افغان دشمنی کی وضاحت

موجودہ صدی تبدیلی کی صدی ہے، نت نئی ایجادات نے رہن سہن تک بدل دیا ہے، دفاع کے تقاضے بدل چکے ہیں نیز دنیا ایک اور تقسیم کی طرف بڑھ رہی ہے مگر گزرے 78 برس کے دوران پاک بھارت دشمنی ختم نہیں ہو سکی اور جنوبی ایشیا کی دونوں جوہری طاقتوں میں تعلقات کی نوعیت نچلی ترین سطح پر ہے۔ پاکستان نے کئی بار تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن ہندوتوا پر یقین رکھنے والی بھارتی جنونی قیادت نے کبھی مثبت جواب نہیں دیا۔
مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا یا افغانستان اور ایران کو پاکستان سے دور کیا لسانی، نسلی اور علاقائی گروہوں کی سرپرستی سے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کا امن خراب کیا۔ بھارت جان چکا کہ وہ پاکستان سے روایتی جنگ میں بھی کمزور ہے اسی لیے پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے۔ اسرائیلی حملوں کے دوران ایران پر بھارتی اصلیت واضح ہوگئی جس کا متبادل اُس نے طالبان کو تلاش کرلیا ہے۔ بد قسمتی یہ کہ طالبان بھی استعمال ہونے پر آمادہ لگتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو دشمنی کا جواز مل سکتا ہے۔
ہر ملک اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے مگر حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کی تعداد کم ہو۔ خواجہ آصف کی طرح افغانستان کو دشمن تصور کرنے کی وضاحت جلدبازی ہے۔ پاکستان کے فروغ پذیر عالمی کردار سے بھارت اور اسرائیل پریشان ہیں۔ پہلے اسرائیل درپردہ پاکستان کے خلاف رہا مگر پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ طے پانے کے بعد امکان ہے کہ کُھل کر سامنے آجائے۔ اسرائیلی حملوں کے دوران ایران کی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی مدد سے پاکستان نے ایرانی قیادت اور عوام کا اعتماد حاصل کر لیا مگر افغانوں کی چاردہایوں سے مہمان نوازی اور استعمار کے خلاف جہدوجہد میں ساتھ دینے کے باوجود معاملات ہنوز غیر متوازن ہیں۔
کابل کی طرف سے پاکستان مخالف سازشوں میں سہولت کاری عیاں ہے دانشمندی کا تقاضا ہے کہ سفارتی زرائع سے حل تلاش کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ دشمنوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو کیونکہ افغانستان کو سرِ عام دشمن قرار دینے لگے تو جس حد تک تعاون حاصل ہے وہ بھی کہیں کھو نہ بیٹھیں۔ مذمتی بیانات سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اضافہ ہوتا ہے اگر افغانستان کے حوالے سے ریاست اور حکومت فیصلہ کُن موڑ پر آہی گئی ہے تو بہتر ہے مشاورت سے واضح، ٹھوس اور نتیجہ خیز پالیسی بنا کر عمل کیا جائے۔ ٹھیک ہے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی ہمارے بچے شہید کرے اور ہم اُسے ہار پہنائیں مگر خواجہ آصف کی طرح منہ پھاڑ کر دشمن کہہ دینا ناقابلِ قبول ہے یہ بیان کئی پہلوؤں سے وضاحت طلب ہے۔
افغان سرحد سے منسلک صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں گزرے چند ماہ کے دوران دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس پر ریاست اور حکومت کی طرف سے تحفظات فطری ہیں۔ اِس میں تو کوئی ابہام نہیں کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں اور وہ خطے میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ وہاں سے پاکستانی علاقوں پر حملوں سے عوامی جان و مال کا نقصان کرنے کے ساتھ ریاستی اِداروں کونشانہ بنایاجاتا ہے ایک سے زائد بار پاکستان باور کراچکا کہ جب تک افغان سرزمین سے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوگا دونوں ممالک میں تعلقات معمول پر نہیں آسکتے لیکن طالبان کی بے نیازی اور لاپرواہی ظاہر کرتی ہے کہ یا تو انھیں حالات کی نزاکت کا ادارک نہیں یا پھر اچھا ہمسایہ بننے سے زیادہ صرف اقتدار عزیزہے۔
