Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. 27Wi Tarmeem Aur Afwahen

27Wi Tarmeem Aur Afwahen

27ویں ترمیم اور افواہیں

27ویں ترمیم کا جو بنیادی مسودہ منظوری کے مراحل میں ہے اِس میں عدلیہ اور فوج سے متعلق ترامیم شامل ہونے کی وجہ سے اپوزیشن اِس کے خلاف ہے۔ اُس کا استدلال ہے کہ یہ ترامیم عوام کی بجائے زاتی مفاد کے لیے کی جارہی ہیں، مگر حیران کُن بات یہ ہے کہ ایوانوں میں اِس ترمیم کی منظوری روکنے سے گریزاں ہے اور بائیکاٹ کے زریعے منظوری کی راہ ہموار کررہی ہے۔ اِس لیے کہہ سکتے ہیں کہ ممکن ہے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے بظاہر اپوزیشن ایوانوں میں ہنگامہ آرائی اور احتجاج کی کوشش کرے مگر اُس کے اطوار سے لگتا ہے کہ رکاوٹ بننے میں سنجیدہ نہیں اور محض افواہیں پھیلانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ نیز تعمیری کردار ادا کرنے کی بجائے حکومت کی مخالفت کرناہی فرضِ اولیں تصور کر بیٹھی ہے۔ ایسے ہی دوہرے کردار سے عیاں ہے شاید حکومت کو زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے اور مذکورہ بالا ترمیم رواں ہفتے ہی منظور ہوجائے۔ اگر اپوزیشن سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تو بحث میں حصہ لیکر مثبت تجاویز لاتی مگر اُس کے رویے سے حکومت یہ ترمیم جلد منظور کراتی دکھائی دیتی ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی نے استثنیٰ لینے کی تجاویز مسترد کردی ہیں اور منتخب وزیرِا عظم کو قانون اور عوام کی عدالت میں جوابدہ رکھا ہے البتہ صدارتی استثنیٰ کے مقابلے میں فیلڈ مارشل کو حاصل استثنیٰ تاحیات ہوگا۔ عدلیہ کو بھی ایگزیکٹو کے تابع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ سب وقت کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ایسی صورتحال نہیں تھی اسی لیے سیاسی عدمِ استحکام کا موجب عدلیہ بنتی رہی۔

ماضی قریب کی ملکی تاریخ پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو عدلیہ کا کردار ایگزیکٹو سے متصادم رہا۔ عدلیہ نے نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کیا یوسف رضا گیلانی بھی عدالتی فیصلے سے معزول ہوئے۔ عمران خان بھی آجکل عدلیہ کا تختہ مشق ہے۔ سوموٹو نے اِداروں کے اختیارات کا توازن درہم برہم کیا، اگر اِداروں کو اختیار کی جنگ میں الجھانے کی بجائے فرائض کی ادائیگی تک محدود رکھنا ہے تو منتخب حکومت کو بے اختیار بنانے سے گریز کرنا ہوگا۔ سب کے اختیارات واضح کرتے ہوئے حدود و قیود کا پابند کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں منتخب وزیرِ اعظم کو چلتا کرنے کی کوئی جرات نہ کر سکے۔ 27 ویں ترمیم لانے کا مقصد بھی یہی ہے جہاں تک فیلڈ مارشل کے عہدہ کی بات ہے تو قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ایسے عہدوں کو بعد از سبکدوشی بھی تذلیل سے محفوظ رکھا جائے۔

مئی کی پاک بھارت جنگ نے واضح کردی ہے کہ دفاع کے تقاضے بدل چکے اب جنگ میں بری، بحری اور فضائی افواج کو الگ رکھنا ممکن نہیں رہا بلکہ اِن میں قریبی تعاون ناگزیر ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ کمان ایسی ہو جو بروقت فیصلے کر سکے۔ اگر مخالفت برائے مخالفت کا راگ چھوڑ کر چیف آف ڈیفنس فورسز کے عہدہ کی بات کی جائے تو یہ درپیش حالات کے تقاضوں اور ضروریات کے عین مطابق ہے۔ ملک کی مشرقی اور شمال مغربی سرحدیں بھی متقاضی ہیں کہ دفاعی تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اِس کے مطابق کمان دینے کے فیصلے کیے جائیں۔ اب اِس حوالے سے اپوزیشن کی تنقید کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ غیر ضروری اور محض بغض و کینہ ہی معلوم ہوتی ہے۔ ویسے بھی ملکی تایخ سے واضح ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے کسی اقدام کی کبھی تائید نہیں کی بلکہ مخالفت کوہی فرض تصور کیا ہے۔ اب بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔

یہ سوچ اور ایسا کردار ہی سیاسی عدمِ استحکام کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اِس کے دفاع سے غفلت جیسے سنگین جرم کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ فیلڈ مارشل اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے۔ بھارت اور اسرائیل اُن سے خوفزدہ ہیں افغانستان اور ایران پر بھی دفاعی بالادستی واضح کر چکے۔ آج دنیا کی تینوں سُپرطاقتیں روس، چین اور امریکہ ہم سے تعلقات کو فروغ دینے پر آمادہ و تیار ہیں۔ ایسی صورتحال لانے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار ہے، اسی بناپر محب الوطنوں میں اُن کی عزت و تکریم بڑھی ہے تو کیا کسی چھچھورے کو حق دیا جا سکتا ہے کہ ملک و قوم کے لیے شب و روز وقف کرنے والے پر بے سروپا دشنام طرازی کرے؟ ہر گز نہیں۔ تو بتائیے ستائیسویں ترمیم میں پھر غلط کیا ہے؟

آئینی ترمیم کی منظوری میں مشکلات یا سیاسی مزاحمت کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اپوزیشن کا سارا زور بیانیہ بنانے پر ہے وہ ایوانوں کی بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ متحرک ہے اُس کی موجودہ قیادت کا سیاسی کردار حب الوطنی کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اُس کی توجہ قانونی یا پارلیمانی امور کی پیچیدگیاں نمایاں کرنے پر نہیں لہذا قرائن اِس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ منظوری میں دوتہائی اکثریت کے حصول میں حکومت کو کسی خاص دقت کا سامنا نہیں ہوگا کیونکہ اپوزیشن لاکھ تنقید کرے اور افواہیں پھیلائے۔

سچ یہ ہے کہ وہ تو لائحہ عمل تک نہیں بنا سکی لیکن حکومت مکمل طور پر یکسو ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے آزربائیجان کے دارلحکومت باکو میں مصروفیات کے باوجود آئینی ترمیم کے مسودے پر مشاورت کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس کیا اور ویڈیو لنک پر اجلاس کی صدارت کی اور منظوری کے عمل میں حصہ لیا جس کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ شاید منظوری کا عمل رواں ہفتے ہی مکمل ہوجائے۔

حکومتی حلقوں میں بحث و تمحیص کے بعد اندیشوں پر خوش گمانی حاوی ہے اور وہ اعلانیہ طور پر خوشگوار توقعات و مثبت امکانات کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔ ویسے تو آئینی ترمیم کا مسودہ پارلیمان کے ساتھ عوامی حلقوں میں بھی زیرِ بحث ہے جبکہ سوشل میڈیا پر تنقید زور و شور سے جاری ہے لیکن حکومت اور سنجیدہ طبقات ترمیم کے حوالے سے پھیلائی گئی افواہوں کوبے بنیاد قرار دیتے ہیں اسی وجہ سے سیاسی، جمہوری اور انتظامی اقدامات سے دلچسپی رکھنے والے سنجیدہ لوگ اندیشہ ہائے دور دراز کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ ترمیم کو موجودہ حالات میں ناگزیر قرار دیتے ہیں۔

آئینی ترمیم کی منظوری اور اِس پر عمل درآمد سے نہ صرف ملک کا عدالتی اور آئینی ڈھانچہ تبدیل ہوگا بلکہ عسکری عہدوں اور اختیارات میں میں بھی تبدیلیاں آئیں گی جس سے اِداروں کے درمیان مستقبل میں اختیارات کی ہر قسم کی رسہ کشی کا خاتمہ ہوگا۔ آئینی ماہرین کے خیال میں موجودہ ترمیم سے بڑی حد تک اِداروں کی سمت درست ہوگی اور عوامی حقوق یا آزادی اظہار پر قدغن کے تاثر میں کوئی صداقت نہیں۔

سنجیدہ حلقوں کی اکثریت کا اِس نُکتے پر اتفاق ہے کہ ستائیسویں ترمیم کی منظوری سے آئینی ابہام دور ہوں گے اور اختیارات و فراض کے حوالے سے زیادہ بہتر وضاحت ہوگی۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال جس سے ملک مستحکم ہو اور سیاسی استحکام آئے محمود اچکزئی جیسے لوگوں کو پسند نہیں آسکتی مگر وقت آگیا ہے کہ ایسے لوگوں کو سیاسی کچرا سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے کیونکہ پاکستان کے بارے فیصلے کرنا پاکستانیوں کا حق ہے خود کو افغانی کہنے والوں کویہ حق تفوض نہیں کیا جا سکتا۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz