"گر بُرا" نہ لگے، باقی کی دوباتیں
چند دن قبل لکھے گئے کالم "کچھ عرض کروں گر برا نہ لگے" کی ابتدائی سطور میں تین باتیں عرض کی تھیں اُس کالم میں ان تین باتوں پر معروضات پیش کرنا چاہتا تھا مگر ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس والی پہلی بات ہی پورا کالم لے گئی۔
اس وقت بھی جب یہ سطور لکھ رہا ہوں سیاست کے میدان میں خاصا رونق میلہ ہے۔ تحریر نویس کا خیال ہے کہ اس رونق میلے پر بات کرنے کی بجائے دو رہ جانے والی باتوں اولاً بلوچستان کے حوالے سے نئے قوانین و اختیارات اور ان کے لئے وسائل فراہم کرنے کے فیصلے اور ثانیاً آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے اس بیان پر کہ "سیاسی اختلافات کو نفرتوں میں نہ ڈھلنے دیں" پر بات کرلیتے ہیں۔
بلوچستان میں فوج اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے محکموں کو خصوصی اختیارات اور وسائل دینے کا فیصلہ وفاقی کابینہ نے کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء میں ترمیم کی بھی منظوری دیدی ہے۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں کی گئی ترمیم سے فورسز کو مزید موثر آپریشن کے لئے قانونی تحفظ ملے گا۔
مشکوک افراد کو قبل از وقت حراست میں لیا جاسکے گا۔ کسی بھی گرفتار شدہ شخص کو فورسز 90 دن تک اپنی تحویل میں رکھ سکیں گی ایسے افراد کیلئے حراستی سنٹر بنائے جائیں گے گرفتار شدگان کے معاملات کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹیز بنائی جائیں گی۔
پہلا سوال یہ ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء میں کی گئی ترمیم کا اطلاق پورے پاکستان پر کیوں نہیں؟ کیا مختلف الخیال لوگوں کی بدزبانی، تکفیر سے بھری بدبودار گفتگوئیں اور دوسرے معاملات دہشت گردی کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔
کیا خیبر پختونخوا میں کالعدم مسلح تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کے منظم نیٹ ورک موجود بلکہ فعال نہیں؟
صوبہ پنجاب اور سندھ میں بھی تو کالعدم فرقہ پرست تنظیموں کے مسلح جتھے فعال ہیں ان جتھوں کے مذہبی و سیاسی چہرے سمجھے جانے والے لوگ سرگرمیوں میں بھی مصروف ہیں ان کے اجتماعات میں مخالفین کے خلاف دشنام طرازی اور غلیظ نعرے بازی عام بات ہے پھر کیوں نہیں ان کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوتا؟
اب آیئے بلوچستان کے حوالے سے چند باتوں اور تحفظات کے ساتھ پچھلے تین دنوں سے سامنے آنے والی شکایات پر بات کرلیتے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم اور بلوچستان کے لئے فوج و دیگر فورسز کو خصوصی اختیارات دیئے جانے کے بعد صوبہ بھر سے 4 ہزار کے لگ بھگ افراد کو فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کے لئے اس کے کوآرڈی نیٹر نور باچا، زبیر شاہ آغا اور ملک عبدالمجید کا نام بھی فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا ہے یہی نہیں بلکہ پی ٹی ایم کے ان رہنمائوں کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی سے بتایا گیا ہے۔
اسی طرح بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ادیب و دانشور اور معروف معلم عابد میر بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا ان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنا نام فورتھ شیڈول میں ڈالے جانے کا نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پر دیکھا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر واقعتاً 4 ہزار کے قریب سیاسی کارکنوں، ڈاکٹروں، ادیبوں، شاعروں، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ہم خیالوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ہیں تو کیا فورتھ شیڈول میں کسی بھی شخص کا نام ڈالنے سے قبل کے قانونی تقاضے پورے کئے گئے۔
کہیں وہ ساری معلومات تحریری صورت میں ثبوتوں کے ساتھ صوبائی ہوم سیکرٹری یا متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو پیش کی گئیں۔ کیا فور شیڈول میں ڈالے گئے افراد کو کہیں طلب کرکے ان کا موقف لیا گیا؟
ویسے سچ تو یہ ہے کہ سکیورٹی اسٹیٹ میں ان سوالات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ یہ غیرضروری ہوتے ہیں پھر بھی بات تو کرنا ہی ہوگی۔
بلوچستان کے لئے فوج اور سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے پیشگی گرفتاریوں اور 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار اور گرفتاری کے بعد تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی کا قیام کیا یہ ساری باتیں شہری آزادیوں سے متصادم نہیں؟
