معزز منصفوں، تصحیح لازم ہے
سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو عبوری طور پر معطل کردیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اپیل کی سماعت کرنے والے بنچ پر ا عتراض کے بعد لارجر بنچ کے لئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوادیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے بنچ کے سربراہ اور دیگر ججز نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو نامناسب اور بظاہر آئینی اصول سے متصادم قرار دیا۔ لارجر بنچ کی تشکیل کے لئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوانے کے بعد سماعت 3 جون تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔
اپیل کی سماعت کے دوران بنچ کے ارکان کا کہنا تھا کہ ہمیں عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کرنا ہے۔ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ بچی ہوئی مخصوص نشستیں دوبارہ انہی پارٹیوں کو دے دی جائیں؟
دوران سماعت بنچ کے ایک معزز رکن جسٹس اطہر من اللہ نے جذباتی انداز میں کہا کہ پہلی بار بڑی پارٹی سے انتخابی نشان چھینا گیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا قبل ازیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سے ان کے انتخابی نشان چھینے گئے۔ اے این پی سے بھی انتخابی نشان واپس لیا گیا تھا۔ بعدازاں یہ ثابت ہوا کہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن غلط ہے۔ اس پر سبکی کو چھپانے کے لئے پچاس ہزار روپے جرمانہ کرکے قانون کی دھونس جمائی گئی۔
تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لینے کے خلاف اپیل کی سماعت کے مرحلہ میں سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ فی الوقت معاملہ یہ نہیں کہ انتخابی نشان کیوں واپس لیا گیا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے ارکان گروپ کی صورت میں کسی جماعت میں شامل ہوں گے تو انہیں اپنی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستنیں ملنی چاہئیں؟
اس سوال پر دو آراء ہیں اولاً یہ کہ اگر آزاد ارکان کسی ایسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں جو پارلیمان میں نمائندگی رکھتی ہے اور مخصوص نشستوں کےلئے اس کی درخواست بھی الیکشن کمیشن کے پاس جمع ہے تو مخصوص نشستوں کی تقسیم میں اسے شامل کیا جائے گا۔ بعض قانون دانوں کا اس معاملے میں جواب نفی میں ہے۔
ثانیاً یہ کہ کیا کوئی آزاد گروپ کسی ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کرے جس کی پارلیمانی حیثیت نہ ہو اور نہ مخصوص نشستوں کی درخواست پہلے سے جمع ہو اسے نئی صورتحال میں مخصوص نشستیں دی جانی چاہئیں۔ اس پر بھی حمایت اور مخالفت میں دو آراء ہیں مگر پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017ء کے حساب سے پارلیمانی نمائندگی سے محروم جماعت کو آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں۔
سنی اتحاد کونسل کی اپیل کی سماعت کے دوران دیئے گئے ریمارکس سے یہ تاثر ابھرا کہ معزز بنچ کے ارکان نے اخباری خبروں اور وکلاء کے دلائل سے آگے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017ء پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کی زحمت نہیں کی۔
انتخابی نشان واپس لئے جانے والے معاملے میں بھی پوری بات نہیں کی گئی بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ حقائق اور قوانین سے متصادم ریمارکس پر ہی وفاقی حکومت نے بنچ پر اعتراض کیا۔
گو اب یہ معاملہ لارجر بنچ کی تشکیل کے لئے ججز کمیٹی کے پاس ہے اس کے باوجود ہماری رائے یہی ہے کہ وفاقی حکومت کو بنچ پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ بنچ کو یاد دلانا چاہیے تھا کہ انتخابی نشان کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے اور یہ کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ماضی میں دو مرتبہ انتخابی نشان سے پیپلزپارٹی اور ایک مرتبہ مسلم لیگ (ن) کو محروم کیا گیا۔
سنی اتحاد کونسل جو اپیل کی مدعی ہے رجسٹر سیاسی جماعت تو ہے لیکن اس نے ایک سیاسی جماعت کے طور پر انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا یہاں تک کہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا خود بھی آزاد حیثیت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اس جماعت نے چونکہ جماعتی حیثیت سے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا اس طور پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017ء کی روشنی میں قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کسی مخصوص جماعت یا گروپ کی سہولت کاری کے شوق سے ہٹ کر قوانین کو دیکھا جانا ازبس ضروری ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ کیا باقی ماندہ مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم ہوں گی یا ایک پارلیمانی سیشن کے لئے یہ نشستیں معطل رہیں گی؟ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ بنیادی نوعیت کے اس سوال سے سبھی آنکھیں چرارہے ہیں۔
اس امر پر دو آراء نہیں کہ سپریم کورٹ کے حالیہ عبوری فیصلے سے سیاسی و پارلیمانی بھونچال برپا ہوئے ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق عدلیہ اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی کی واحد بینیفشری پی ٹی آئی ہے۔
ہوسکتا ہے ایسا ہو مگر مناسب ہوگا کہ ملک، دستور اور پارلیمنٹ کو مقدم سمجھا جائے۔ پسندوناپسند پر ریمارکس اور فیصلے مسائل سے زیادہ بحران کی راہ ہموار کریں گے۔
امید واثق ہے کہ لارجر بنچ کی تشکیل کے بعد اس کیس کی سماعت کے دوران جذباتیت کے مظاہرے سے گریز کیا جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ واقعاتی غلطیوں اور بعض ریمارکس سے پیدا ہوئے مغالطوں کو بھی درست کرنے کی سعی کی جائے گی۔