تنگ نظری، جہالت اور تعصبات کا "ننگا ناچ"
جب آپ کا کل علم وراثت میں ملے عقیدے تک محدود ہو تو آپ دنیا کے سارے معاملات کو اپنے مخصوص عقیدے کی عینک سے دیکھ کر درست یا غلط ہونے کا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ ایسی حالت میں آپ صرف خود کو درست اور باقی ساری دنیا کو غلط ہی سمجھتے ہیں۔
ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کے تعلیمی نصاب میں ایک بھی مضمون ایسا نہیں جو تقابلی مطالعہ کی طرف رہنمائی کرسکے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ ہمارا تعلیمی نصاب لکیر کے فقیر بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے۔ علم و تحقیق کے میدان میں اترنے والوں کی رتی برابر رہنمائی کرنے کے تقاضوں سے محروم ہے۔
ایک سے زائد بار ان کالموں میں عرض کرچکا کہ مروجہ تعلیمی نصاب فقط ضروریات زندگی پوری کرنے کا وسیلہ ہے۔ اپنے تعلیمی نصاب اور نظام تعلیم کا ترقی یافتہ نہیں تو کم از کم اپنے پڑوس کے ممالک (افغانستان نہیں) کے تعلیمی نظام اور نصابوں سے تقابلی جائزہ لے کر دیکھ لیجئے۔
تب بھی معمولی سی محنت سے آپ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں فنی تعلیم کو اولیت کیوں دی جاتی ہے اور غیرفنی تعلیم کے نصاب میں طلباء کے لئے تحقیق، جستجو کی کشش کیوں ہے۔
ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ایک تو تعلیمی نظام اور نصاب دونوں جدیدیت سے محروم ہیں ثانیاً ایسا لگتا ہے کہ ان کی بُنت کے لئے جن کی خدمات حاصل کی گئیں خود وہ بھی اس امر سے آگاہ نہیں تھے کہ تعلیم، علم و تحقیق کی بارگاہوں میں لے جانے کا ابتدائی ذریعہ ہے۔
مثال کے طور پر ہمارے ہاں ناظرے قرآن مجید پڑھ لینے اور دستخط کرلینے والے کو خواندہ سمجھا جاتا ہے جبکہ یونیسیف نے خواندہ شخص کی جو تعریف کی وہ کچھ یوں ہے "وہ شخص جو اخبار کی ہیڈ لائن پڑھ کر تبصرہ کرسکے وہ خواندہ ہے"۔ ویسے ہمارے ہاں اخبارات کی سرخیاں اور ٹی وی چینلوں کے ٹکر پڑھ پڑھ کر لوگ دانش کے کوہ ہمالیہ پر جلوہ افروز ہوجاتے ہیں۔
چار اور نگاہ دوڑا کر دیکھ لیجئے "اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے" افسوس کہ دستیاب مسلم مکاتب فکرکے اپنے اپنے نصاب ہائے تعلیم کی حالت تو اس نظام اور نصاب سے بھی گئی گزری ہے جنہیں دینی تعلیم کے مراکز کے اساتذہ اور طلباء کی اکثریت گمراہی کے سوا کچھ نہیں سمجھتی۔
گو اب مختلف مکاتب فکرکے بعض مدارس نے اپنے دروازے اس دنیاوی تعلیمی نصاب کے لئے کھول دیئے ہیں جو کل تک غیراسلامی تھا۔
اب آیئے تیسری سمت اس سمت میں پانچوں مسلم مکاتب فکرکے لوگوں کی اکثریت کھڑی دیکھائی دے گی۔ ان سب کا دستیاب علم اور فہم اپنے اپنے فرقے کی مسجد میں دیاگیا جمعتہ المبارک کا خطبہ، خاندانی عقیدے کے ماخذات اور اپنے اپنے مسلک کے خصوصی ایام پر سماعت کی گئی تقاریر کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں بھی ہر شخص خود کو درست اور باقیوں کو صریحاً غلط سمجھتا ہے۔
تکفیر و توہین کی بڑھ چڑھ کر حوصلہ ا فزائی ہوتی ہے بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ جو شخص جتنا تکفیریت پسند ہوگا وہ اپنے مسلک کے لوگوں کے لئے "مثالی" شخص ہوگا۔ ایک ایسے سماج میں جہاں سورج پھانسی چڑھائے جاتے ہوں اور چاندنی سڑک پر ماردی جائے، آگہی کے چراغ روشن کرنا اور پھر انہیں روشن رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔
خوابوں کی تجارت جہاں صدیوں سے من پسند اور نفع بخش کاروبار ہو وہاں تحقیق و جستجو وقت کا ضیاع قرار پاتے ہیں۔ مکالمہ اور علم تو اوقات ہی نہیں رکھتے ہاں اگر آپ نے سوال کرنا سیکھ لیا ہے تو آپ کے بارے میں عمومی رائے یہ بنے گی کہ "حضرت دماغی خلل کا شکار ہیں"۔
