شاکر بھرا حکم رب دا
گزشتہ چند دنوں سے دن میں دوچار بار موبائل اٹھاکر برادر عزیز شاکر حسین شاکر کا نمبر ملانے کا سوچتا ہوں۔ چند ساعتوں تک متعلقہ نمبر آنکھوں کے سامنے سکرین پر رہتا ہے پھر موبائل بند کردیتا ہوں۔ میں شاکر حسین شاکر سے اس کی امڑی حضور کے سانحہ ارتحال پر تعزیت کرنا چاہتا ہوں لیکن حوصلہ نہیں کرپاتا۔ اپنے یا کسی پیارے کے پیارے کے بچھڑ جانے پر سب سے مشکل کام تعزیت کرنا ہے۔
پھر اگر بچھڑنے والی ذات مادر گرامی کی ہو تو الفاظ ہی نہیں ذہن و دل بھی ساتھ نہیں دیتے۔ امڑی (والدہ حضور) کی ذات گرامی وہ واحد ذات ہے جس کا کوئی متبادل نہیں اور ماں جسیسی محبت اولاد سے کوئی بھی نہیں کرتا۔
ہمارے سماج میں صدیوں کی ایک متھ سفر کررہی ہے وہ یہ کہ خدا انسان سے 70 مائوں جتنا پیار کرتا ہے۔ میں ہمیشہ اس متھ پر غور کرتا ہوں۔ ایک ماں ہر حال میں اپنی اولاد کے لئے شفیق کریم مہربان رہتی ہے پھر خدا کو بھی 70 مائوں کی طرح ہی محبت اور درگزر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اپنے بچپن میں میں جب یہ سوال اپنی آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ کے سامنے رکھتا تو وہ میرے سر پر ہلکا سا ہاتھ ماردیتیں اور کہتیں"راجی میاں ابھی پڑھنے سمجھنے اور لکھنے کے دن ہیں۔ ایک دن اس سوال کا جواب مل جائے گا"۔
ان سموں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں میں تصور ہی تصور میں اپنی آپا اماںؒ کی تربت پر ان کے قدموں کی سمت بیٹھا عرض کررہا ہوں۔ آپا اماںؒ میرے سوال کا جواب اب تک نہیں ملا۔ سفر حیات کے 65 برس پورے کرلئے بلکہ چند ماہ اوپر ہونے کو ہیں۔ مجھے لگا کہ آپا اماں نے دریافت کیا راجی میاں تمہارا سوال کیا تھا؟
اب میں ترمیم شدہ سوال پیش کرتے ہوئے کہتا ہوں آپا اماں یہ ستر ماوں جیسا پیار کرنے والی متھ کا خدا اولاد سے ان کی ایک ماں کیوں چھین لیتا ہے؟
ساعت بھر کے لئے یہ احساس دوچند ہوا کہ آپا اماں نے حسب معمول ہلکی سے چپت میرے سر پر رسید کی اور بولیں"میرے لاڈلے ایسا کہتے سوچتے نہیں اللہ میاں برا مناتے ہیں"۔ بے ساختہ میں کہہ اٹھا۔
آپا اماں پھر ماں کتنی عظیم ہستی ہے کسی بھی حال میں اولاد کی کسی بات اور عمل کا برا مناتی ہے نہ دوزخ کی سزائوں سے ڈراتی ہے بلکہ درگزر سے کام لیتے ہوئے قصور وار اولاد کو بھی اپنے آنچل میں سمیٹ لیتی ہے۔
معاف کیجئے گا پچھلے چند دنوں سے یہی سوچ رہا ہوں۔ خود مجھے جب بھی اپنی امڑی و آپا اماں یاد آتی ہیں ایسی باتیں اور سوال دستک دینے لگتے ہیں۔ میں نصف صدی سے اس بات پر ایمان کی طرح قائم ہوں کہ ماں اولاد کے لئے آٹھواں آسمان ہوتی ہے۔
