سانحہ سوات، مبینہ الزام، پولیس کا موقف
گزشتہ شام مدین سوات کے مقامی ہوٹل میں قیام پذیر سیالکوٹ کے رہائشی ایک سیاح (محمد سلمان) پر ہوٹل کے عملے کی جانب سے قرآن مجید جلانے کے مبینہ الزام کے بعد پیدا ہوئی صورتحال اور مشتعل شہریوں کی جانب سے مقامی پولیس سٹیشن پر حملے، پولیس سٹیشن کو جلانے، توہین قرآن کے مبینہ ملزم کو تھانے کے اندر گولیاں مار کر قتل کرنے اور بعدازاں اسے جلا دینے کے افسوسناک واقعہ پر ڈی پی او سوات کا کہنا ہے کہ مرنے والا شخص فیملی سمیت نہیں بلکہ تنہا مقامی ہوٹل سکائی ویز میں قیام پذیر تھا۔
ہوٹل کے عملے نے اس پر قرآن مجید کے اوراق جلانے کا الزام لگایا۔ پولیس نے تندہی سے کام لیتے ہوئے اسے ہجوم کی تحویل سے لے کر تھانے منتقل کردیا۔ ڈی پی او کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشتعل ہجوم کے بلوے اور فائرنگ سے 5 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
ذرائع ابلاغ کے سوات میں نمائندے 11 شہریوں کے فائرنگ سے زخمی ہونے کی اطلاعات دے رہے ہیں۔
ڈی پی او سوات کے بقول ہجوم کی فائرنگ، تشدد اور جلائے جانے سے مرنے والا شخص سیالکوٹ کا رہائشی تھا نیز یہ کہ اس کے خاندان (والدہ) نے اسے ناپسندیدہ سرگرمیوں کی وجہ سے عاق کر رکھا تھا۔
ڈی پی او کے اس موقف سے بظاہر اس بات کی تو تردید ہوگئی کہ مرنے والا اپنی فیملی کے ساتھ ہوٹل میں مقیم تھا لیکن اس تردید کی تائید دستاویزاتی طور پر ضروری ہے اور اس امر کی تائید کے لئے بھی ثبوت درکار ہوں گے کہ مرنے والے کی اہلیہ کچھ عرصہ یا چند سال قبل طلاق لے کر علیحدہ ہوگئی تھی۔
اپنے موقف میں ڈی پی او سوات نے جس بنیادی نکتے کو نظر انداز کیا وہ یہ ہے کہ ایک شخص اگر واقعتاً اس جرم کا مرتکب ہوا ہے تو پھر اسے سیالکوٹ سے سوات جانے کی ضرورت کیا تھی۔
ہوٹل عملے کے ایک رکن کا موقف ہے کہ مبینہ الزام کی زد میں آنے والے شخص کے کمرے میں قرآن مجید اور دیوان غالب موجود تھے اور کچھ اوراق جلے ہوئے تھے جوکہ میرے خیال میں قرانی اوراق تھے۔ اس خیال کی بنیاد کیا ہے؟
اس سانحہ کی ابتداء کے حوالے سے جو فوری اطلاعات سامنے آئیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ مرنے والے کی ہوٹل کے مالک یا منیجر کے درمیان کسی مسئلہ پر ہوٹل کی ریسپشن پر تلخ کلامی ہوئی جہاں سے بات بڑھتی گئی۔
اسی طرح پہلا الزام یہ سامنے آیا کہ مذکورہ شخص کے پرس میں سے قرآن مجید کے پھٹے ہوئے اوراق برآمد ہوئے۔ ایسا ہے تو یہ پرس اس کے پاس سے ہوٹل عملے تک کیسے پہنچا؟
ڈی پی او کے موقف سے یہ بات سامنے آئی کہ ہوٹل ملازم نے اس شخص کے کمرے میں قرآن مجید کے جلے ہوئے اوراق دیکھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا محض ہوٹل عملے کے ایک رکن کا الزام لگادینا ہی کافی تھا کہ معاملہ سٹریٹ جسٹس پر ختم ہوا؟
ہماری دانست میں یہ معاملہ اتنا سیدھا سادہ ہرگز نہیں توہین قرآن کی مبینہ کہانی میں بہت سارے جھول ہیں ایسے ہی جھول پولیس کے موقف میں بھی ہیں جو ڈی پی او نے ذرائع ابلاغ کو دیا۔ مثلاً ڈی پی او کہتے ہیں پولیس نے قتل ہونے والے شخص کو اس وقت ہوٹل کے باہر سے اپنی تحویل میں لیا جب مشتعل لوگ اس پر تشدد کررہے تھے۔ لیکن مقتول کی مقامی تھانہ میں بنی جو تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اس سے بالکل نہیں لگتا کہ پولیس کی تحویل میں آنے سے قبل اس پر کسی نے تشدد کیا ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈی پی او سوات اسی تصویر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کو تھانے پر حملے اور بلوے کی وجہ بتاتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ الزاماتی کہانی اور ڈی پی او کے موقف دونوں تضادات سے بھرے ہوئے ہیں۔
سچائی کیا ہے اس پر اب تک تو پردہ پڑا ہواہے کیا ہم امید کریں کہ ایک ایسی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے گی جو اس معاملے کے مختلف پہلوئوں اور ابتدائی اطلاعات ہر دو کو سامنے رکھ کر تحقیقات کرے، پورا سچ سامنے لائے اور سٹریٹ جسٹس کے شوقین افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر انہیں کیفرکردار تک پہنچائے؟