وفاقی کابینہ کے لئے بہتر نہ ہوتا کہ وہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر وزیراعظم کو تجویز کرتی کہ اس پر باضابطہ قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کیاجائے؟ نیز یہ کہ ان اضافی اختیارات کے مثبت و منفی نتائج ہر دو پر پارلیمنٹ میں ہی بات ہوسکتی ہے۔
پارلیمان بارے پڑھنے والے کچھ بھی رائے رکھیں لیکن ادارہ موجود ہے تو اس کے کردار کو محدود کرنے اور بائی پاس کرنے کے نہ صرف منفی نتائج نکلیں گے بلکہ پہلے سے موجود بداعتمادی کی خلیج مزید گہری ہوگی۔
اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا یہ قانون ان قاتل لشکروں جنہیں امن لشکروں کے طور پر متعارف کروایا جاتا رہا ہے پر بھی لاگو ہوگا؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ امن و امان اور سماجی وحدت اپنی جگہ مسلمہ ضرورتیں ہیں مگر ایسا قانون جو مزید عدم توازن پیدا کرنے کا موجب بنے گا اس کے نفاذ سے قبل سنجیدگی سے غور کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی گئی؟
بلوچستان کے خصوصی و عمومی حالات کسی سے پوشیدہ نہیں صرف بداعتمادی کی خلیج ہی بہت گہری نہیں معاملات اس سے بھی زیادہ درہم برہم ہیں۔ وسیع مشاورت کے بغیر اٹھائے جانے والے اقدامات سے کیا حاصل ہوگا۔ دوریاں بڑھیں گی اور بداعتمادی بھی اس لئے ضروری ہے کہ نہ صرف اس پر نظرثانی کی جائے بلکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لایا جائے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے فیصلہ سازی وفاق کیوں کررہا ہے۔ بلوچستان اسمبلی اور حکومت جیسے بھی ہیں کس مرض کی دوا ہیں؟
باردیگر عرض ہے کہ بلوچستان کے حساس معاملات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فیڈریشن کی اکائی ہے بلوچستان مفتوحہ علاقہ نہیں۔
6 ستمبر کو منائے جانے والے یوم دفاع کے موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یہ بیان سامنے آیا کہ "سیاسی اختلافات کو نفرت میں نہ ڈھلنے دیں"۔ اب سوال یہ ہے کہ سیاسی عمل میں اختلافات کو نفرتوں اور ذاتی دشمنوں میں تبدیل کرنے کا ذمہ دار کون ہے۔
مروجہ سیاست کی اسیر سیاسی جماعتوں میں مخالفین کے لئے عدم برداشت روز اول (15اگست 1947ء) سے ہی بدرجہ اتم پائی جاتی تھی 1948ء میں فرقہ پرست ملائوں کی قرارداد مقاصد نے تکفیر و فتوے بازی کے نئے دروازے کھول دیئے سیاسی جماعتیں بھی اسی سے متاثر ہوئیں۔
سیاسی فہم کو مذہبی تڑکے لگانے کے شوقین سیاستدان اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیئے جاسکتے، مگر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاسی اختلافات کو نفرتوں میں ڈھالنے کے لئے منظم مہم بلکہ "کاروبار" اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں شروع ہوا ہے۔
صحافی و دانشور تیار کرنے سے اپنی سیاسی جماعتوں بنانے کے شوق اور پھر عمل تک کے اس سفر میں جو کچھ ہوا اور کرایا گیا اس سے بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔
"ففتھ جنریشن وار" والی مخلوق ہو یا 2003ء سے 2007ء کے درمیان تیار کئے جانے والے سینئر صحافی، تجزیہ کار اور دانشوروں (ان میں سے بہت ساروں کے یوٹیلٹی بلز تک ایک سرکاری محکمہ دیتا تھا) نے جمہوری عمل، نظام اور سیاست دونوں کو مارکیٹ میں دستیاب ہر گالی کس کے کہنے پر دی؟ وسائل کہاں سے آتے تھے برین واشنگ کہاں ہوتی تھی ان لشکریوں کو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر "فعال" کرانے میں کس کا کیا کردار تھا؟
جب تک اس پر کھل کر بات نہیں ہوگی ذمہ داروں کو احتساب کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا سیاسی اختلافات ذاتی نفرت و عداوت کی صورت میں ہی موجود رہیں گے۔
تاریخ و سیاست اور صحافت کے مجھ ایسے طالب علم کو رتی برابر حیرانی نہیں ہوتی جب یہ دیکھتا ہے کہ اپریل 2022ء سے قبل جو لوگ نسل در نسل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نظریاتی حلیف تھے اپریل سال 2022ء کے بعد ان کی اکثریت اسٹیبلشمنٹ کے تخلیق کردہ "دیوتا" کی ہمنوا ہوگئی۔
وجہ یہی ہے کہ جس گالی نفرت اور تکفیر کو انہوں نے نظریاتی حلیف کے طور پر پروان چڑھایا ان ہتھیاروں سے مزید کھل کر کھیلنے کے لئے انہیں ایک دیوتا کی سرپرستی مل گئی جو خود بھی اسی طرح کی زبان دانی کا شیدائی ہی نہیں بلکہ "ماہر" بھی تھا بلکہ ہے۔
بار دیگر عرض ہے دشنام طرازی، تکفیر، گالم گلوچ اور منہ پھاڑ کر غدار وغیرہ قرار دینے کے ان دھندوں کو آگے بڑھانے میں سیاسی و فرقہ پرست جماعتوں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی پوری پوری ذمہ دار ہے۔ اس لئے جب تک یہ سارے ماضی کے کردار و عمل پر معذرت کرکے آگے بڑھنے کا نہیں سوچتے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