ایسا آٹھواں آسمان جو اولاد کی سمت بڑھنے والے ہر رنج و الم محرومی و بے نوائی کو اپنی محبت کی طاقت سے روک لے۔ ابتدائی سطور میں عرض کیا تھا کہ میں موبائل اٹھاتا ہوں شاکر حسین شاکر کا نمبر سکرین پر لاکر کئی ساعتوں تک آنکھوں کے سامنے رکھتا ہوں پھر سکرین آف کردیتا ہوں۔ تعزیتی فون نہیں کرپاتا امڑی حضور اپنی، دوستوں کی دنیا سرائے سے رخصت ہوں یا کسی دشمن کی امڑی سے محرومی کا دکھ وہی جان پاتے ہیں جو اپنی اپنی امڑیوں کی تربت سینوں میں بنائے اٹھائے سفر حیات طے کررہے ہیں۔
مجھے جب کسی دوست یا عزیز جاں کی امڑی حضور کے سانحہ ارتحال کی رنج بھری خبر ملتی ہے تو بے ساختہ آنکھیں بھر آتی ہیں۔ وجہ وہی ایک ہے کہ مجھ بدنصیب کے سینے میں تو دو امڑیوں (والدہ حضور اور آپا اماں حضور) کی تربتیں ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ہر پل ہر جگہ ان تربتوں پر جونہی نگاہ پڑتی ہے بے ساختہ سسکیاں نکل جاتی ہیں۔
تعزیت کے لئے فون اٹھانا اور پھر تعزیتی فون کئے بغیر موبائل واپس رکھ دینا اچھی بات نہیں مجھے شاکر حسین شاکر کو تعزیتی فون کرنا چاہیے۔ وہ میرا دوست ہے ہمارا جنم شہر ایک ہے۔ دونوں کا بچپن کچھ فاصلے پر چوک خونی برج کے علاقے میں بسر ہوا۔ نصف ملتان کے سرجن کا اسم گرامی سن کر احترام سے جھک جائیں شاکر حسین شاکر ان ملتانیوں کی کئی نسلوں کے معلم پروفیسر حسین سحر مرحوم کا عزیزِ جاں ہے۔
ان سارے رشتوں اور تعارفوں سے بڑھ کر جو اس کی ذات کا حوالہ ہیں شاکر حسین شاکر میرا چھوٹا بھائی مربی اور محسن ہے۔
دوچار پانچ دن بعد لکھی گئی یہ سطور ممتا کی محبت سے محروم ایک فرزند کے جذبات ہیں اس عزیز جاں کے لئے جو حال ہی میں اپنی امڑی کی محبت شفقت دعائوں ایثار یوں کہہ لیجئے اپنے آٹھویں آسمان سے محروم ہوا ہے۔ اس کا باقی ماندہ سفر حیات آٹھویں آسمان کی چھائوں کے بغیر طے ہوگا کل تک والدہ حضور کی دعائیں اسے حصار میں لئے ہوئے تھیں۔
دعائیں ماں کی ذات کی ہوں تو یہ دنیا کا سب سے گھنا پیڑ ہوتی ہیں۔ رتی برابر دھوپ کی کرن بھی اولاد پر نہیں پڑنے دیتا یہ گھنا پیڑ۔
پانچویں کلاس کے زمانے میں مجھے بخار ہوا تھا وہی بدنام زمانہ بخار جسے عام طور پر گردن توڑ بخار کہتے ہیں۔ نیم بیہوشی کے ان چار پانچ دنوں میں میری آپا اماں نے بیٹے کے سرہانے سے اٹھنا گوارہ نہیں مجھے آرام آیا تو میں نے پوچھا آپا اماں آپ نے آرام کیوں ترک کیا؟
رسان سے بولیں میرے شہزادے، اولاد کے لئے ماں خدا اور اجل کے ساتھ بیماری سے بھی لڑتی رہتی ہے۔ اولاد کی زندگی کے لئے جنگ کرتی مائوں کی آنکھ کب لگتی ہے۔
