یہ ریاست ہے یا گنے کا رس نکالنے والی مشین؟
جس بنیادی چیز کو ہمارے ہاں یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے کہ یہ ہے کہ ہمارے پاوں چادر سے باہر ہیں۔ یہ فقط موجودہ دور کی بات نہیں ماضی میں بھی اس کی نشاندہی کی جاتی رہی مگر ہمارے اعلیٰ دماغ پالیسی ساز یہ سوچنے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ "پالیسیاں بالخصوص معاشی پالیسی بناتے وقت چار اور نگاہ دوڑا لینی چاہیے کہ حبس سے بے حال ہوئے مہنگائی اور دوسرے مسائل کے بوجھ تلے سسکتے شہریوں پر کیا گزر رہی ہے"۔
مثلاً 18ویں کے بعد جو محکمے صوبوں کو دیئے گئے تھے ان کے لئے وفاق میں وزارتیں برقرار رکھنے کا کیا فائدہ تھا؟ اسی طرح صوبوں میں ایک ایک وزارت کے دو یا تین حصے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ دو سوال بہت اہم ہیں اور تیسرا سوال جسے زبان پر لاتے ہوئے ہمارے ہر فن مولا مارکہ تجزیہ نگار ڈرتے ہیں وہ ہے سول و ملٹری اشرافیہ اور اعلیٰ عدلیہ کی تنخواہیں مراعات اور بھاری بھرکم پنشن۔
اس تیسرے سوال کے ضمن میں دو باتیں مزید اہم ہیں اولاً یہ کہ دفاعی بجٹ پر پارلیمان میں عام بحث نہیں ہوسکتی (ویسے بند کمرے میں بھی بحث نہیں ہوتی) ثانیاً سپریم کورٹ کا آڈیٹر جنرل پاکستان کو اپنے مالیاتی معاملات کے آڈٹ کے لئے رسائی دینے سے انکار ہے۔ سپریم کورٹ کا موقف ہے کہ ہمارا انٹرنل آڈٹ کا نظام ہے۔ انٹرنل آڈٹ کے نظام پر سوال کیوں نہیں ہوسکتا یہ بذات خود ایک سوال ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے چار اور سوال ہی سوال ہیں۔ جواب دینے والا کوئی نہیں۔ ان سوالات کو اٹھائے جانے کا اصل مقام پارلیمان کے منتخب ایوان ہیں۔ ظاہر ہے سوالات منتخب ارکان کو اٹھانے چاہئیں لیکن ان کے "پَر" جلتے ہیں۔ زبانیں لڑکھڑا جاتی ہیں۔ جب ایسی صورتحال ہو تو پھر کفایت شعاری کی باتیں لذت دہن سے زیادہ کچھ نہیں۔
کیا حکومت (وہ کوئی بھی ہو) کفایت شعاری کو فروغ دینے کے لئے سنجیدہ ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے سے قبل رواں مالی سال کے بجٹ میں انتظامی اخراجات کی تفصیل دیکھ لی جانی چاہیے۔ اگر تو ایوان صدر، گورنر ہائوسز، وزرائے اعلیٰ ہائوسز، ایوان وزیراعظم کے اخراجات میں اضافہ نہیں ہوا تو بجا ہے لیکن اگر اضافہ ہوا ہے تو پھر اس اضافے کی وجوہات پر غور کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر اخراجات میں اضافے کی وجوہات میں مہنگائی بھی شامل ہے تو کیا عام آدمی جس پر یوٹیلٹی بلوں کا ناقابل برداشت بوجھ لاد دیا ہے وہ اس بوجھ کو اٹھائے سفر حیات طے کرپائے گا؟
ایک عام شہری کے لئے اس طرح کیوں نہیں سوچا جاتا جس طرح خواص اور بالا دست اداروں کے لئے سوچا اور فیصلہ کیا جاتا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ "کفایت شعاری، معاشی استحکام، حالات بہتر ہونے والے ہیں، پچھلی حکومت نے بیڑا غرق کردیا، نئے سرے سے تعمیر نو کرنے کی ضرورت ہے، مشکل وقت ہے عوام تھوڑی سی قربانی دیں جیسی باتیں بے معنی اور وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں"۔
عوام یعنی ایک عام گھریلو صارف کو بجلی کا فی یونٹ لگ بھگ 51 روپے میں پڑتا ہے۔ ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر یہ 63 سے 65 روپے یا اس سے بھی زیادہ میں مقابلتاً، جن کی تنخواہیں، مراعات، دوسرے اخراجات اور بھاری بھرکم پنشن عوام کی کھال ادھیڑ کر پوری ہوتی ہیں ذرا ان کا حساب بھی تو لوگوں کے سامنے رکھئے کہ ایک سابق بیوروکریٹ، سابق جج اور سابق جرنیل اس ملک کو اور قوم کو سابق ہونے کے باوجود کتنے میں پڑتا ہے؟ صرف یہی نہیں یہ افسر شاہی کے لئے بھاری بھرکم مالیت کی قیمتیں گاڑیاں کیا پڑوس کے تین ملکوں بھارت، چین اور ایران میں بھی انتظامی افسروں کو ایسی ہی قیمتی گاڑیاں اور دوسری مراعات سرکاری خزانے سے ملتی ہیں؟
کیسی بدقسمتی ہے کہ یہ افسر شاہی جن کے خون پسینے کی کمائی پر پلتی اور مزے لوٹتی ہے اسی سے بات کرتے وقت اس کی گردن میں 9 انچ کا سریا فٹ ہوجاتا ہے۔ ننانوے فیصد واقعات میں ایسا لگتا ہے کہ یہ افسر نہیں آقا ہیں اور عوام عوام نہیں غلام ہیں۔
اس جملہ معترضہ کے لئے معذرت ہم بنیادی سوال یا یوں کہہ لیجئے اصل موضوع پر ہی بات کرتے ہیں۔ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ کفایت شعاری بہت ضروری ہے مالیاتی وسائل میں کمی کا سامنا ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ایک طرف بجلی و گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں کے نام پر شہریوں کی کھال اتاری جارہی ہے دوسری جانب اشرافیہ کے طبقات کے لئے بجٹ میں دو ہزار ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی۔ دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا گیا۔ دفاعی پنشن سول بجٹ پر مسلط ہے۔
فوج کے مختلف کاروباروں میں سے حکومت وقت کے خزانے میں ہر سال کیا اور کتنا آتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے سوال سے حب الوطنی مشکوک ہوجاتی ہے۔ ہماری دانست میں ضروری بلکہ اس پر بھی سوالات اٹھنا چاہئیں کہ زراعت، بینکاری، ڈبے کا دودھ، ہائوسنگ سوسائٹیاں (ڈی ایچ اے وغیرہ) کھاد کے کاروباروں میں فوج سالانہ کتنا کماتی ہے۔ کتنا ٹیکس دیا جاتا ہے۔ بجت کی باقی رقم کا کیا ہوتا ہے۔
یہ ساری باتیں پارلیمنٹ کے توسط سے عوام کو معلوم ہونی چاہئیں۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ نیشنل ہائی ویز کے ٹال پلازہ اور موٹرویز کی آمدنی کا حساب نہیں ہے۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے میں گاڑیوں کی دستاویزات کا کارڈ بنانے کا ٹھیکہ بھی ایک ایسی ذیلی کمپنی کے پاس ہے جس کا تعلق ریاستی ادارے سے ہے۔
یہی نہیں یہاں تو یہ سوال پوچھنا بھی جرم ہے کہ سول محکموں میں کتنے ریٹائر فوجی افسران تعینات ہیں۔ بقول فقیر راحموں آخر سول حکموں کے مورچے فتح کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑتی ہے؟ فقیر راحموں کی اس بات سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ ملک اشرافیہ، ریاستی اداروں، ان کے ساجھے داروں اور دوسرے بالادست طبقات کی محفوظ چراگاہ ہے۔ خونخوار بھیڑیوں سے کون پوچھ سکتا ہے کہ حضور ہمارا کیا ہے اور ہمارے لئے کیا ہے۔
اچھا کیا سردی گرمی مہنگائی بدحالی یہ سب اس ملک کے عام شہریوں کا مقدر ہے۔ مقدر ہے تو کس نے لکھا؟ اصلاح احوال یا کفایت شعاری اسی طور ممکن ہے جب اشرافیہ ساجھے داروں، سول و ملٹری بیوروکریسی، اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی مراعات اور بعداز پنشن و دیگر سہولتوں میں کمی کی جائے۔
میں یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ ایک عام سرکاری ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ملازمت کے عرصے کی طرح اپنے بلز خود دیتا ہے تو یہ بڑے اداروں کے بڑوں کی فوج ظفر موج ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عوام کی گردن پر کیوں مسلط ہے؟
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس ملک کے عام شہری کا ریاستی وسائل میں کوئی حصہ نہیں ریاست گنے کا رس نکالنے والی ایسی مشین بن چکی ہے جس میں اب شہری کو دوہراکرکے ڈالنے کا تجربہ ہورہا ہے۔
یہاں ہر حکومت کہتی ہے کہ پچھلی حکومت نے تباہ کردیا۔ معاف کیجئے گا ساری حکومتوں اور اشرافیہ نے تباہی میں حصہ بقدرے جُثہ ڈالا اور ڈال رہے ہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ حالات قربانی مانگتے ہیں تو اس قربانی کا آغاز اشرافیہ، سول و ملٹری بیوروکریسی، اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان، وفاقی و صوبائی کابینائوں سے کیجئے تاکہ ہم (عوام) بھی تو جان پائیں انہیں ہم سے کتنی محبت ہے۔