ایک طالب علم کے طور پر سفر حیات کے 65 سال کے سفر میں لگ بھگ 55 برس تو مطالعہ کرتے ہوئے بیت گئے۔ تربیت کرنے والوں کا ہر صبح شکریہ ادا کرتاہوں کہ آج بھی مطالعہ سب سے پسندیدہ چیز ہے۔ مطالعہ کرتے رہنے کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس عادت کی وجہ سے تکبر و نخوت جنم نہیں لیتے ورنہ ہمارے چار اور خاندانی عقیدوں کی وراثت میں ملی فہم کی بُکل مارے لوگ دندناتے پھرتے ہیں اور ان میں سے ہر شخص ایک ہی وقت میں محدثِ دوراں، قاضی، عالم، نجات دہندہ(اپنی نجات کی خبر نہیں لیکن لوگوں میں نجات کی ریوڑیاں تقسیم کرنے کا شوق چین سے نہیں بیٹھتے دیتا) اور نجانے کیا کیا ہے۔
کچھ نہیں تو ان کے اندر ایک طالب علم جیسی لگن اور جستجو نہیں ہے۔ یہ لوگ دنیا کے ہر معاملے، موضوع اور چیز کو صرف خاندانی عقیدے کی اس آنکھ سے دیکھتے ہیں جس کی بینائی کی حد ناک سے آگے نہیں ہے۔
جان کی امان رہے تو عرض کروں ہم ایسے ہی سماج میں جینے بسنے پر مجبور ہیں جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ ہمارے ہمزاد فقیر راحموں اس کی وجہ نفرت پر ہوئے بٹوارے کو قرار دیتے ہیں۔ یہ غلط بھی نہیں نفرت پر ہوئے بٹوارے کے کھیتوں میں گلاب تو کاشت نہیں ہوتے۔
ایسا ہی حال سکیورٹی سٹیٹ کا ہوتا ہے اس کا دھندہ اور تام جھام چلتے ہی اس پر ہیں کہ کوئی شخص سوچنے سمجھنے کی کوشش نہ کرے ہر شخص دوسرے کی کمزوریاں تلاش کرے شمار کرے اور اچھالے۔ یہ ماحول سکیورٹی سٹیٹ کے دوام کے لئے سازگار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس سے مختلف کیا ہے؟
چند ساعتیں نکال کر چار اور نگاہ دوڑا لیجے۔
چند برس بلکہ عشرہ بھر کے دوران مجھے دوبار اپنے ملاقاتیوں کے ہاتھوں بدترین صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ پہلا صدمہ ایک مکتب فکرکے پیش نماز (مولوی صاحب) کے سوال سے پہنچا۔ وہ کسی دوست کے توسط سے ملنے تشریف لائے تھے کمرے میں کتابیں دیکھ کر حیران ہوئے۔ چند کتابوں کو الٹ پلٹ کر انہوں نے سوال داغا "شاہ جی یہ "لوگ" بھی کتابیں لکھتے ہیں؟
ان کے سوال نے حیران تو کیا ہی صدمہ بھی پہنچایا کیونکہ پیش نماز ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک ٹیوشن سنٹر بھی بنارکھا تھا جہاں وہ ابتدائی کلاسوں کے بچوں کی تربیت کرتے تھے۔ دوسرا صدمہ تین چار برس قبل سہنا پڑا۔
میں جوہر ٹائون میں قبل ازیں جس مکان کے پورشن میں کرائے پر مقیم تھا اس گھر کے مالک بیرون ملک مقیم تھے۔ سالانہ چھٹیوں پر پاکستان آئے تو اپنے عزیز کے ہمراہ کرایہ داروں سے ملاقات کے لئے تشریف لے آئے۔ (مالک مکان کیمیکل انجینئر تھے) ہم یعنی مالک مکان، ان کے عزیز اور میں لائبریری میں بیٹھے ابتدائی تعارف کے بعد گپ شپ میں مصروف تھے اچانک انہوں نے ایک تفسیر قرآن نکالی اوراق الٹ پلٹ کر دیکھے اور پھر سوال کیا۔
شاہ جی شیعہ بھی قرآن کو مانتے پڑھتے ہیں؟
میرے چہرے کے تاثرات سے نجانے انہیں کیا محسوس ہوا فوراً اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے اصل میں ہمارے علماء تو کہتے ہیں اہل تشیع قرآن کو نہیں مانتے۔ اتفاق سے میرے پاس چار پانچ مختلف اداروں کے شائع کردہ قرآن مجید موجود تھے میں نے ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا ان میں سے چار قرآن مجید ان اداروں نے شائع کئے ہیں جو اہلسنت کے ادارے کہلاتے ہیں اور ایک اس ادارے نے شائع کیا ہے جو اسلام آباد میں واقع ہے اور اہل تشیع کا ادارہ ہے ان میں زیر زبر کا فرق تلاش کرکے بتا دیجئے۔
یہ ملاقات ایک طرح سے بدمزگی پر ختم ہوئی۔ چند دن بعد انہوں نے مکان خالی کرنے کا نوٹس بھجوادیا۔ بھاگ دوڑ کے بعد جوہر ٹائون کے ہی دوسرے بلاک میں واقع ایک پورشن میں شفٹ ہو گئے۔
اس واقعہ سے بلکہ بالائی سطور میں لکھے دو واقعات سے اس سماج کی خالص فرقہ وارانہ نفرت سے عبارت مذہبی فہم اور جدید علوم سے بہرہ انجینئر صاحب کے خاندانی عقیدے کے اس تعصب کا اندازہ کرلیجئے۔
یہی حالت ہم سب کی ہے "نہلے پر دہلا" والی صورتحال ہے۔ مجھے احساس ہے کہ آج کا یہ کالم اپنے مندرجات کی بدولت آپ کو پسند نہیں آئے گا لیکن کبھی کبھار اپنے چار اور رقص کرتی تنگ نظری، جہالت اور بودے پن سے بھی آگاہ ہولیا کیجئے یہ بھی بہت ضروری ہے۔