وائے قسمت، پھر وہ دن بھی آتا ہے اولاد کی زندگیوں میں اولاد کے لئے خدا اور اجل سے بھڑ جانے والی مائیں منوں مٹی کی چادر اوڑھ کر تربتوں میں جا سوتی ہیں۔
سو برادر عزیز شاکر حسین شاکر، امڑی کے آٹھویں آسمان سے محروم اس بھائی کی تعزیت قبول کیجے ملتانی میں یوں کہہ لیتے ہیں، شاکر بھرا حکم رب دا۔
لاریب والدہ حضور کی ذات سا کُل جہان میں اور کوئی نہیں۔ امڑی کی چھائوں سے محروم مجھ سے بدنصیب کا ایمان یہی ہے کہ اگر کہیں کوئی جنت ہے تو وہ ماں کے پُرنور چہرے اقدس میں ہے۔
ماں سے جدائی کا غم ہمالیہ پہاڑ کی اونچائی سے بھی بلند اور وزنی ہے۔ ماں ایسی نعمت ہے کہ حیاتی کی ساری نعمتیں اس کے مبارک و مقدس پیروں (پائوں) سے لگی دھول پر قربانی کی جاسکتی ہیں۔
اس نعمت، سائبان، دعائوں، گھنی چھائوں سے محرومی پر صبرو قرار نہیں آتا پھر بھی رسم دنیا بھی یہی ہے اور تعزیت بھی یہی ہے کہ اللہ آپ کو صبر جمیل عطا کرے۔ ماں جی کو سرکار سیدہ پاک بتول سلام اللہ علیہا کی محبوں میں شمار فرمائے آمین۔
امڑی حضور سے محرومی کے بعد کا سفر حیات سختیوں اور امتحانوں سے محفوظ رہے۔
ویسے شاکر حسین شاکر سچ کہوں جن مائوں کی تربت اولاد کے سینے میں ہوتی ہے وہ اور کسی دکھ سختی امتحان اور بے کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ جب سرکار حضرت احمد مرسلﷺ کی والدہ گرامیؑ نہ رہیں، سرکار حسنین کریمینؑ کی والدہ گرامی سیدہ پاک بتولؑ نہ رہیں تو جہانِ رنگ و بو میں کس ذی روح نے رہنا بسنا ہے۔
مائوں کے آنچل سے محروم اولاد کا فرض یہ ہے کہ وہ زندگی کے باقی ماندہ سفر میں ان کے لئے باعث عزت و وقار بنے۔ چار اور کے لوگ ہر قدم پر تربیت کرنے والی ماں کا ذکر کرتے ہوئے کلمہء خیر کہیں۔
مجھے معاف کرنا دوست میں تعزیتی فون نہیں کرپایا۔ موسم ان دنوں خاصا سخت ہے اور دوسری بیماریوں کے ساتھ کمر میں تکلیف کی نئی بیماری نے بے حال کررکھا ہے۔ طبیعت بہتر ہوتی تو میں اپنی اور آپ کی امڑیوں کے شہر ملتان کی مٹی کو بوسہ دینے کے لئے حاضر ہوتا ہوں۔
پھر ہم مائوں کی چاہتوں کریمیوں شفقتوں ایثار اور تربیت پر ڈھیروں باتیں کریں گے۔ فاتحہ خوانی کریں گے۔۔
شاکر بھرا میری امڑی مرحومہ کو سورۃ کوثر بہت پسند تھی۔ مجھے جب ماں یاد آتی ہیں تو میں سورۃ کوثر کی تلاوت کرتا ہوں تمہارے لئے بھی یہی کہوں گا سورۃکوثر کی تلاوت کرکے والدہ حضور کی خدمت میں ہدیہ کیا کرو۔
شاکر بھرا حکم رب دا کائنات کی سب سے مہربان ذات والدہ گرامی کے سانحہ ارتحال پر تعزیت قبول کیجئے۔