اسی لیے بار بار توجہ مبذول کرانے پرعملی اقدام نہیں اُٹھاتے یہ رویہ پاکستان کواُن کے عالمی سطح پر مقدمہ لڑنے میں رکاوٹ ہے اور طالبان دنیا سے الگ تھلگ ہونے لگے ہیں۔ دنیا کے خدشات نہ سمجھنے، خواتین کے لیے ملک میں تعلیم کے دروازے بند کرنے اور پورے ملک کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی سختیاں شہری آزادیوں پر قدغن کے مترادف ہے اگروہ اپنی سوچ پر نظر ثانی نہیں کرتے تو دنیا سے نہ صرف مزید دور ہوتے جائیں گے مگر پاکستان کیونکہ ہمسایہ ہے اِس لیے تمام دروازے بند کر دینے کا ردِ عمل آسکتا ہے لہذا گفتگو میں احتیاط پسندی بہتر ہے۔
ریاستی اِداروں پر حملے ناقابلِ برداشت ہیں حال ہی میں دہشت گردی کے ایک بڑے واقعہ پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کو کہنا پڑا کہ بس بہت ہوچکا اب افغان انتظامیہ واضح کرے کہ ہمارے ساتھ ہے یا خوارج کے ساتھ ہے۔ اگلے دن فوجی ترجمان نے بھی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ بھارت کے فوجی آفیسر اور افغان باشندے پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں اور یہ کہ مسلح جتھوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔ یہ ایسے بیانات ہیں جن سے پورے ملک کو یہ پیغام ملا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان میں بداعتمادی ہے جو نہیں ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان نے افغانوں کو روسی پنجہ استبداد سے نجات دلائی مہاجرین کے لیے نہ صرف سرحدیں کھول دیں بلکہ مجاہدین کی ہر ممکن مدد کی جس کا صلہ کلاشنکوف اور منشیات کلچر کی صورت میں ملا مگر پاکستانیوں نے اپنے افغان بھائیوں کے لیے ہر نقصان خوشدلی سے برداشت کیا۔
آج وہی افغان جب پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کرتے ہیں کھیل کے میدانوں میں پاکستانیوں پر حملے کرنے میں بھارتیوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو ہر پاکستانی کو ملال ہوتا ہے۔ شاید ایسے ہی جذبات کے اثر میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغانستان کو دشمن کہہ دیا ایسا بھی ہے تو بھی میرے خیال میں ابھی بیان بہت سخت ہے حکومت اور ریاستی اِدارے اگر افغانستان کو احساس دلائیں تو بہتر ہے ویسے بھی پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ ایک ایسی نئی جہت ہے جو حددرجہ احتیاط کی متقاضی ہے۔
سفارتی نزاکتوں کو پسِ پشت ڈالنا ہرگز مناسب نہیں۔ موجودہ افغان انتظامیہ کو اقتدار دلانے میں پاکستان کا بنیادی کردار ہے۔ ایک اہم عسکری شخصیت نے کابل میں چائے پینے کی تصویر بھی خاص طور پر بنوائی۔ اب اتنی جلدی اُکتانا اور سب کچھ پسِ پشت ڈال دینا مناسب نہیں۔ کوئی دورائے نہیں کہ دہشت گردی بھارتی منصوبہ بندی، مالی تعاون اورتربیت کے بغیر ممکن نہیں اور افغانستان کی سنجیدہ کوششیں ہی دہشت گردوں کو قتل وغارت سے روک سکتی ہیں اگر وہ اِس کے لیے اپنے وسائل کو ناکافی سمجھیں تو پاکستان سے مددلے سکتے ہیں۔
دشمن بھارت اب کبھی دوبدو مقابلے کی ہمت نہیں کرے گا وہ چاہے گا کہ پاکستان کو کسی ہمسائے سے الجھا کر کمزور کرے اور مزموم مقاصدحاصل کر ے۔ طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا بگرام ائر بیس کا مطالبہ نئے خطرات کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ایسے عالمی دباؤ سے بچنا ہے تو پاکستان جیسے ہمسائے کا اعتماد بحال رکھنا ہوگا اگر ماضی کی طرح دولت کو ہی کمزوری بنایا تو نہ صرف افغانستان میں اندرونی خلفشار بڑھے گا بلکہ عالمی طاقتیں انھیں کھلونا بنادیں گی۔ پاکستان، چین، روس اور ایران میں اشتراک فروغ پذیر ہے جس کا حصہ دار بن کر طالبان بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں وقت کی نزاکت کا احساس نہ کیا اور ہمارے اربابِ اختیار بھی جذباتی رہے تو دونوں ممالک کے شہری نئے امتحان کا شکار ہوں گے۔

