Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Alaska Sarbarahi Mulaqat

Alaska Sarbarahi Mulaqat

الاسکا سربراہی ملاقات

جنگ بندی کا فیصلہ نہیں ہو سکا مگر امریکی ریاست الاسکا میں صدرپوٹن اور صدرٹرمپ کی ملاقات کو نتائج و اثرات کے حوالہ سے دیکھیں تو بھی یہ ایک بڑی پیش رفت ہے چاہے مغربی ممالک مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ وہ جنگ بندی کے حوالہ سے خاصے پُرامید تھے کہ امریکی صدر روسی ہم منصب سے جنگ بندی کا وعدہ لیکر ہی واپس لوٹیں گے۔

ٹرمپ خود بھی ایک سے زائد بار کہہ چکے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں یہی توقع لیکر انھوں نے اپنے ملک کی ریاست میں روسی ہم منصب ملاقات کی اور مہمان کا فقید المثال استقبال کیا مگر بظاہر سربراہی ملاقات سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں اور جنگ بندی کے لیے صدر ٹرمپ کی کاوشیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں لیکن ملاقات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ا گلی ملاقات پر اتفاق ہوگیا ہے جو روسی دارالحکومت ماسکو میں ہوگی۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں یہ روس کے بدلتے تیور کی طرف اِشارہ ہے۔ شاید روسی صدر ایسا تاثر نہیں دینا چاہتے کہ وہ صدر ٹرمپ کو ہر قیمت پر ناکام ثابت کرنا چاہتے ہیں یا جنگ بندی کے خواہش مند عالمی رہنماؤں کو سننا ہی نہیں چاہتے۔ ماسکو ملاقات کا عندیہ دراصل جنگ بندی کی ہی خواہش ہے لہذا بھلے الاسکا سربراہی ملاقات سے وابستہ اُمیدیں پوری نہیں ہو سکیں ماسکو ملاقات یا اِس سے قبل جنگ بندی کا امکان موجود ہے۔

الاسکا جو رقبے کے لحاظ سے امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہے اگر روس اور امریکی صدور آج سے ڈیڑھ صدی قبل ملتے تو امریکی صدر کے میزبان روسی صدر ہوتے کیونکہ یہ علاقہ کبھی روسی ملکیت تھا جسے بہتر لاکھ ڈالر میں امریکہ نے خرید کر اپنا حصہ بنایا۔ ابتدا میں اسے احمقانہ خریداری کہا گیا مگر اب یہ علاقہ تیل، قدرتی گیس اور سونے کے وسیع معدنی ذخائر کی بدولت امریکی معیشت کا اہم ترین حصہ ہے۔ الاسکا سے روس محض پچاس میل دور ہے۔ پندرہ اگست کو روسی وفد صرف آبنائے بیرونگ عبور کرنے کے بعد امریکی علاقے میں داخل ہو کر سربراہی ملاقات کاحصہ بنا۔

صدر ٹرمپ اور صدر پوٹن کے مزاج میں بہت فرق ہے اگر ٹرمپ بڑبولے مشہور ہیں تو پوٹن کم الفاظ میں مدعا بیان کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کا پس منظر فوجی نہیں سرمایہ کار کا ہے جبکہ پوٹن ایک ایسے ماہر جاسوس رہ چکے ہیں جو ہر لمحہ حریف پر وار کرنے کا موقع تلاش کر رہا ہو۔ ٹرمپ دھمکا کر اگر مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پوٹن عملی طور پر حریف کو اِس قدر بے بس کر دینے پر یقین رکھتے ہیں کہ مخالف فریق بغیر کسی حیل و حجت تمام مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے۔ یہی کچھ یوکرین میں ہو رہا ہے۔ یوکرین کو نیٹو سے دور رکھنے اور معدنیات کی آڑ میں امریکی داخل ہونے سے روکنے کے لیے پوٹن پُرعزم ہیں۔ مزاج کا یہ فرق الاسکا سربراہی ملاقات میں نمایاں رہا لیکن ملاقاتیں اور مزاکرات جاری رکھنے کا غیر معمولی فیصلہ مایوسی کی نفی کرتا ہے۔ پسِ پردہ روابط بھی جاری ہیں جن کا مقصد جنگ بندی ہے جو ٹرمپ کے ڈیل میکر امیج کو برقرار رکھتا ہے۔

24 فروری 2022کو یوکرین پر حملے کے بعد سے پوٹن مسلسل ایسا تاثر دے رہے تھے کہ یوکرین کے حوالے سے وہ کسی عالمی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائیں گے مگر امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیاروں کے بل بوتے پر یوکرین نے اپنا خوب دفاع کیا ہے اور حملہ آور روسی افواج کی توقع سے بڑھکر مزاحمت کی ہے۔ ڈرونز اور میزائل حملوں سے نہ صرف بری فوج کی پیش قدمی سُست کی بلکہ خودکش ڈرونز سے رواں برس ہی روسی فضائیہ کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جس پر روس کے دفاعی حلقے حیران ہیں اور ملک کے اندر سے بھی اب جنگ بندی کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ یہ جنگ سے تھکاوٹ ہے ظاہر ہے ایسی آوازوں اور حالات سے پوٹن بھی یکسر لاعلم نہیں البتہ اعتماد اور اطمنان کا تاثر دیکر زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کی کوشش میں ہیں۔ یوکرین جنگ بندی کرانے میں ٹرمپ کامیاب نہیں ہو سکے لیکن پوٹن سے معاہدہ نہ ہو سکنے کی باتیں کسی حد تک ابھی اِس لیے بھی قبل از وقت ہیں کہ کسی تعطل کے بغیر بات چیت کا جاری عمل کسی تصفیے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

یہ درست ہے کہ صدر پوٹن نے یوکرین جنگ کے حوالے سے فوری رعایت سے انکار کرتے ہوئے جنگ بندی کی تجاویز قبول نہیں کیں جس پر مغربی ممالک امریکہ سے مِل کر سخت پابندیاں لگانے کے خواہاں ہیں۔ ٹرمپ کی آرزو تو یہ تھی کہ بات چیت کا ایجنڈا محدود نہ رہے بلکہ کھلے دل سے ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہی حاصل کی جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ روسی صدر یوکرین جنگ پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے خواہشمند ہیں بھی یا نہیں۔ بظاہر پوٹن کی بجائے صدر ٹرمپ آگے بڑھنے کی بجائے کئی قدم پیچھے ہٹتے محسوس ہوئے۔ الاسکا ائر بیس میں ہونے والی بات میں پوٹن کا رویہ قدرے سخت محسوس ہوا مگر پوٹن نے ٹرمپ کو بلکل ہی مایوس نہیں کیا وگرنہ اگلی ملاقات کا عندیہ ہر گز نہ دیتے۔

الاسکا ملاقات کے بعد دونوں صدور نے زرائع ابلاغ سے خلافِ توقع مختصر بات چیت کی۔ ظاہر ہے بتانے کے لیے بھی زیادہ کچھ نہ تھا اسی لیے خلافِ معمول صدر ٹرمپ نے کوئی سوال قبول نہ کیا البتہ پوٹن نے جنگ کی بنیادی وجوہات پر بات کرنے پر زور دیتے ہوئے خبردار کردیا کہ یوکرین اور مغربی ممالک جنگ بندی کے لیے امریکہ سے ہونے والی پیش رفت میں خلل ڈالنے سے باز رہیں۔ اگلے اجلاس بارے ٹرمپ کی خواہش پر ہی پوٹن نے ماسکو میں میزبانی کی پیشکش کی جس کے بعد ٹرمپ کا الاسکا میں عظیم اور کامیاب دن کی بات میں وزن لگتا ہے۔

روس و یوکرین جنگ بندی ناممکن نہیں اگر امریکہ اور مغربی ممالک یہ یقین دہانی کرادیں کہ یوکرین کو نیٹو کا رُکن نہیں بنائیں گے کیونکہ ایسا ہونے سے پوٹن کو خدشہ ہے کہ روس کے خلاف یوکرین نیٹو کا میزائل فائر کا مرکز بن سکتا ہے اسی لیے نیٹو میں یوکرین کی شمولیت کو سرخ لکیر قرار دیتے ہیں مگر 2008 سے یوکرین نیٹو میں شمولیت کا عندیہ دے رہا ہے۔ 2014 میں کریمیا کھونے کے بعد بھی اُس نے روش تبدیل نہ کی تو آٹھ برس بعد مشرقی صنعتی مرکز ڈونباس اورلوہانسک سے بھی محروم ہوگیا۔

کمزور معیشت کا حامل یہ معدنی ذخائر سے مالا مال ملک روس اور امریکہ دونوں کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ مغربی ممالک کے اہم رہنماؤں کے ساتھ یوکرینی صدر زیلنسکی آجکل پھر امریکی دورے پر ہیں۔ ٹرمپ سے رواں برس فروری میں تلخی پر منتج ہونے والی بات چیت کے بعد اُن کی امریکی صدر سے پہلی ملاقات ہے۔ اب وہ ٹرمپ کاوشوں پر تشکر کا اظہار نہیں بھولے۔ پوٹن کے خیالات جاننے کے بعد یوکرینی صدر کو ٹرمپ کریمیا سمیت مختلف علاقوں سے فی الحال دستبرداری پر راضی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پانا عین قرین قیاس ہے چاہے روس کی پوزیشن بالاتر ہی کیوں نہ رہے کیونکہ جنگ بندی کے بعد ہی یوکرینی معدنیات سے امریکہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali