالی راہداری کا مطلب امریکی اڈا ہوگی۔

